Friday 31 August 2012

Jahannum Se Bacho! - جہنّم سے بچو - Cd/Dvd Quality Video

Jahannum Se Bacho!



جہنّم سے بچو




مختصر بیان: جہنم کیا ہے؟ جہنم کے کیا اوصاف ہیں؟ جہنم میں لیجانےٍ والے اعمال کیا ہیں؟جہنم کے مستحقین کون ہیں؟ جہنم سے کیسے بچا جائے؟ ان سب کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے شيخ عطاء الرحمن سعيدى حفظه الله کے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ فرمائیں.


Sahih Bukhari Al-Jame Al-Saheeh - صحيح البخاري (ط السلفية) (ت عبد الباقي) - Arabic Hadith Books

Sahih Bukhari Al-Jame Al-Saheeh - Arabic Only
بيانات الكتاب ..
العنوان  صحيح البخاري (ط السلفية) (ت عبد الباقي)
المؤلف  الإمام البخاري
نبذه عن الكتاب
إن أصح كتاب بعد كتاب الله تعالى هو كتاب صحيح الإمام البخاري حيث التزم في نقل أحاديثه التي أوردها فيه أعلى درجات الصحة واشترط لنقلها شروطا خاصة التزم بها وتلقته الأمة بالقبول . وقد اعتمد فيه طريقة الكتب والأبواب وقد أتى على مختلف الكتب الفقهية إضافة إلى غيرها من الكتب كالتفسير والعلم والإيمان وغيرها من الكتب
• المحقق: محب الدين الخطيب - محمد فؤاد عبد الباقي



Mukhtasar Sahih Muslim - مختصر صحيح مسلم ( ت الألباني ) - Arabic Hadith Books

Mukhtasar Sahih Muslim - Arabic Only

بيانات الكتاب ..
العنوان  مختصر صحيح مسلم ( ت الألباني )
المؤلف  الإمام المنذري
نبذه عن الكتاب
تحقيق الشيخ الألباني رحمه الله ..


Haqeeqat e Zikr - حقیقت ذکر - Mp3 Bayaan Urdu

Haqeeqat e Zikr
حقیقت ذکر
محمد کبیر بٹ
Language : URDU
SIze: Total 50 MB

Hub e Rasool s.a.w. Ke Taqaze - حب رسول کے تقاضے - Mp3 Bayaan Urdu

Hub e Rasool s.a.w. Ke Taqaze
حب رسول کے تقاضے
محمد کبیر بٹ
Language : URDU
SIze: Total 51.6 MB

The Ideal Muslim - English Books

The Ideal Muslim


Author: Muhammad Ali al-Hashmi | Pages: 109 | Size: 1 MB
The ideal Muslim is a man of the highest moral character. In his relation with his rabb' (lord), himself, family, parents, relatives, friends, and the community at large, he has a most excellent example in the Prophet of Islam (pbuh). His idealism is further strengthened by the characters of the first generations of Muslims who excelled in all the various fields of human endeavour. He is reassured by the teachings of Islam that he also can reach these noble heights by working to improve his character daily.
In this title, the author gives a clear overview of the practical aspects of the Islamic lifestyle, as exemplified by the Prophet (pbuh) and his Companions (pbuh). Moving from the innermost aspect of the individual's spiritual life to his dealings with all those around him, one can see how the Muslim is expected to interact with all others in his life.
Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"
 

Mahe Muharram Ki Sharaee Aur Tareekhi Hesiyat - ماهِ محرم كی شرعی اور تاريخی حيثيت - Online Books

ماهِ محرم كی شرعی اور تاريخی حيثيت

شیخ الحدیث مولانا محمد صاحب کنگن پوری

محرم الحرام چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک اور اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ جہاں کئی شرعی فضیلتوں کا حامل ہے وہاں بہت سی تاریخی اہمیتیں بھی رکھتا ہے۔
کیونکہ اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات اس مہینہ میں رونما ہوئے بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ نہ صرف تاریخ اُمت محمدیہ کی چند اہم یاد گاریں اس سے وابستہ ہیں بلکہ گزشتہ اُمتوں اور جلیل القدر انبیاء کے کارہائے نمایاں اور فضلِ ربانی کی یادیں بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ لیکن شرعی اصولوں کی روشنی میں جس طرح دوسرے شہور و ایام کو بعض عظیم الشان کارناموں کی وجہ سے کوئی خاص فضیلت و امتیاز نہیں ہے۔ اسی طرح اس ماہ کی فضیلت کی وجہ بھی یہ چند اہم واقعات و سانحات
نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اشہرِ حُرُم (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب) کو ابتدائے آفرینش سے ہی اس اعزاز و اکرام سے نوازا ہے
جس کی وجہ سے دورِ اسلام اور دورِ جاہلیت دونوں میں ان مہینوں کی عزت و احترام کا لحاظ رکھا جاتاتھا اور بڑے بڑے سنگدل اور جفا کار بھی جنگ و جدال اور ظلم و ستم سے ہاتھ روک لیتے تھے۔ اس طرح سے کمزوروں اور ناداروں کو کچھ عرصہ کے لئے گوشۂ عافیت میں پناہ مل جاتی تھی۔

اچھے یا برے دن منانے کی شرعی حیثیت:
اسلام نے واقعاتِ خیر و شر کو ایام کی معیارِ فضیلت قرار نہیں دیا بلکہ کسی مصیبت کی بنا پر زمانہ کی برائی سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور قرآن مجید میں کفار کے اس قول کی مذمت بیان کی ہے:
وَمَا يُھْلِكُنَآ اِلَّا الدَّھْرُ (الجاثیہ۔۲۴) یعنی ہمیں زمانہ کے خیر و شر سے ہلاکت پہنچتی ہے۔
اور حدیث میں ہے:
’’زمانہ کو گالی نہ دو کیونکہ برا بھلا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
یعنی خیر و شر کی وجہ لیل و نہار نہیں ہیں بلکہ خدا کارسازِ زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اچھے یا بُرے دِن منانے کی کوئی اصل ہی تسلیم نہیں کی جیسا کہ آج کل محرم کے علاوہ بڑے بڑے لوگوں کے دن یا سالگرہ وغیرہ منائی جاتی ہیں۔

فضیلتِ محرم قرآن کریم سے:
خصوصی طور پر ماہِ محرم یا اس کے بعض ایام کی فضیلت کے متعلق میں پہلے قرآن و حدیث سے کچھ عرض کرتا ہوں، قرآن مجید میں ہے:۔
اِنَّ عِدَّةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِيْ كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ط مِنْھَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْھِنَّ اَنْفُسَكُمْ الاٰية(التوبه: ۳۶)
بے شک شریعت میں ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کے ہاں بارہ ۱۲ ماہ میں جن سے چار حرمت والے ہیں، یہی مستحکم دین ہے۔ تم ان مہینوں کی حرمت توڑ کر اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔
تفسیر جامع البیان ص ۱۶۷ میں ہے:
فَاِنَّ الظُّلْمَ فِيْھَا اَعْظَمُ وِزْرًا فِيْمَا سِوَاهُ وَالطَّاعَةُ اَعْظَمُ اَجْرًا
یعنی ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں عبادت کا بہت اجر و ثواب ہے۔
تفسیر خازن جلد ۳ ص ۷۳ میں ہے:
وانما سمیت حرما لان العرب فی الجاھلیة كانت تعظمھا فيھا القتال حتي لو ان احدھم لقي قاتل ابيه وابنه واخيهِ في هذه الاربعة الاشھر لم يھجه ولما جاء الاسلام لم يزدھا الا حرمة وتعظيما ولان الحسنات والطاعات فيھا تتضاعف وكذلك السيئات ايضا اشد من غيرھا فلا تجوز انتھاك حرمة الاشھر الحرم
یعنی ان کا نام حرمت والے مہینے اس لئے پڑ گیا کہ عرب دورِ جاہلیت میں ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ان میں لڑائی جھگڑے کو حرام سمجھتے تھے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنے یا بیٹے یا بھائی کے قاتل کو بھی پاتا تو اس پر بھی حملہ نہ کرتا۔ اسلام نے ان کی عزت و احترام کو اور بڑھایا۔ نیز ان مہینوں میں نیک اعمال اور طاعتیں ثواب کے اعتبار سے کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اسی طرح ان میں برائیوں کا گناہ دوسرے دنوں کی برائیوں سے سخت ہے۔ لہٰذا ان مہینوں کی حرمت توڑنا جائز نہیں۔


فضیلتِ محرم احادیث سے:
آیت مذکورہ بالا کی تفسیر سے محرم الحرام کی فضیلت اور اس ماہ کی عبادت کی اہمیت معلوم ہو چکی ہے۔ اب ہم احادیث سے صرف مزید وضاحت اور بعض ایام کی خوصی فضیلت پیش کرتے ہیں۔

ماہِ محرم کے روزے:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم وافضل الصلوۃ بعد الفریضۃ صلٰوۃ اللیل (اخرجہ مسلم ص ۳۶۸ ج۱، ایضا ابو داؤد، الترمذی، النسائی)
رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنهما قال قال رسول الله ﷺ من صام يوم عرفة كان له كفارة سنتين ومن صام يوما من المحرم فله بكل يوم ثلاثون يوما۔ (رواه الطبراني في الصغير وھو غريب واسناده لا بسا به) (الترغيب والترھيب ص ۲۳۷)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور جو محرم کے روزے رکھے اسے ہر روزہ کے عوض تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔
(یہ روایت اگرچہ اس پائے کی نہیں لیکن ترغیب و ترہیب میں قابلِ استیناس ہے) نیز حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ:
ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ رمضان کے بعد میں کس ماہ میں روزے رکھوں؟ آپ نے فرمایا: محرم کے روزے رکھ! کیونکہ وہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کر لی اور ایک اور قوم کی توبہ قبول کرے گا۔ ( الترغیب والترھیب ص ۲۳۶)

عاشوراء کا روزہ:
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں، جیسا کہ ابھی گزرا لیکن خصوصی طور پر یومِ عاشوراء یعنی دس تاریخ محرم کے بارے میں کثرت سے احادیث آئی ہیں۔ جو اس دن کے روزے کی بہت فضیلت بیان کرتی ہیں بلکہ بعض روایات کے مطابق رمضان شریف کے روزوں سے قبل عاشوراء کا روزہ فرض تھا۔ (جیسا کہ بعض شوافع کا قول ہے) (فتح الباری)
پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس دن کے روزے کی صرف تاکید باقی رہ گئی۔

اب قارئین اس سلسلہ میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں:

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال ما رايت النبي يتحري صيام يوم فضله علي غيره الا ھذا اليوم يوم عاشوراء وھذا الشھر يعني رمضان(اخرجه البخاري و مسلم)
ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی
کو کسی دن کے روزے کا دوسرے عام دنوں کے روزوں پر افضل جانتے ہوئے ارادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح ہ یومِ عاشوراء اور ماہِ رمضان کا (اہتمام کرتے ہوئے دیکھا ہے)۔
عن ابی قتادۃ رضی اللہ عنہ قال سئل عن صوم یوم عاشوراء فقال یکفر السنة الماضية (اخرجہ مسلم ج ۱ ص ۳۶۸)
ابو قتادہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
سے عاشوراء کے روزہ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے ایک سال گزشتہ کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
عن حفصة رضي الله عنها قالت اربع لم يكن يدعھن النبي (
) صيام عاشوراء ۔۔۔۔۔ الحديث (اخرجه النسائي)
آپ چار چیزیں نہ چھوڑا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک عاشوراء کا روزہ ہے۔ الخ

عاشوراء کا روزہ اور یہود:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ قدم المدينة فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء فقال لھم رسول الله : ما ھذا اليوم الذي تصومونه؟ فقالوا: ھذا يوم عظيم انجي الله فيه موسٰي وقومه وغرق فرعون وقومه نصامه موسٰي شكرا فنحن نصومه، فقال رسول الله : فنحن احق واولٰي بموسٰي منكم فصامه رسول الله وامر بصيامه ( اخرجہ البخار و مسلم)
رسول اللہ
جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آنحضرت نے ان سے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا، یہ بہت بڑا دن ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور اس کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا (اس پر) موسیٰ علیہ السلام نے (اس دن) شکر کا روزہ رکھا۔ پس ہم بھی ان کی اتباع میں روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، ہم تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب اور حق دار ہیں لہٰذا آپ نے خود روزہ رکھا اور (صحابہؓ کو) اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
اس حدیث سے عاشوراء کے روزہ کا مسنون ہونا ثابت ہوا۔ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں نبی نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کا بھی ارادہ ظاہر فرمایا ( رواہ رزین)۔ اور مسند احمد کی اک روایت میں گیارہ محرم کا بھی ذکر ملتا ہے یعنی ۹ محرم یا گیارہ ۱۱۔
یومِ عاشوراء اور عرب عاشوراء کے دن کی فضیلت عرب کے ہاں معروف تھی۔ اس لئے وہ بڑے بڑے اہم کام اسی دن سر انجام دیتے تھے۔ مثلاً روزہ کے علاوہ اسی روز خاہ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔
حافظ ابن حجرؒ نے بحوالہ ازرقی ذکر کیا ہے کہ ’’حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی عاشوراء کے روز خانہ کعبہ کو غلاف چڑھایا۔‘‘ (فتح الباری ج ۳ ص ۳۶۷)
حاصل یہ ہے کہ اللہ ارحم الراحمین اور نبی رحمۃ للعالمین (
) نے امتِ مسلمہ کو ماہِ محرم کی برکات و فیوض سے مطلع کر دیا ہے اور بعض ایام میں مخصوص اعمال کی فضیلت سے بھی آگاہ کر دیا ہے تاکہ ہم شریعت کے ہدایات کے مطابق عمل کر کے سعادتِ دارین حاصل کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دیکھیے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد وہ ہمیں کتنے عظیم الشان مواقع مہیا کرتا ہے جن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم فیضانِ رحمت سے دامن بھر سکیں اور تلافیٔ مافات کرتے ہوئے اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کے لئے کمر بستہ ہو سکیں۔
رمضان خیر و برکت کی بارانی کرتا ہوا گزرا تو شوال اشہر الحج (شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ) کی نوید لایا پھر ذی الحجہ ختم ہوا ہی تھا کہ حرمت و عظمت میں اس کا شریک کار سن ہجری کا پہلا مہینہ اپنی برکات و فیوض سے ہم پر آسایہ فکن ہوا۔ گویا سدا رحمت برس رہی ہے۔
کاش کوئی جھولی بھرنے والا ہو! انسان کو چاہئے کہ ان مبارک اوقات کو غنیمت جانے اور اعمالِ صالحہ صوم و صلوٰۃ، ذکر و فکر، جہد و جہاد میں مصروف رہ کر اپنے آقا کو خوش کرے اور خداوندِ عزوجل کا قرب حاصل کر کے منزل مقصود پر پہنچ جائے
لیکن یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ ہم ان ایام و شہور کی اصل برکتوں سے محروم رہ کر غلط رواجات اور قبیح رسومات میں مبتلا ہو کر یا ان میں شرکت کر کے ارحم الراحمین کی رحمت بے پایاں سے تہی دامن رہتے ہیں بلکہ اُلٹا گناہ گار ہو کر اس کے غضب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

ماہِ محرم کی بدعات:
ہم نے ماہِ محرم سے بہت سے غلط رواج وابستہ کر لیے ہیں، اسے دکھ اور مصیبت کا مہینہ قرار دے لیا ہے جس کے اظہار کے لئے سیاہ لباس پہنا جاتا ہے۔ رونا پیٹنا، تعزیہ کا جلوس نکالنا اور مجالس عزاء وغیرہ منعقد کرنا یہ سب کچھ کارِ ثواب سمجھ کر اور امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ سب چیزیں نہ صرف نبی کے فرمودات کے خلاف ہیں بلکہ نواسۂ رسول کے اس مشن کے بھی خلاف ہیں جس کے لئے انہوں نے اپنی جان قربان کر دی۔ شیعہ حضرات کی دیکھا دیکھی خود کو سنی کہلانے والے بھی بہت سی بدعات میں مبتلا ہو گئے ہیں مثلاً اس ماہ میں نکاح شادی کو بے برکتی اور مصائب و آلام کے دور کی ابتداء کا باعث سمجھ کر اس سے احتراز کیا جاتا ہے اور لوگ اعمالِ مسنونہ کو چھوڑ کر بہت سی من گھڑت اور موضوع احادیث پر عمل کرتے ہیں۔
مثلاً بعض لوگ خصوصیت سے عاشوراء کے روز بعض مساجد و مقابر کی زیارتیں کرتے اور خوب صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اس دن اہل و عیال پر فراخی کرنے کو سارے سال کے لئے موجبِ برکت سمجھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

کیا ماہِ محرم صرف غم کی یادگار ہے؟
شہادت حسینؓ اگرچہ اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں جس کی یاد محرم سے وابستہ ہے بلکہ محرم میں کئی دیگر تاریخی واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن میں سے اگر چند ایک افسوسناک ہیں تو کئی موقعے ایسے بھی ہیں جن پر خوش ہونا اور خدا کا شکر بجا لانا چاہئے
جیسا کہ نبی اکرم نے موسیٰؑ کی اقتداء میں عاشورے کے دن شکر کا روزہ رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن موسیٰؑ کو فرعون سے نجات دی تھی۔ نیز اگر اتفاق سے شہادتِ حسینؓ کا المیہ بھی اسی ماہ میں واقع ہو گیا تو بعض دیگر جلیل القدر صحابہؓ کی شہادت بھی تو اسی ماہ میں ہوئی ہے۔ مثلاً سطوتِ اسلامی کے عظیم علمبردار خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسی ماہ کی یکم تاریخ کو حالت نماز میں ابو لؤلؤ فیروز نامی ایک غلام کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
اس لئے شہادتِ حسینؓ کا دن منانے والوں کو ان کا بھی دن منانا چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام اسی طرح دن منانے کی اجازت دے دے تو سال کا کوئی ہی ایسا دن باقی رہ جائے ا جس میں کوئی تاریخی واقعہ یا حادثہ رونما نہ ہوا ہو اور اس طرح مسلمان سارا سال انہی تقریبات اور سوگوار ایام منانے اور ان کے انتظام میں لگےے رہیں گے۔

آزمائشیں دنیا کی امامت اور حیات جاودانی بخشتی ہیں:
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا دار البلاء اور امتحان گاہ ہے۔ اس دنیا میں ہر نبی اور امت پر کٹھن وقت آئے ہیں صرف بنی اسرائیل ہی کو لیجئے۔ ان پر کس قدر آزمائشیں آئیں؟ کس قدر انبیاء بے دریغ قتل کئے گئے؟ کتنے معصوم بچے ذبح ہوئے؟ جس کا اعتراف قرآن کریم نے بھی کیا ہے:
وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ
یعنی اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی
ہمارے نبی فداہ ابی و امی، اہل بیت، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف و خلف میں ائمہ دین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین پر ایسی ایسی مشکل گھڑیاں آئیں کہ ان کے سننے سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
بعثت سے لے کر واقعہ کربلا اور پھر کربلا سے لے کر اب تک اسلامی تاریخ کا کونسا ایسا ورق ہے جو اس قسم کے دِل ہلا دینے والے واقعات سے خالی ہو؟ نبی کی مکی زندگی اور اسلام قبول کرنے والوں کے دل دوز حالات اور پھر مدنی زندگی اور حق و باطل کے معرکے کس قدر جگر سوز ہیں۔ کیا شہادت حمزہؓ، شہادتِ عمرؓ، شہادتِ عثمانؓ، شہادتِ علیؓ، شہادت عبد اللہ بن زبیرؓ اور شہادت جگر گوشۂ رسول حسینِ کے لرزہ خیز حالات سننے کی تاب کسی کو ہے؟ لیکن یہی آزمائشں تو انہیں امامت کے منصب پر فائز کرتی ہیں اور حیات جاودانی بخشتی ہیں۔
قرآن مجید میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہیں دنیا کی امامت آزمائشوں میں کامرانی کے بعد ہی ملی تھی۔ ارشاد ہے:
وَاِذِ ابْتَلٰيْٓ اِبْرَاھِيْمَ رَبُّهُ بِكَلِمٰتٍ فَاَتمَّھُنَّ قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلْنَّاسِ اِمَامًا
یعنی ہم نے اپنے بندے ابراہیم کو چند آزمائشوں سے گزارا، وہ ان میں پورے اترے تو ہم نے کہا (اے ابراہیم) ہم آپ کو دنیا کا امام بنا رہے ہیں۔ (البقرہ: ۱۲۴)
ترمذی میں ہے:
’’ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ظالم نے لوگ باندھ کر قتل کیے وہ ایک لاکھ بیس ہزار تھے (جن میں سے بیشتر صحابہ، جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین تھے)‘‘
اور مسلم میں ہے کہ:
’’حجاج نے عبد اللہ بن زبیرؓ کو کئی روز تک سولی پر لٹکائے رکھا۔ لوگ آتے اور ان کا درد ناک انجام دیکھ کر گزر جاتے، جب عبد اللہ بن عمرؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو کہنے لگے۔ میں نے تجھے کئی بار منع کیا تھا۔ تین بار کہا۔ پھر فرمایا۔ خدا کی قسم!
جہاں تک مجھے علم ہے تو بہت روزے رکھنے والا، بہت قیام کرنے والا اور بہت صلہ رحم تھا۔ خبردار! جو امت تجھ کو برا سمجھتی ہے بُری امت ہے! حجاج بن یوسف کو جب یہ خبر پہنچی تو ابن زبیرؓ کی نعش کو وہاں سے اتروا کر اسے بے گور و کفن یہود کے قبرستان میں پھینک دیا۔ پھر ان کی والدہ اسماءؓ، بنت ابی بکر الصدیقؓ کو بلایا۔ وہ نہ آئیں تو دوبارہ آدمی بھیجا اور کہا کہ آجا! ورنہ ایسے آدمی بھیجوں گا جو تجھے چوٹی (میڈیوں) سے پکڑ کر گھسیٹ کر لائیں گے۔ اسماءؓ نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک تو ایسے آدمی نہ بھیجے جو مجھے زمین پر گھسیٹ کر تیرے پاس لائیں میں نہیں آؤں گی۔ پھر حجاج غصہ میں اُٹھا اور الٹا جوتا پہن کر تکبر سے اسماءؓ کے پاس آیا اور کہا تو نے دیکھا لیا، میں نے اللہ کے دشمن (تیرے بیٹے عبد اللہ) کے ساتھ کیسا کیا ہے؟ حضرت اسماء نے جواب دیا، میں نے دیکھا لیا کہ تو نے اس کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت تباہ کر دی۔ نیز فرمایا،میں نے سنا ہے کہ تو میرے بیٹے عبد اللہؓ کو ’’دو آزار بند والی کا بیٹا‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ خدا کی قسم! واقعی میرے دو آزار بند تھے، ایک سے میں رسول اللہ اور ابو بکرؓ کا کھانا باندھتی تھی جس وقت کہ وہ غارِ ثور میں چھپے ہوئے تھے۔ دوسرا وہی جو عورتوں کے لئے ہوتا ہے، پھر حضرت اسماء نے کہا: گوش ہوش سے سن لے کہ رسول اللہ نے ہمیں بتایا تھا کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک مفسد ہو گا۔ کذاب تو میں پہلے دیکھ چکی ہوں اور مفسد تو ہی ہے۔ پس وہ لاجواب ہو کر چلا گیا۔‘‘
اسی طرح اپنوں ہی نے حضرت عثمانؓ خلیفہ ثالث اور نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ کو میدانِ کربلا میں جس طرح تختہ مشق بنایا اور بے جگری سے شہید کیا، سن کر پتا پانی ہوتا ہے۔
غرضیکہ دنیا آزمائشوں کا گھر اور حق و باطل کا میدان کار زار ہے۔ اس میں خدا پرستوں پر اللہ کے دین کی خاطر اسی طرح کے مصائب و آلام کی بارش ہوا کرتی ہے جس سے وہ ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ دکھ اور الم کی لہروں کے سامنے وہ چٹان بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ ان کے دل ڈرتے ہیں، نہ پاؤں ڈگمگاتے ہیں بلکہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے اعتبار سے ہمیشہ کامیاب و کامران لوٹا کرتے ہیں۔

نوحہ اور ماتم بزرگانِ ملّت کی تعلیم کے خلاف اور ان کے مشن کی توہین ہے:
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پاکباز ہستیاں کس طرح صبر و استقلال کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ ان کے خلفاء اور ورثاء بھی ان کے نقش قدم پر چلے۔ نہ کسی نے آہ و فغاں کیا، نہ کسی نے ان کی برسی منائی نہ چہلم، نہ روئے نہ پیٹے، نہ کپڑے پھاڑے، نہ ماتم کیا اور نہ تعزیہ کا جلوس نکال کر گلی کوچوں کا دورہ کیا بلکہ یہ خرافات سات آٹھ سو سال بعد تیمور لنگ بادشاہ کے دور میں شروع ہوئیں لیکن یہ سب حرکتیں اور رسوم و رواج نہ صرف روح اسلام اور ان پاکباز ہستیوں کی تلقین و ارشاد کے خلاف ہیں بلکہ ان بزرگوں کی توہین اور غیر مسلمانوں کے لئے استہزاء کا ساماں ہیں۔ اسلام تو ہمیں صبر و استقامت کی تعلیم دیتا ہے اور ’’بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ‘‘(صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو) کا مژدہ سناتا ہے۔
اَلَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ
وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

نوحہ اور ماتم کی مذمت زبان رسالت سے:
نوحہ اور ماتم کی مذمت کے سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی کئی آیات اور احادیث نبوی سے استدلال کیا جا سکتا ہے بلکہ شیعہ حضرات کی بعض معتبر کتابوں سے ان کی ممانعت ثابت کی جا سکتی ہے لیکن اختصار کے پیشِ نظر اس صحبت میں ہم صرف دو فرمان نبوی پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔
نمبر1۔
قال رسول اللہ لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاھلیہ (بخاری و مسلم)
آنحضرت
نے فرمایا جو شخص رخسار پیٹے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا واویلا کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
نمبر2۔
قال رسول اللہ انا بریٔ من حلق و صلق وخرق (بخاری و مسلم)
آپ نے فرمایا جو شخص سر منڈوائے، بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے میں اس سے بیزار ہوں۔


ماہِ محرم کے چند تاریخی واقعات:
اب آخر میں وہ چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں جو ماہِ محرم میں وقوع پذیر ہوئے لیکن آج عوام میں امام حسینؓ کی شہادت کے علاوہ ان کی یادیں طاق نسیاں میں رکھی رہتی ہیںَ اگرچہ ان کے ذِکر سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ
شہادتِ حسینؓ کی طرح ان کی بھی یادیں منائی جائیں کیونکہ جیسا کہ میں پہلے ذِکر کر چکا ہوں کہ اگرچہ اسلام ان واقعات کی اہمیت اپنی جگہ تسلیم کرتا ہے اور ان کی عظمت کی یاد دہانی بھی ضروری سمجھتا ہے تاکہ ان کا کردار ہمیں جذبۂ قربانی اور شوق شہادت دے اور جن موقعوں پر مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی یا ظلم و ستم سے نجات حاصل کی ان کے ذِکر سے ہماری تثبیتِ قلبی ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر سکیں لیکن وہ اس عظمت میں لیل و نہار کا کسی طرح کا دخل تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی عظمت میں انہیں شریک کار بناتا ہے۔
بلکہ میرا مقصد تاریخی یاد داشتوں کی حیثیت سے ان کا ذِکر ہے۔
دو جلیل القدر صحابیوں، بطل جلیل امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور گوشۂ جگر رسول
سید شباب المسلمین حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے جو بالترتیب یکم محرم اور دس محرم الحرام کو واصل بحق ہوئے اور ابتدائے آفرینش سے لے کر بعثت رسول تک چیدہ چیدہ واقعات درج ذیل ہیں:
نمبر1:
آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے ان کی قوم کے ہتھکنڈوں سے اسی ماہ میں نجات ملی اور طوفانِ نوح میں مجرم کیفرِ کردار کو پہنچے۔
نمبر2:
ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نارِ نمرود اسی ماہ میں گلزار بنی اور نمرود اور اس کے ایجنٹوں کی کوششیں اکارت گئیں۔
نمبر3:
موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے دس محرم (عاشوراء) کو نجات ملی اور فرعون اور اس کی فوج غرقاب ہوئی۔
اس قسم کے بہت سے دیگر معرکہ ہائے حق و باطل تھے جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حق کو کامیابی نصیب ہوئی اور باطل خائب و خاسر ہوا۔ اگر ان شخصیتوں سے ہمارا بھی کوئی دینی اور روحانی تعلق ہے اور اسی حق میں ہم پیروکار ہیں جس کی خاطر انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور جابر و ظالم بادشاہوں سے ٹکر لی تو ہمیں جہاں امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن الخطاب کی شہادت کا غم ہے وہاں ان چند واقعات پر خوش بھی ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے حق کی مدد فرما کر اسلامی تاریخ کو ایسا تابناک بنایا اور ہمارے اسلاف کو اسی حق کی خاطر ثابت قدم فرما کر دین کا بول بالا کیا۔
ہمیں چاہئے کہ ان واقعات سے اچھا سبق لیں اور ان بزرگوں کی زندگیوں سے دینِ الٰہی کی خاطر ہر قسم کی جدوجہد کا نمونہ حاصل کریں۔ حتیٰ کہ اگر اس راہ میں اپنے جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔ ان واقعات کی یہی روح اور یہی ان بزرگوں کا مشن تھا۔ یہی راستہ دارین کی فوز و فلاح کا ضامن ہے اور یہی ان سے اظہارِ محبت کا طریقہ ہے۔
محرم کے مروجہ رواجات و رسوماتِ ماتم، مرثیہ خوانی، مجالس عزاء، تعزیہ داری، علم دلدل، مہندی تابوت، لباسِ غم پہننا، امام حسین کے نام کی سبیلیں لگانا، ان کے نام کی نذر و نیاز دینا اور مالیدہ چڑھانا شرعاً ممنوع ہونے کے ساتھ ساتھ ان ائمہ کے مشن سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نہ ہی ان کے خلاء و ورثاء محبین مخلصین کا یہ وطیرہ تھا او نہ ہی یہ سب کچھ ان سے اظہارِ عقیدت کا ذریعہ ہے۔
مراد ما نصیحت بود گفتمیم
حوالت با خدا کریم رفتیم

اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صحیح رستہ پر چلائے اور بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

15 Shaban Ki Fazilat Mein Kya Varnit Hai? - Hindi Islamic Books

15 Shaban Ki Fazilat Mein Kya Varnit Hai?



Pages: 7


Size: 0.2 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Islami Ikhlaq - Pamphlets

Islami Ikhlaq



Pages: 10


Size: 0.5 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Kya Iblees Aalim Tha? - Urdu Books

Kya Iblees Aalim Tha?



Pages: 11


Size: 1 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Khutba e Nikah - Urdu Books

Khutba e Nikah



Pages: 15


Size: 1.5 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Janab Gulam Ahmad Parvez Apne Alfaz Ke Aaine Mein - Urdu Books

Janab Gulam Ahmad Parvez Apne Alfaz Ke Aaine Mein



Pages: 423


Size: 7.5 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Jhoot Ki Sangeeni Aur Uski Iqsam - Urdu Books

Jhoot Ki Sangeeni Aur Uski Iqsam



Pages: 226


Size: 4 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Jashn e Eid e Miladunnabi s.a.w. - Urdu Books

Jashn e Eid e Miladunnabi s.a.w.



Pages: 68


Size: 2.6 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Imam Bukhar Par Aitrazat Ka Jaiza - Urdu Books

Imam Bukhar Par Aitrazat Ka Jaiza



Pages: 130


Size: 2.3 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Monday 27 August 2012

Ahadees Al-Sunan Al-Arba Al-Mozuah - Arabic Hadith Books

Ahadees Al-Sunan Al-Arba Al-Mozuah - Arabic Only
بيانات الكتاب ..
العنوان  أحاديث السنن الأربعة الموضوعة بحكم العلامة الألباني
المؤلف  محمد شومان الرملي
نبذه عن الكتاب
دار ابن عفان للنشر والتوزيع ..
جمورية مصر العربية

Maqsad e Hayat - مقصد حیات - Mp3 Bayaan Urdu

Maqsad e Hayat
مقصد حیات
محمد کبیر بٹ
Language : URDU
SIze: Total 49 MB

The Beard Between the Salaf and the Khalaf - English Books

The Beard Between the Salaf and the Khalaf



Author: Muhammad al-Jibaly | Pages: 18 | Size: 1 MB
This book is part of a series entitled, "Enter into Islaam Completely," which deals with various issues that are of importance for Muslim, but are underplayed or even slighted by many. When one of these issues is brought up, you often hear the objection, "This is merely an issue of peel! Let us only deal with the important issue of the core!" Classifying the teachings of Islaam into core and peel is a bid'ah that affects the hearts of the common people in a most detrimental way, and leads them to belittling many of the acts of worship and traits of the Islamic character, therby approving wrong acts and rejecting good ones based on a crooked scale that they have developed. Allaah commands the believers to adhere to Islaam in its totality.

Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"
 

Inkar e Hadees Se inkar e Quran Tak - Urdu Books

Inkar e Hadees Se inkar e Quran Tak



Pages: 505


Size: 7.6 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Ibadat MEin Bidat Aur Sunnat e Nabwi Se Inka Radd - Urdu Books

Ibadat MEin Bidat Aur Sunnat e Nabwi Se Inka Radd



Pages: 321


Size: 5.7 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Hujjiyat e Hadees - Urdu Books

Hujjiyat e Hadees



Pages: 166


Size: 6.4MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Wednesday 22 August 2012

Muwatta Malik - موطأ مالك ـ رواية أبي مصعب الزهري - Arabic hadith Books

Muwatta Malik - Arabic Only
بيانات الكتاب ..
العنوان  موطأ مالك ـ رواية أبي مصعب الزهري
المؤلف   الإمام مالك بن أنس
نبذه عن الكتاب
خير كتاب أخرج للناس في عهده، ثم ما خايره فخاره كتاب أخرج من بعده. قال فيه الشافعي ـ رحمه الله ـ :"ما ظهر على الأرض كتاب بعد كتاب الله، أصح من كتاب مالك". وقال البخاري عن الموطأ: "من أصح الأسانيد مالك عن نافع عن ابن عمر". وقال الإمام مالك نفسه عن كتابه هذا: "عرضت كتابي هذا على سبعين فقيهًا من فقهاء المدينة ، فكلهم واطأني عليه فسميته الموطأ".

Namaz Ki Ahmiyat - Mp3 Byaan Urdu

Namaz Ki Ahmiyat
نماز کی اہمیت
محمد کبیر بٹ
Language : URDU
SIze: Total 47 MB

Winning the Heart of your Wife - English Books

Winning the Heart of your Wife


Author: Ibraahim Ibn Saaleh al-Mahmud | Pages: 62 | Size: 3 MB
Happiness is a feeling that resides in the heart. It is characterized by peace of mind, tranquility, a sense of well-being, and a relaxed disposition. It comes as a result of proper behavior, both inward and outward, and is inspired by strong faith. This is attested to by the Qur’ân and Sunnah. Happy marriages are fundamental to a stable family and for personal well being. This book is specifically written for men so that inshallah they can have succesful marriages

Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"
 

Ummat e Muslimah Mein Shirk Ka Masla - اُمت مسلمہ میں شرک کا مسئلہ - Online Books

اُمت مسلمہ میں شرک کا مسئلہ

سید محمد علی
شرک گناہ کبیرہ اور سنگین جرم ہے۔ اس کا مرتکب اپنے خالق اور محسنِ حقیقی کا ایسا مجرم ہے کہ اس پر جنت کو حرام کردیا گیا ہے (المائدہ:72) اور اگر یہ بغیر توبہ کیے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے لیے مغفرت کی تمام راہیں مسدود ہیں (النسائی:48) قیامت کے روز اس کا سب کِیا دھرا غبار کی طرح اُڑا دیا جائے گا (الفرقان:23) شرک کی برائی اور شناخت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قوم موسیٰ کے وہ عناصر جو بچھڑے کی عبادت میں بہک گئے اور اُن سے شرک سرزد ہوا تو قانونِ الٰہی میں اس کی کم سے کم سزا یہ طے پائی کہ ان مشرکین کو قتل کردیا جائے، خواہ وہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں (البقرہ:54) شرکیہ افعال میں ملوث افراد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خدا کی زمین پر اُس کی
نعمتوں سے متمتع ہوں۔ اسی مقصد کے تحت فتح مکہ کے بعد مشرکین کو قتل کردینے کا عمومی حکم جاری ہوا (التوبہ:5)
اور ظاہر ہے کہ احسان فراموشی کی حد ہوگی کہ ایک طرف انسان کو اپنے رب کے حقوق پامال کرنے میں ذرا تامل نہ ہو اور دوسری طرف اس رب ہی کی عطا کردہ نعمتوں سے لذتِ کام و دہن کا سامان کرتا رہے اور نہ صرف یہ کہ اپنے وجود کی بقا کو ممکن بناتا رہے بلکہ اس کی رونقوں کو دوبالا کرنے اور آسائشیں حاصل کرنے کے لیے کسی طرح بھی اپنے رب کی عطا سے بے نیاز نہ ہو۔
انسانوں سے عقیدت و احترام کا تعلق روا رکھنا، مستحسن عمل ہے مگر یہ رویہ شرک باللہ کی صورت اختیار کرلے تو اِس سے زیادہ قبیح حرکت بھی کوئی نہیں ہے۔ خدا کی ذات سب سے اعلیٰ و برتر ہے۔ خالق، معبود اور مقتدر ہونے کی حیثیت سے وہ تنہا اور لاشریک ہے۔ اُس کی بزرگی اور عزت و توقیر کے سامنے تمام کائنات کی بزرگیاں اور عزتیں ہیچ ہیں۔ اسلام نے فلسفۂ ادب و اخلاق میں جس اہم اصول کا اضافہ کیا ہے وہ یہ کہ خالق اور مخلوق کے مابین ذات اور صفات کے لحاظ سے کوئی مطابقت نہیں ہے۔
مخلوقات میں سے مثال کے طور پر رسول، نبی، ولی، بزرگ، شب زندہ دار، صاحب سلطنت و وقار، یہ سب قابل احترام ہیں، مگر خدا اور خدائی صفات کے مقابلے میں یہ بجاے خود محتاج اور بے بس لوگ ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے ایک سانس کو بھی فرحت ِ جاں نہیں بنا سکتے، یہ کسی بھی جہت سے مارواے اسباب افعال و اعمال اختیار کرنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی امداد نہیں کرسکتے جو سمجھ میں آنے والی یا دِکھنے والی نہ ہو۔ مادی ذرائع کے بغیر کسی کی فریاد نہیں سن سکتے۔ مرنے کے بعد زندہ انسانوں سے کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رکھ سکتے۔
انسانی تاریخ میں اکثر و بیشتر جو شرک ہوا ہے وہ ذات باری کے ساتھ نہیں ، بلکہ اللہ کی صفات کی جہت سے تھا۔ یہ دعویٰ تو معدودے چند لوگوں کا رہا ہے کہ اس کائنات کے خالق دو ہیں یا فلاں بزرگ و ہستی اللہ کی طرح ہے یا اللہ کے برابر ہے۔ عام طور پر جو شرک زمانہ جاہلیت میں رائج تھا، آج بھی موجود ہے اور جس کی تردید میں قرآن کا اکثر و بیشتر حصہ نازل ہوا ہے، وہ صفاتِ باری کے ساتھ شرک ہے۔
مثال کے طور پر یہ کہ ’علم ِغیب‘اللہ کی خاص صفت ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ بغیر سبب کے ماوراے حواس اشیا کا ادراک حاصل کرلینا، خبر پہنچے بغیر مستقبل کے احوال جان لینا، از خود نوشتہ تقدیر پر مطلع ہو جانا، یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ہیں، جو کسی معمولی درجے میں بھی غیراللہ کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔
اس حوالے سے صریح ارشاد ہوا ہے:
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ط وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (النمل:65)
’’ان سے کہو: اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ (تمہارے معبود تو یہ بھی ) نہیں جانتے کہ کب وہ اُٹھائے جائیں گے۔‘‘
اسی طرح بغیر کسی سبب کے امداد و نصرت کرنا، عالم دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد بھی زندوں سے ربط و تعلق باقی رکھنا اور اِن کی فریاد سننا، تغیرات زمانہ پر اختیار و طاقت رکھنا، یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ہیں۔ اِن کے مظاہر بے شمار ہیں، یہاں احصاء مقصود ہے نہ ممکن۔ یہ صفات کا شرک مختلف ادیان و مذاہب سے وابستہ حضرات کے عقائد میں پایا جاتا ہے اور یہی شرک فی الصفات اسلام سے قبل مکہ میں بھی رائج تھا۔ یہ سب لوگ اللہ عزوجل ہی کو کائنات کا خالق، بادشاہ، سمیع و بصیر، رازق و ممیت سمجھتے تھے، مگر اس کے باوجود قرآن کے مطابق یہ اصل مشرک قرار پائے اور یہی تھے جن پر جنت کو حرام کردیا گیا۔
اِس سلسلے میں ہمارے پیش نظر جو مسئلہ ہے وہ یہ کہ کیا اُمت مسلمہ کے حوالے سے یہ امکان موجود ہے کہ وہ اس شرک میں مبتلا ہوجائے؟ یا سرے سے یہ امکان ہی پیدا نہیں ہوتا اور مسلمان ہوجانے کے بعد شرک کا ارتکاب کرنا ناممکن افعال میں سے ہے۔
ہماری رائے میں ایمان لانے کے بعد کوئی بھی شخص دوبارہ کفر و شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ ’’اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو
لَفِسْقٌ ط وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ(الانعام:121)
اُس کا گوشت نہ کھائو، ایسا کرنا فسق ہے۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو‘‘
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ (الانعام:82)
’’حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔ ‘‘
چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : ’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کس نے ظلم نہیں کیا؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: اس کی مراد وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو… بلکہ اِس سے مراد شرک ہے۔ ‘‘ (بخاری:32 ؛ مسند احمد:444/1 )
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ (آل عمران:100)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔‘‘
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِج وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (النحل:106)
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے وہ اگر مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کرلیا اُس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ (یوسف: 106)
’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔‘‘
ایمان لانے کے بعد کفر کی ایک صورت تو ارتداد کی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ مومن کسی ایسے عمل کا ارتکاب کرلے جو شریعت کے بیانات کی روشنی میں صراحتاً کفر اکبر یا شرک ہے تو ایسا شخص دعواے اسلام و ایمان کے باوجود کافر و مشرک ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بعض مدعیانِ علم اس دوسری قسم کے کفر کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور اِن کے خیال میں ایمان کے بعد کفر کی بس یہی صورت ہے کہ کوئی مسلمان اِن سے بول کر کہہ دے کہ میں کافر ہونے جارہا ہوں! یہ نظریہ کج فہمی اور شریعت کے گہرے مطالعے سے محرومی کا نتیجہ ہے، کیونکہ اِسے تسلیم کرلینے کی صورت میں آپ نے تمام اہل باطل اور گمراہ فرقوں کو اِذن دے دیا ہے کہ وہ زبان سے اسلام، توحید اور رسالت کا اقرار بھی کرتے رہیں اور اُمت میں کفر و شرک کی تخم ریزی بھی جاری رکھیں۔
سوال یہ ہے کہ اِس اصول کو تسلیم کرلینے کے بعد آپ کسی قادیانی کو کافر اور زندیق کیسے کہہ سکیں گے، جو توحید او رختم رسالت کا قائل ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد مانتا ہے!! اِسی طرح شعائر اسلام کی عملاً توہین کرنے والا اور بت کو سجدہ کرنے والا جب تک زبان سے اقرار کرتا رہے گا کہ میں مسلمان و مومن ہوں تو مذکورہ اصول کی روشی میں یہ پکا مسلمان رہے گا!!
اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ ایمان لانے کے بعد کفر و شرک میں مبتلا ہونا ممکن ہے، جیسا کہ آیاتِ قرآن کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے، لیکن نبی ﷺکی ساری اُمت مشرک نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ فرمانِ نبوی ہے:
وَاللّٰہِ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِی (بخاری:1344)
’’مجھے تم سے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد شرک کرو گے۔‘‘
کچھ لوگ ضرور توحید پر قائم رہیں گے اور کچھ مشرک ہوں گے۔ جیسا کہ فرمان نبوی ہے:
لَا تَقُوْمُ السَّاعۃُ حتّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِیْنَ، وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِیْ الأوْثَانَ (ابوداؤد:4252)
’’اُتنی دیر تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری اُمت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں۔ اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے۔‘‘
بعض اربابِ بدعت اور اہل شرک کی جانب سے یہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے کہ اُمت مسلمہ میں شرک پیدا ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، لہٰذا مسلمان کے کسی عمل کو شرکیہ اور بڑے سے بڑے شرک کا مرتکب ہونے کے باوجود خود اِسے مشرک نہیں کہا جاسکتا۔ خواہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی ذات کا نور (ٹکڑا) مانتا ہو، خواہ وہ کہنے والا ہو ؎
ظاہر دے وچ مرشد ہادی باطن دے وچ اللہ
نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ
(حج فقیربر آستانہ پیر :ص45)
سانوں کعبے دے جانے دی لوڑ نئیں
کعبہ روضہ تیرا قلعے والیا
(سہ حرفی رموز معرفت :ص16)

خواہ وہ ہر مردہ یا زندہ بزرگ کے بارے میں یہ خیال رکھتا ہو کہ وہ اِس کے حالات سے واقف ہے یعنی علم غیب رکھتا ہے، چاہے وہ بہت سی ہستیوں کے بارے میں سمجھتا ہو کہ وہ ماوراے اسباب امداد و نصرت کرنے پر قادر ہیں، خواہ وہ اپنی تحریر میں درج ذیل دعویٰ کرتا ہو:
’’انبیا و مرسلین، اولیا، علما، صالحین سے ان کے وصال کے بعد بھی استعانت و استمداد جائز ہے، اولیا بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔‘‘ (رسالۃ حیاۃ الموات از احمد رضا بریلوی)
’’میں نے جب بھی مدد طلب کی، یا غوث ہی کہا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک دوسرے ولی (حضرت محبوب الٰہی) سے مدد مانگنی چاہی، مگر میری زبان سے ان کا نام ہی نہ نکلا۔ بلکہ زبان سے یاغوث ہی نکلا!‘‘ (ملفوظات از احمد رضا بریلوی:ص307)
خواہ وہ براہِ راست مردوں کو پکار کر اِن سے فریاد کرتا ہو، چاہے وہ قبروں پر بت گاڑھ کر سجدے کرتا ہو، خواہ وہ غیراللہ کے نام پر قربانیاں دیتا، نذریں مانتا اور ذبیحے پیش کرتا ہو!خواہ اُس کی شاعری کی نوعیت کچھ یوں ہو ؎
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر
اُتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہوکر
یہ مشرک ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اُمت مسلمہ کا فرد ہے اور اسلام لاکر اپنے منہ سے ایمان کا دعویدار ہے!! اور اس پر دلیل اِس حدیث کو قائم کرتے ہیں جسے صحیح مسلم میں روایت کیا گیا ہے:
إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَنْ یَعْبُدَہُ الْمُصَلُّونَ فِی جَزیْرَۃِ الْعَرَبِ وَلٰکِنْ فِی التَّحْرِیشِ بَیْنَھُمْ (مسلم:5030)
’’بے شک شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرئہ عرب میں نماز پڑھنے والے اُس کی عبادت کریں گے لیکن اُن کے مابین تنازعات پیدا کرنے سے (مایوس نہیں ہے)‘‘
جبکہ اِس حدیث کا مفہوم بہت واضح ہے کہ یہاں صرف قدیم جزیرئہ عرب کے باسیوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ وہ اب شیطان کے وسوسوں کا شکار نہیں ہوسکتے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اس پر تاریخ کی شہادت کافی ہے۔ فلہٰذا اہل شرک و بدعت کا یہ دعویٰ سخت باطل، امر واقعہ کے خلاف، دین کے محکم بیانات سے یکسر مختلف اور پیغمبر اسلام ﷺ کے فرامین سے متصادم ہے۔ قرآن و سنت کے معتدبہ دلائل سے ثابت ہے کہ شرک کا اندیشہ مسلمان کو بھی لاحق ہوتا ہے۔ وہ بے احتیاطی کی وجہ سے کسی وقت بھی شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے، بلکہ فی زمانہ یہ شرک فی الصفات اُمت میں کثرت سے موجود ہے۔

اُمت مسلمہ میں شرک کے وجود پر دلائل
اُمت مسلمہ میں شرک کے وجود پر کچھ اہم دلائل پیش خدمت ہیں:
پختہ روایات سے ثابت ہے کہ نبی
نے صراحتاً اُمت مسلمہ میں شرک کے وجود کی خبر دی ہے۔ اس سلسلے میں جو روایات ملتی ہیں وہ انتہائی مستند کتب احادیث میں موجود ہیں۔ ذیل میں چند ایک کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے:
أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَضْطَرِبَ أَلَیَاتُ نِِسَائِ دَوْسٍ عَلَی ذِي الخَلَصَۃِ (بخاری: 7116)
’’رسول اللہ
نے فرمایا: اُس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوس قبیلے کی عورتیں ذی الخلصہ نامی بت (زمانہ جاہلیت میں اِس کی پوجا ہوتی تھی) کا طواف کریں گی۔‘‘
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُولُ : لَا یَذْھَبُ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ حَتَّی تُعْبَدَ اَللَّاتُ وَالعُزَّی (مسلم:2907)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ
کو کہتے ہوئے سنا کہ اِتنی دیر تک رات اور دن ختم نہیں ہوں گے یہاں تک کہ لات اور عزی کی پرستش کی جائے گی۔ ‘‘
لَا تَقُوْمُ السَّاعۃُ حتّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِیْنَ، وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِیْ الأوْثَانَ(ابوداؤد:4252)
’’اُتنی دیر تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری اُمت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں۔ اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے۔‘‘
یہ احادیث صحت اور صراحت کے تمام معیارات کے ساتھ واضح کررہی ہیں کہ اُمت مسلمہ کے بعض لوگ لازماً شرک کا ارتکاب کریں گے۔ اب یہ امر اُن حضرات کے لیے فکرمندی اور دامن گرفتگی کا باعث ہونا چاہیے جن کو علماے حق مشرک اور اُن کے اعمال کو شرکیہ قرار دیتے ہیں کہ انہیں اپنے عقائد میں درستی کا عمل جاری کرنا ہے یا شرک کو اپنا کر ان احادیث کا مصداق بنے رہنا ہے!
اگر یہ مان لیا جائے کہ اُمت مسلمہ میں شرک پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں ہے یا کوئی کلمہ گو مشرک نہیں ہوسکتا تو کلام نبوت کا وہ بیشتر حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے جس میں شرک اور شرکیہ ذرائع سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور روے سخن اہل اسلام (اُمت مسلمہ) کی طرف ہے۔ فرامین نبوت میں سے چند نمونے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
اِتَّقُوْا ھٰذَا الشِّرْکَ فَاِنَّہٗ اَخْفٰی مِنْ دَبیْبِ النَّمْلِ (مسند احمد:403/4)
’’شرک سے بچو کیونکہ یہ چیونٹی کے چلنے کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔‘‘
مذکورہ حدیث سن کر صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول
! ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
تو آپ نے یہ دعا سکھلائی:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ اَنْ نُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا نَعْلَمُہٗ وَنَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَانَعْلَمُہٗ
اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَل قَبْرِی وَثَنًا لَعَنَ اللّٰہُ قَوْمًا اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ (مسند احمد:246/2)
’’اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا (کہ اس کی عبادت کی جائے) اللہ کی لعنت برسے ایسی قوم پر جنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں پر مسجدیں بنائیں۔‘‘
نبی کریم
نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا:
لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِھِمْ مَّسَاجِدَ لَوْلَا ذٰلِکَ أُبْرِزَ قَبْرُہُ غَیْرَ أَنَّہُ خَشِیَ أَنْ یُتَّخَذَ مَسْجِدًا (بخاری:1390)
’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ اگلا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہے: اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو آپ
کی قبر مبارک ظاہر کردی جاتی(یعنی اِسے کھلی جگہ پر بنایا جاتا ) مگر آپ علیہ السلام نے خوف محسوس کیا کہ کہیں اُسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔‘‘
نبی کریم کا فرمان ہے:
لَا تَجْعَلُوا قَبْرِی عِیْدًا (ابوداؤد:2042)
’’میری قبر کو عید (میلے کی جگہ) نہ بنانا۔‘‘
عَن عَدِی بن حَاتِمٍ قَالَ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ وَفِیْ عُنُقِیْ صَلِیْبٌ مِنْ ذَھَبٍ فَقَالَ: یَاعَدِی! اِطْرَح عَنْکَ ھَذا الْوَثَنَ (الترمذی:3095)
’’عدی بن حاتم سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نبی
کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے گلے میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی۔ نبینے فرمایا: اِس بت کو گلے سے اتار پھینکو۔ ‘‘
اِن احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سید المرسلین کے پیش نظر یہ اندیشہ رہا ہے کہ آپ کی اُمت شرک کے تاریک پاتال میں اتر جائے گی۔ اِسی لیے آپقدم بہ قدم اِس سے بچانے کی تدابیر فرماتے رہے اور احکامات جاری کرتے رہے۔
نبی کا فرمان ہے:
لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَّذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ
تم ضرور پچھلے لوگوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے۔ حتیٰ کہ وہ اگر سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہوں
ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ، قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اَلْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی؟ قَالَ النَّبِیْ
: فَمَنْ؟ و فی روایۃ: حَذْوَ الْقُذَّۃِ بِالقُذَّۃِ (بخاری:3456)
گے تو تم بھی ضرور اِس میں داخل ہو گے۔ ہم (صحابہ رضی اللہ عنہم) نے کہا: اللہ کے رسول! پچھلے لوگوں سے آپ کی مراد یہودو نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا: اور کون؟ (یعنی یہود و نصاریٰ ہی مراد ہیں۔‘‘اور ایک روایت میں ’قدم بہ قدم‘کے بجائے الفاظ یہ ہیں : ’’جس طرح تیر کے دو پر ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں اِسی طرح تم اہل کتاب کے ہر عقیدہ و عمل میں برابری کرو گے۔‘‘
اس حدیث سے صاف صاف معلوم ہورہا ہے کہ اُمت مسلمہ یہود و نصاریٰ کی کامل روش اختیار کرے گی اور ظاہر ہے کہ یہاں محض علمی، معاشرتی اور تہذیبی تشابہہ ہی مراد نہیں ہے، بلکہ اِس میں عقائد و نظریات کا بگاڑ اور شرک سب کچھ داخل ہے۔ گویا ہر پہلو سے اُن ہی کے عقیدہ و عمل کی جھلک اُمت مسلمہ کے گمراہ عناصر میں دکھائی دے گی۔
چنانچہ نبی نے یہود و نصاریٰ کی طرح اُمت مسلمہ کے شرک میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ بھانپتے ہوئے انسدادی حکم جاری فرمایا:
لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ، فَقُوْلُوْا : عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ (بخاری:3445)
’’تم مجھے میری حد سے اس طرح نہ بڑھانا جیسے عیسائیوں نے ابن مریم (حضرت عیسیٰ) کو بڑھا دیا، پس میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا۔‘‘
قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ ط رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ (ابراہیم: 35)
’’یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ پروردگار! اس شہر (یعنی مکہ) کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام بارگاہِ خداوندی میں التجا کررہے ہیں کہ اللہ! مجھے اور میری اولاد کو شرک سے محفوظ فرما۔ سوال یہ ہے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام جیسے خدارسیدہ، پاکیزہ نفس اور اولو العزم پیغمبر اپنے اور اپنی اولاد کے متعلق خوفزدہ ہیں اور شرک کے خطرات سے بچنے کی دُعا مانگ رہے ہیں تو ایک عام آدمی یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہے کہ اِسے اپنے متعلق شرک کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔
10۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بعض مقامات پر ایمان والوں کی کامیابی اور کامرانی کی شرط اِس امر کو قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد ہر نوع کے شرک سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔ اگر شرک کا احتمال ہی موجود نہیں ہے اور اُمت اس سے ہر حال میں مامون و محفوظ ہے تو اِن آیات اور احادیث میں عائد کی گئی شرط کا معنی اور محل کیا رہ جاتا ہے؟جبکہ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ خدا کا کلام ہرگز مہمل نہیں ہوسکتا۔ اور پیغمبر کی زبان پر وہی کچھ جاری ہوتا ہے جو وحی کے ذریعے القاء کیا جاتا ہے۔ اِس قسم کی چند آیات اور احادیث ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
اِنَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مِّنْ خَشْیَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ - وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ یُؤْمِنُوْنَ - وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لَا یُشْرِکُوْنَ (المومنون57-59)
’’حقیقت میں تو جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہوتے ہیں، جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔‘‘

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ
: لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہُ، وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَھِیَ نَائِلَۃٌ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ، مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِیْ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا (مسلم:199)
’’ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ان شاء اللہ میری اُمت میں سے ہر اُس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیرا تا تھا۔ ‘‘
لَا یُقْبَلُ اللّٰہُ مِنْ مُشْرِکٍ، أَشْرَکَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ عَمَلًا حَتّٰی یُفَارِقَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلٰی الْمُسْلِمِیْنَ (ابن ماجہ:3536)
’’اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا حتیٰ کہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آجائے۔‘‘
11۔نبی
کا فرمان ہے:
لَیَکُونَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِیرَ وَالْخُمْرَ وَالْمَعَازِفَ (بخاری:5466)
’’میری اُمت کے کچھ لوگ زنا، ریشم، شراب، اور گانے بجانے کے آلات کو حلال کرلیں گے۔‘‘
فقہاے اُمت کے مابین یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ ’استحلال‘(شریعت کے حرام کردہ کو حلال کرلینا) شرک و کفر ہے، کیونکہ استحلال کا دعویٰ کرنے والا گویا خدا کی شریعت کو بدل کر من چاہی شریعت ترتیب دیتا ہے اور اِس طرح وہ عملاً اللہ کی صفت ِ حاکمیت وغیرہ میں ہمسری کا کردار پیش کرتا ہے، اور یہ شرک ہے۔ شریعت اور قانون سازی محض اللہ کا حق ہے۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُ ط(الشوریٰ:21)
’’کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریک خدا رکھتے ہیں جنہوں نے اُن کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کردیا ہے جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا۔‘‘
12۔پیغمبر اسلام کا فرمان ہے:
عَنْ اَبِیْ وَاقِدِ نِ الَّیْثِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ
لَمَّا خَرَجَ اِلٰی حُنَیْنٍ مَرَّ بِشَجَرَۃِ یُقَالُ لَھَا ذَاتُ اَنْوَاطٍ یُعَلِّقُ الْمُشْرِکُوْنَ عَلَیْھَا أَسْلِحَتَھُمْ فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ کَمَا لَھُمْ ذَاتُ اَنْوَاطٍ فَقَالَ النَبِّیُّ : اَللّٰہُ اَکْبَرُ ھٰذَا کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ اِجْعَلْ لَّنَا إِلٰھًا کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ لَتَرْکَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ (ترمذی:2180)
’’ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلا شبہ رسول اللہ
جب حنین کی طرف نکلے تو ایک (بیری کے) درخت کے پاس سے گزرے جسے ذاتِ انواط کہا جاتا تھا، مشرکین اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے (چند صحابہ رضی اللہ عنہم جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے) انہوں نے کہا جس طرح ان کے لیے ذات انواط ہے ہمارے لیے بھی اسی طرح کا ذات انواط بنادیں۔ بنی نے (یہ بات سن کر) فرمایا: اللہ اکبر! یہ تو اسی طرح ہے جیسے بنی اسرائیل نے کہا تھا ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کردیں۔‘‘
ذاتِ انواط سے متعلق مذکورہ حدیث کے متن کا مطالعہ کرنے کے بعد دینیات کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس نتیجے تک بآسانی پہنچ جاتا ہے کہ
اُمت مسلمہ کے بعض لوگوں کا شرک میں مبتلا ہوجانا قطعاً بعید نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ذاتِ انواط سے تبرک لینے کا صرف مطالبہ کیا تھا، اِس امر کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ وہ مشرکین کی طرح اس درخت کی پرستش کرنے لگیں گے اور نہ وہ اِسے خدائی صفات سے متصف سمجھتے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ عملاً تبرک حاصل کرنے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔ پیغمبر اسلام نے سوال کرنے پر ہی جو گرفت اور خفگی کا اظہار فرمایا ہے تو کیا اس کے بعد بھی یہ کہنا بجا ہوگا کہ اُمت میں شرک پیدا ہو جانے کا کوئی کھٹکا نہیں!!