Wednesday 22 August 2012

Ummat e Muslimah Mein Shirk Ka Masla - اُمت مسلمہ میں شرک کا مسئلہ - Online Books

اُمت مسلمہ میں شرک کا مسئلہ

سید محمد علی
شرک گناہ کبیرہ اور سنگین جرم ہے۔ اس کا مرتکب اپنے خالق اور محسنِ حقیقی کا ایسا مجرم ہے کہ اس پر جنت کو حرام کردیا گیا ہے (المائدہ:72) اور اگر یہ بغیر توبہ کیے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے لیے مغفرت کی تمام راہیں مسدود ہیں (النسائی:48) قیامت کے روز اس کا سب کِیا دھرا غبار کی طرح اُڑا دیا جائے گا (الفرقان:23) شرک کی برائی اور شناخت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قوم موسیٰ کے وہ عناصر جو بچھڑے کی عبادت میں بہک گئے اور اُن سے شرک سرزد ہوا تو قانونِ الٰہی میں اس کی کم سے کم سزا یہ طے پائی کہ ان مشرکین کو قتل کردیا جائے، خواہ وہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں (البقرہ:54) شرکیہ افعال میں ملوث افراد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خدا کی زمین پر اُس کی
نعمتوں سے متمتع ہوں۔ اسی مقصد کے تحت فتح مکہ کے بعد مشرکین کو قتل کردینے کا عمومی حکم جاری ہوا (التوبہ:5)
اور ظاہر ہے کہ احسان فراموشی کی حد ہوگی کہ ایک طرف انسان کو اپنے رب کے حقوق پامال کرنے میں ذرا تامل نہ ہو اور دوسری طرف اس رب ہی کی عطا کردہ نعمتوں سے لذتِ کام و دہن کا سامان کرتا رہے اور نہ صرف یہ کہ اپنے وجود کی بقا کو ممکن بناتا رہے بلکہ اس کی رونقوں کو دوبالا کرنے اور آسائشیں حاصل کرنے کے لیے کسی طرح بھی اپنے رب کی عطا سے بے نیاز نہ ہو۔
انسانوں سے عقیدت و احترام کا تعلق روا رکھنا، مستحسن عمل ہے مگر یہ رویہ شرک باللہ کی صورت اختیار کرلے تو اِس سے زیادہ قبیح حرکت بھی کوئی نہیں ہے۔ خدا کی ذات سب سے اعلیٰ و برتر ہے۔ خالق، معبود اور مقتدر ہونے کی حیثیت سے وہ تنہا اور لاشریک ہے۔ اُس کی بزرگی اور عزت و توقیر کے سامنے تمام کائنات کی بزرگیاں اور عزتیں ہیچ ہیں۔ اسلام نے فلسفۂ ادب و اخلاق میں جس اہم اصول کا اضافہ کیا ہے وہ یہ کہ خالق اور مخلوق کے مابین ذات اور صفات کے لحاظ سے کوئی مطابقت نہیں ہے۔
مخلوقات میں سے مثال کے طور پر رسول، نبی، ولی، بزرگ، شب زندہ دار، صاحب سلطنت و وقار، یہ سب قابل احترام ہیں، مگر خدا اور خدائی صفات کے مقابلے میں یہ بجاے خود محتاج اور بے بس لوگ ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے ایک سانس کو بھی فرحت ِ جاں نہیں بنا سکتے، یہ کسی بھی جہت سے مارواے اسباب افعال و اعمال اختیار کرنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی امداد نہیں کرسکتے جو سمجھ میں آنے والی یا دِکھنے والی نہ ہو۔ مادی ذرائع کے بغیر کسی کی فریاد نہیں سن سکتے۔ مرنے کے بعد زندہ انسانوں سے کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رکھ سکتے۔
انسانی تاریخ میں اکثر و بیشتر جو شرک ہوا ہے وہ ذات باری کے ساتھ نہیں ، بلکہ اللہ کی صفات کی جہت سے تھا۔ یہ دعویٰ تو معدودے چند لوگوں کا رہا ہے کہ اس کائنات کے خالق دو ہیں یا فلاں بزرگ و ہستی اللہ کی طرح ہے یا اللہ کے برابر ہے۔ عام طور پر جو شرک زمانہ جاہلیت میں رائج تھا، آج بھی موجود ہے اور جس کی تردید میں قرآن کا اکثر و بیشتر حصہ نازل ہوا ہے، وہ صفاتِ باری کے ساتھ شرک ہے۔
مثال کے طور پر یہ کہ ’علم ِغیب‘اللہ کی خاص صفت ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ بغیر سبب کے ماوراے حواس اشیا کا ادراک حاصل کرلینا، خبر پہنچے بغیر مستقبل کے احوال جان لینا، از خود نوشتہ تقدیر پر مطلع ہو جانا، یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ہیں، جو کسی معمولی درجے میں بھی غیراللہ کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔
اس حوالے سے صریح ارشاد ہوا ہے:
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ط وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (النمل:65)
’’ان سے کہو: اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ (تمہارے معبود تو یہ بھی ) نہیں جانتے کہ کب وہ اُٹھائے جائیں گے۔‘‘
اسی طرح بغیر کسی سبب کے امداد و نصرت کرنا، عالم دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد بھی زندوں سے ربط و تعلق باقی رکھنا اور اِن کی فریاد سننا، تغیرات زمانہ پر اختیار و طاقت رکھنا، یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ہیں۔ اِن کے مظاہر بے شمار ہیں، یہاں احصاء مقصود ہے نہ ممکن۔ یہ صفات کا شرک مختلف ادیان و مذاہب سے وابستہ حضرات کے عقائد میں پایا جاتا ہے اور یہی شرک فی الصفات اسلام سے قبل مکہ میں بھی رائج تھا۔ یہ سب لوگ اللہ عزوجل ہی کو کائنات کا خالق، بادشاہ، سمیع و بصیر، رازق و ممیت سمجھتے تھے، مگر اس کے باوجود قرآن کے مطابق یہ اصل مشرک قرار پائے اور یہی تھے جن پر جنت کو حرام کردیا گیا۔
اِس سلسلے میں ہمارے پیش نظر جو مسئلہ ہے وہ یہ کہ کیا اُمت مسلمہ کے حوالے سے یہ امکان موجود ہے کہ وہ اس شرک میں مبتلا ہوجائے؟ یا سرے سے یہ امکان ہی پیدا نہیں ہوتا اور مسلمان ہوجانے کے بعد شرک کا ارتکاب کرنا ناممکن افعال میں سے ہے۔
ہماری رائے میں ایمان لانے کے بعد کوئی بھی شخص دوبارہ کفر و شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ ’’اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو
لَفِسْقٌ ط وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ(الانعام:121)
اُس کا گوشت نہ کھائو، ایسا کرنا فسق ہے۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو‘‘
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ (الانعام:82)
’’حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔ ‘‘
چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : ’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کس نے ظلم نہیں کیا؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: اس کی مراد وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو… بلکہ اِس سے مراد شرک ہے۔ ‘‘ (بخاری:32 ؛ مسند احمد:444/1 )
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ (آل عمران:100)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔‘‘
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِج وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (النحل:106)
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے وہ اگر مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کرلیا اُس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ (یوسف: 106)
’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔‘‘
ایمان لانے کے بعد کفر کی ایک صورت تو ارتداد کی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ مومن کسی ایسے عمل کا ارتکاب کرلے جو شریعت کے بیانات کی روشنی میں صراحتاً کفر اکبر یا شرک ہے تو ایسا شخص دعواے اسلام و ایمان کے باوجود کافر و مشرک ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بعض مدعیانِ علم اس دوسری قسم کے کفر کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور اِن کے خیال میں ایمان کے بعد کفر کی بس یہی صورت ہے کہ کوئی مسلمان اِن سے بول کر کہہ دے کہ میں کافر ہونے جارہا ہوں! یہ نظریہ کج فہمی اور شریعت کے گہرے مطالعے سے محرومی کا نتیجہ ہے، کیونکہ اِسے تسلیم کرلینے کی صورت میں آپ نے تمام اہل باطل اور گمراہ فرقوں کو اِذن دے دیا ہے کہ وہ زبان سے اسلام، توحید اور رسالت کا اقرار بھی کرتے رہیں اور اُمت میں کفر و شرک کی تخم ریزی بھی جاری رکھیں۔
سوال یہ ہے کہ اِس اصول کو تسلیم کرلینے کے بعد آپ کسی قادیانی کو کافر اور زندیق کیسے کہہ سکیں گے، جو توحید او رختم رسالت کا قائل ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد مانتا ہے!! اِسی طرح شعائر اسلام کی عملاً توہین کرنے والا اور بت کو سجدہ کرنے والا جب تک زبان سے اقرار کرتا رہے گا کہ میں مسلمان و مومن ہوں تو مذکورہ اصول کی روشی میں یہ پکا مسلمان رہے گا!!
اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ ایمان لانے کے بعد کفر و شرک میں مبتلا ہونا ممکن ہے، جیسا کہ آیاتِ قرآن کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے، لیکن نبی ﷺکی ساری اُمت مشرک نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ فرمانِ نبوی ہے:
وَاللّٰہِ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِی (بخاری:1344)
’’مجھے تم سے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد شرک کرو گے۔‘‘
کچھ لوگ ضرور توحید پر قائم رہیں گے اور کچھ مشرک ہوں گے۔ جیسا کہ فرمان نبوی ہے:
لَا تَقُوْمُ السَّاعۃُ حتّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِیْنَ، وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِیْ الأوْثَانَ (ابوداؤد:4252)
’’اُتنی دیر تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری اُمت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں۔ اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے۔‘‘
بعض اربابِ بدعت اور اہل شرک کی جانب سے یہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے کہ اُمت مسلمہ میں شرک پیدا ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، لہٰذا مسلمان کے کسی عمل کو شرکیہ اور بڑے سے بڑے شرک کا مرتکب ہونے کے باوجود خود اِسے مشرک نہیں کہا جاسکتا۔ خواہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی ذات کا نور (ٹکڑا) مانتا ہو، خواہ وہ کہنے والا ہو ؎
ظاہر دے وچ مرشد ہادی باطن دے وچ اللہ
نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ
(حج فقیربر آستانہ پیر :ص45)
سانوں کعبے دے جانے دی لوڑ نئیں
کعبہ روضہ تیرا قلعے والیا
(سہ حرفی رموز معرفت :ص16)

خواہ وہ ہر مردہ یا زندہ بزرگ کے بارے میں یہ خیال رکھتا ہو کہ وہ اِس کے حالات سے واقف ہے یعنی علم غیب رکھتا ہے، چاہے وہ بہت سی ہستیوں کے بارے میں سمجھتا ہو کہ وہ ماوراے اسباب امداد و نصرت کرنے پر قادر ہیں، خواہ وہ اپنی تحریر میں درج ذیل دعویٰ کرتا ہو:
’’انبیا و مرسلین، اولیا، علما، صالحین سے ان کے وصال کے بعد بھی استعانت و استمداد جائز ہے، اولیا بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔‘‘ (رسالۃ حیاۃ الموات از احمد رضا بریلوی)
’’میں نے جب بھی مدد طلب کی، یا غوث ہی کہا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک دوسرے ولی (حضرت محبوب الٰہی) سے مدد مانگنی چاہی، مگر میری زبان سے ان کا نام ہی نہ نکلا۔ بلکہ زبان سے یاغوث ہی نکلا!‘‘ (ملفوظات از احمد رضا بریلوی:ص307)
خواہ وہ براہِ راست مردوں کو پکار کر اِن سے فریاد کرتا ہو، چاہے وہ قبروں پر بت گاڑھ کر سجدے کرتا ہو، خواہ وہ غیراللہ کے نام پر قربانیاں دیتا، نذریں مانتا اور ذبیحے پیش کرتا ہو!خواہ اُس کی شاعری کی نوعیت کچھ یوں ہو ؎
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر
اُتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہوکر
یہ مشرک ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اُمت مسلمہ کا فرد ہے اور اسلام لاکر اپنے منہ سے ایمان کا دعویدار ہے!! اور اس پر دلیل اِس حدیث کو قائم کرتے ہیں جسے صحیح مسلم میں روایت کیا گیا ہے:
إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَنْ یَعْبُدَہُ الْمُصَلُّونَ فِی جَزیْرَۃِ الْعَرَبِ وَلٰکِنْ فِی التَّحْرِیشِ بَیْنَھُمْ (مسلم:5030)
’’بے شک شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرئہ عرب میں نماز پڑھنے والے اُس کی عبادت کریں گے لیکن اُن کے مابین تنازعات پیدا کرنے سے (مایوس نہیں ہے)‘‘
جبکہ اِس حدیث کا مفہوم بہت واضح ہے کہ یہاں صرف قدیم جزیرئہ عرب کے باسیوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ وہ اب شیطان کے وسوسوں کا شکار نہیں ہوسکتے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اس پر تاریخ کی شہادت کافی ہے۔ فلہٰذا اہل شرک و بدعت کا یہ دعویٰ سخت باطل، امر واقعہ کے خلاف، دین کے محکم بیانات سے یکسر مختلف اور پیغمبر اسلام ﷺ کے فرامین سے متصادم ہے۔ قرآن و سنت کے معتدبہ دلائل سے ثابت ہے کہ شرک کا اندیشہ مسلمان کو بھی لاحق ہوتا ہے۔ وہ بے احتیاطی کی وجہ سے کسی وقت بھی شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے، بلکہ فی زمانہ یہ شرک فی الصفات اُمت میں کثرت سے موجود ہے۔

اُمت مسلمہ میں شرک کے وجود پر دلائل
اُمت مسلمہ میں شرک کے وجود پر کچھ اہم دلائل پیش خدمت ہیں:
پختہ روایات سے ثابت ہے کہ نبی
نے صراحتاً اُمت مسلمہ میں شرک کے وجود کی خبر دی ہے۔ اس سلسلے میں جو روایات ملتی ہیں وہ انتہائی مستند کتب احادیث میں موجود ہیں۔ ذیل میں چند ایک کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے:
أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَضْطَرِبَ أَلَیَاتُ نِِسَائِ دَوْسٍ عَلَی ذِي الخَلَصَۃِ (بخاری: 7116)
’’رسول اللہ
نے فرمایا: اُس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوس قبیلے کی عورتیں ذی الخلصہ نامی بت (زمانہ جاہلیت میں اِس کی پوجا ہوتی تھی) کا طواف کریں گی۔‘‘
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُولُ : لَا یَذْھَبُ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ حَتَّی تُعْبَدَ اَللَّاتُ وَالعُزَّی (مسلم:2907)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ
کو کہتے ہوئے سنا کہ اِتنی دیر تک رات اور دن ختم نہیں ہوں گے یہاں تک کہ لات اور عزی کی پرستش کی جائے گی۔ ‘‘
لَا تَقُوْمُ السَّاعۃُ حتّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِیْنَ، وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِیْ الأوْثَانَ(ابوداؤد:4252)
’’اُتنی دیر تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری اُمت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں۔ اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے۔‘‘
یہ احادیث صحت اور صراحت کے تمام معیارات کے ساتھ واضح کررہی ہیں کہ اُمت مسلمہ کے بعض لوگ لازماً شرک کا ارتکاب کریں گے۔ اب یہ امر اُن حضرات کے لیے فکرمندی اور دامن گرفتگی کا باعث ہونا چاہیے جن کو علماے حق مشرک اور اُن کے اعمال کو شرکیہ قرار دیتے ہیں کہ انہیں اپنے عقائد میں درستی کا عمل جاری کرنا ہے یا شرک کو اپنا کر ان احادیث کا مصداق بنے رہنا ہے!
اگر یہ مان لیا جائے کہ اُمت مسلمہ میں شرک پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں ہے یا کوئی کلمہ گو مشرک نہیں ہوسکتا تو کلام نبوت کا وہ بیشتر حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے جس میں شرک اور شرکیہ ذرائع سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور روے سخن اہل اسلام (اُمت مسلمہ) کی طرف ہے۔ فرامین نبوت میں سے چند نمونے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
اِتَّقُوْا ھٰذَا الشِّرْکَ فَاِنَّہٗ اَخْفٰی مِنْ دَبیْبِ النَّمْلِ (مسند احمد:403/4)
’’شرک سے بچو کیونکہ یہ چیونٹی کے چلنے کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔‘‘
مذکورہ حدیث سن کر صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول
! ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
تو آپ نے یہ دعا سکھلائی:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ اَنْ نُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا نَعْلَمُہٗ وَنَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَانَعْلَمُہٗ
اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَل قَبْرِی وَثَنًا لَعَنَ اللّٰہُ قَوْمًا اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ (مسند احمد:246/2)
’’اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا (کہ اس کی عبادت کی جائے) اللہ کی لعنت برسے ایسی قوم پر جنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں پر مسجدیں بنائیں۔‘‘
نبی کریم
نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا:
لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِھِمْ مَّسَاجِدَ لَوْلَا ذٰلِکَ أُبْرِزَ قَبْرُہُ غَیْرَ أَنَّہُ خَشِیَ أَنْ یُتَّخَذَ مَسْجِدًا (بخاری:1390)
’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ اگلا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہے: اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو آپ
کی قبر مبارک ظاہر کردی جاتی(یعنی اِسے کھلی جگہ پر بنایا جاتا ) مگر آپ علیہ السلام نے خوف محسوس کیا کہ کہیں اُسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔‘‘
نبی کریم کا فرمان ہے:
لَا تَجْعَلُوا قَبْرِی عِیْدًا (ابوداؤد:2042)
’’میری قبر کو عید (میلے کی جگہ) نہ بنانا۔‘‘
عَن عَدِی بن حَاتِمٍ قَالَ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ وَفِیْ عُنُقِیْ صَلِیْبٌ مِنْ ذَھَبٍ فَقَالَ: یَاعَدِی! اِطْرَح عَنْکَ ھَذا الْوَثَنَ (الترمذی:3095)
’’عدی بن حاتم سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نبی
کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے گلے میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی۔ نبینے فرمایا: اِس بت کو گلے سے اتار پھینکو۔ ‘‘
اِن احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سید المرسلین کے پیش نظر یہ اندیشہ رہا ہے کہ آپ کی اُمت شرک کے تاریک پاتال میں اتر جائے گی۔ اِسی لیے آپقدم بہ قدم اِس سے بچانے کی تدابیر فرماتے رہے اور احکامات جاری کرتے رہے۔
نبی کا فرمان ہے:
لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَّذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ
تم ضرور پچھلے لوگوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے۔ حتیٰ کہ وہ اگر سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہوں
ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ، قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اَلْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی؟ قَالَ النَّبِیْ
: فَمَنْ؟ و فی روایۃ: حَذْوَ الْقُذَّۃِ بِالقُذَّۃِ (بخاری:3456)
گے تو تم بھی ضرور اِس میں داخل ہو گے۔ ہم (صحابہ رضی اللہ عنہم) نے کہا: اللہ کے رسول! پچھلے لوگوں سے آپ کی مراد یہودو نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا: اور کون؟ (یعنی یہود و نصاریٰ ہی مراد ہیں۔‘‘اور ایک روایت میں ’قدم بہ قدم‘کے بجائے الفاظ یہ ہیں : ’’جس طرح تیر کے دو پر ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں اِسی طرح تم اہل کتاب کے ہر عقیدہ و عمل میں برابری کرو گے۔‘‘
اس حدیث سے صاف صاف معلوم ہورہا ہے کہ اُمت مسلمہ یہود و نصاریٰ کی کامل روش اختیار کرے گی اور ظاہر ہے کہ یہاں محض علمی، معاشرتی اور تہذیبی تشابہہ ہی مراد نہیں ہے، بلکہ اِس میں عقائد و نظریات کا بگاڑ اور شرک سب کچھ داخل ہے۔ گویا ہر پہلو سے اُن ہی کے عقیدہ و عمل کی جھلک اُمت مسلمہ کے گمراہ عناصر میں دکھائی دے گی۔
چنانچہ نبی نے یہود و نصاریٰ کی طرح اُمت مسلمہ کے شرک میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ بھانپتے ہوئے انسدادی حکم جاری فرمایا:
لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ، فَقُوْلُوْا : عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ (بخاری:3445)
’’تم مجھے میری حد سے اس طرح نہ بڑھانا جیسے عیسائیوں نے ابن مریم (حضرت عیسیٰ) کو بڑھا دیا، پس میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا۔‘‘
قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ ط رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ (ابراہیم: 35)
’’یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ پروردگار! اس شہر (یعنی مکہ) کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام بارگاہِ خداوندی میں التجا کررہے ہیں کہ اللہ! مجھے اور میری اولاد کو شرک سے محفوظ فرما۔ سوال یہ ہے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام جیسے خدارسیدہ، پاکیزہ نفس اور اولو العزم پیغمبر اپنے اور اپنی اولاد کے متعلق خوفزدہ ہیں اور شرک کے خطرات سے بچنے کی دُعا مانگ رہے ہیں تو ایک عام آدمی یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہے کہ اِسے اپنے متعلق شرک کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔
10۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بعض مقامات پر ایمان والوں کی کامیابی اور کامرانی کی شرط اِس امر کو قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد ہر نوع کے شرک سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔ اگر شرک کا احتمال ہی موجود نہیں ہے اور اُمت اس سے ہر حال میں مامون و محفوظ ہے تو اِن آیات اور احادیث میں عائد کی گئی شرط کا معنی اور محل کیا رہ جاتا ہے؟جبکہ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ خدا کا کلام ہرگز مہمل نہیں ہوسکتا۔ اور پیغمبر کی زبان پر وہی کچھ جاری ہوتا ہے جو وحی کے ذریعے القاء کیا جاتا ہے۔ اِس قسم کی چند آیات اور احادیث ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
اِنَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مِّنْ خَشْیَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ - وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ یُؤْمِنُوْنَ - وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لَا یُشْرِکُوْنَ (المومنون57-59)
’’حقیقت میں تو جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہوتے ہیں، جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔‘‘

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ
: لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہُ، وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَھِیَ نَائِلَۃٌ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ، مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِیْ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا (مسلم:199)
’’ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ان شاء اللہ میری اُمت میں سے ہر اُس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیرا تا تھا۔ ‘‘
لَا یُقْبَلُ اللّٰہُ مِنْ مُشْرِکٍ، أَشْرَکَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ عَمَلًا حَتّٰی یُفَارِقَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلٰی الْمُسْلِمِیْنَ (ابن ماجہ:3536)
’’اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا حتیٰ کہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آجائے۔‘‘
11۔نبی
کا فرمان ہے:
لَیَکُونَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِیرَ وَالْخُمْرَ وَالْمَعَازِفَ (بخاری:5466)
’’میری اُمت کے کچھ لوگ زنا، ریشم، شراب، اور گانے بجانے کے آلات کو حلال کرلیں گے۔‘‘
فقہاے اُمت کے مابین یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ ’استحلال‘(شریعت کے حرام کردہ کو حلال کرلینا) شرک و کفر ہے، کیونکہ استحلال کا دعویٰ کرنے والا گویا خدا کی شریعت کو بدل کر من چاہی شریعت ترتیب دیتا ہے اور اِس طرح وہ عملاً اللہ کی صفت ِ حاکمیت وغیرہ میں ہمسری کا کردار پیش کرتا ہے، اور یہ شرک ہے۔ شریعت اور قانون سازی محض اللہ کا حق ہے۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُ ط(الشوریٰ:21)
’’کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریک خدا رکھتے ہیں جنہوں نے اُن کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کردیا ہے جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا۔‘‘
12۔پیغمبر اسلام کا فرمان ہے:
عَنْ اَبِیْ وَاقِدِ نِ الَّیْثِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ
لَمَّا خَرَجَ اِلٰی حُنَیْنٍ مَرَّ بِشَجَرَۃِ یُقَالُ لَھَا ذَاتُ اَنْوَاطٍ یُعَلِّقُ الْمُشْرِکُوْنَ عَلَیْھَا أَسْلِحَتَھُمْ فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ کَمَا لَھُمْ ذَاتُ اَنْوَاطٍ فَقَالَ النَبِّیُّ : اَللّٰہُ اَکْبَرُ ھٰذَا کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ اِجْعَلْ لَّنَا إِلٰھًا کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ لَتَرْکَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ (ترمذی:2180)
’’ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلا شبہ رسول اللہ
جب حنین کی طرف نکلے تو ایک (بیری کے) درخت کے پاس سے گزرے جسے ذاتِ انواط کہا جاتا تھا، مشرکین اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے (چند صحابہ رضی اللہ عنہم جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے) انہوں نے کہا جس طرح ان کے لیے ذات انواط ہے ہمارے لیے بھی اسی طرح کا ذات انواط بنادیں۔ بنی نے (یہ بات سن کر) فرمایا: اللہ اکبر! یہ تو اسی طرح ہے جیسے بنی اسرائیل نے کہا تھا ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کردیں۔‘‘
ذاتِ انواط سے متعلق مذکورہ حدیث کے متن کا مطالعہ کرنے کے بعد دینیات کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس نتیجے تک بآسانی پہنچ جاتا ہے کہ
اُمت مسلمہ کے بعض لوگوں کا شرک میں مبتلا ہوجانا قطعاً بعید نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ذاتِ انواط سے تبرک لینے کا صرف مطالبہ کیا تھا، اِس امر کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ وہ مشرکین کی طرح اس درخت کی پرستش کرنے لگیں گے اور نہ وہ اِسے خدائی صفات سے متصف سمجھتے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ عملاً تبرک حاصل کرنے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔ پیغمبر اسلام نے سوال کرنے پر ہی جو گرفت اور خفگی کا اظہار فرمایا ہے تو کیا اس کے بعد بھی یہ کہنا بجا ہوگا کہ اُمت میں شرک پیدا ہو جانے کا کوئی کھٹکا نہیں!!

No comments:

Post a Comment