Monday, 28 February 2011

Duaye Qubool Kyu Nahi Hoti (Online Books)

دعائیں قبول کیوں نہیں

                                                                                                                                                                         محمد جمیل اختر
یہ مسئلہ انتہائی اہم اور اکثر و بیشتر لوگوں سے سننے میں آیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت دعا کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی! آخر و جہ کیا ہے کہ لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی؟

یوں تو اس کی متعدد وجوہات ہیںلیکن بنیادی و جہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا مسنون طریقے سے دعا نہیں مانگتا اور دعا کی قبولیت کی وہ شرائط، جن کا دھیان رکھنا ضروری ہے، ان کا اپنی دعا میں اہتمام نہیں کرتا۔ جس طرح ایک حکیم کسی مریض کو دوا دیتا ہے اور اس کے ساتھ کئی چیزوں سے احتیاط، اجتناب او رپرہیز بھی تجویز کرتا ہے کہ اگر مریض ان پر عمل کرے گا تو تندرست ہوجائے گا لیکن اگر وہ مریض ان تدابیر و تجاویز پر عمل نہ کرے اور جتنی چاہے دوا استعمال کرتا رہے تو وہ دوا کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اِلا کہ ان احتیاطوں اور تدابیر پر عمل نہ کرلے جو حکیم نے اسے بتائی ہیں۔ دعا کی قبولیت کی بھی اسی طرح چند شرائط ہیں جوقرآن و سنت سے حاصل ہوتی ہیں، جب تک ان شرائط پر عمل کرتے ہوئے دعا نہ کی جائے، دعا قبول نہ ہوں گی... وہ شرائط بالاختصار درجِ ذیل ہیں:
دُعا کی شرائط وضوابط
1 اخلاص
دعا کی قبولیت کے لئے سب سے اہم اور ضروری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کو اپنا حقیقی معبود سمجھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، غیر اللہ سے دعا نہ کرے۔ اللہ کے دَر کے علاوہ اور کے دَر پر اپنی جھولی نہ پھیلائے۔ خالق ِحقیقی کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کرے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (فَادْعُوْہُ مخلصين لهَ الدِّينَ) (غافر:۶۵) ''تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو۔'' حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ''اس آیت سے ثابت ہوا کہ اخلاص قبولیت ِدعا کی لازمی شرط ہے۔'' (فتح الباری:۱۱؍۹۵)
2 حرام سے اجتناب
کسی شخص کا کوئی نیک عمل اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ حرام کاری اور حرام خوری سے مکمل اجتناب نہ کرے۔ لیکن اگر وہ حرام کا کھائے، حرام کا پئے، حرام کا پہنے تو اس شخص کے نیک اعمال ہرگز شرفِ قبولیت حاصل نہیں کرسکتے اور چونکہ دعا بھی ایک نیک عمل ہے،اس لئے یہ بھی اسی صورت میں قبول ہوگی جب دعا کرنے والا ہر حرام کام سے اجتناب کرے۔ بصورتِ دیگر اس کی دعا ہرگز قبولیت کے لائق نہیں جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''ایک آدمی لمبا سفر طے کرتا ہے، اس کی حالت یہ ہے کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، چہرہ خاک آلود ہے اور وہ (بیت اللہ پہنچ کر) ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یاربّ! یاربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے او رحرام سے اس کی پرورش ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو کیسے قبول کرے۔'' (مسلم:۱۰۱۵)
3 توبہ
اگر دعا کرنے والا دعا کرے اور ساتھ گناہ والے کام بھی کرتا رہے یا ان سے توبہ نہ کرے تو ایسے شخص کی دعا بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔ اس لئے دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، توبہ اور استغفار کرے جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: (وَيقوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إليه ُيرْسِلِ السَّمَائَ عليكم مِدْرَارًا وَّيزدْکُمْ قُوَّۃً إلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمينَ) (ھود:۵۲) ''اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو، تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پربھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت بڑھا دے اور تم گنہگار ہوکر روگردانی نہ کرو۔''
4 عاجزی و انکساری
دعا میں عاجزی و انکساری اختیار کرنے کا حکم قرآن مجید میں اس طرح دیا گیا کہ (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وّخفية) (الاعراف:۵۵) ''تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے بھی ...''
اس آیت سے ثابت ہوا کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور خوب عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے۔
5 دعا کے اندر زیادتی نہ کی جائے
اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی زیادتی و تجاوز سے منع فرمایا ہے بالخصوص دعا میں زیادتی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخخفيةً إنه لاَ يحب الْمُعْتَدِين) (الاعراف:۵۵) ''تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر او رچپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔'' دعا میں زیادتی کی کئی صورتیں ہیں مثلاً حرام اور ممنوع چیزوں کے لئے دعا کرنا یا ہمیشگی کی زندگی کی دعا کرنا یا بلا و جہ کسی کے لئے بری دعا کرنا، اسی طرح کی تمام زیادتیوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔
6 معلق دعا نہ کی جائے
معلق دعا سے مراد وہ دعا ہے جس میں دعا اس طرح کی جائے کہ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے عطا کردے اور اگر چاہتا ہے تو بخش دے۔ اس کامعنی یہ ہوا کہ یا اللہ اگر تو بخشنا نہیں چاہتا تو نہ بخشش ! اگر عطا نہیں کرنا چاہتا تو عطا نہ کر... تیری مرضی! حالانکہ نبیﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہ کہے کہ یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما بلکہ پورے عزم سے دعا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔'' (بخاری:۶۳۳۹، مسلم :۲۶۷۸ عن ابی ہریرۃ)
7 غفلت اور سستی نہ دکھائی جائے
دعا مانگنے میں کسی قسم کی سستی نہیں برتنی چاہئے بلکہ پورے دھیان، توجہ اور چستی کے ساتھ دعا مانگنی چاہئے اور دعا مانگنے والے کا ذہن دعا کے اندر مشغول ہونا چاہئے نیز اس پر کسی قسم کی سستی (خیالات یا نیند وغیرہ) نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ دعا کرنے والا اگر سستی میں مبتلا ہو گا یا غفلت کا شکار ہوگا تو اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔ اس لئے نبیﷺ نے فرمایا: ''اللہ سے اس یقین کے ساتھ دعا مانگو کہ دعا ضرور قبول ہوگی اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی غافل اور لاپرواہ دل سے نکلی دعا کو قبول نہیں فرماتے۔'' (ترمذی:۳۴۷۹، السلسلۃ الصحیحۃ : ۲؍۱۴۳)
دعا کے آداب
مذکورہ بالا شرائط ایسی ہیں جنہیں دعا میں ملحوظ خاطر رکھنا از بس ضروری ہے جبکہ ان کے علاوہ بعض آداب ایسے ہیں کہ اگر دعا کرنے والا ان کا بھی اہتمام کرے تو پھر اس کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ان مستحب آداب میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1 دعا سے پہلے طہارت (پاکیزگی)
دعا کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ ظاہری (باوضو) اور باطنی (استغفار) طہارت حاصل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ قبولیت دعا میں وضو کے مستحب ہونے کی دلیل ابوعامرؓ کی شہادت اور نبی اکرم ﷺ سے ان کے استغفار والے قصے میں موجود ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی اور ان کے لئے استغفار کی درخواست کی گئی تو آپؐ نے پانی منگوایا پھر آپؐ نے وضو کرکے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری: ۴۳۲۳) لیکن یاد رہے کہ دعا سے پہلے باوضو ہونا ضروری نہیں کیونکہ نبی اکرم ا نے ہر دعا وضو کے ساتھ نہیں مانگی بلکہ کئی دعائیں آپؐ نے بغیر وضو کے مانگی ہیں۔
2 حمد و ثنا اور آنحضرت ﷺپر درود
دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جائے اور بعد میں آنحضرت ا پر درود بھیجا جائے اور اس کے بعد اپنی حاجت کا سوال کیا جائے۔ یہ ترتیب مستحب ہے جیسا کہ فضالہ بن عبیدؓ کی حدیث میں ہے کہ '' رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا مگر اس نے آپؐ پر درود نہ بھیجا تو آپؐ نے فرمایا: ''عجل ھذا'' ''اس نے جلدی کی'' پھراسے بلاکر اور دوسرے لوگوں کو بھی فرمایا کہ ''جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو پہلے حمدوثنا کرے پھر نبی اکرم ا پر درود بھیجے پھر جو وہ چاہے دعا کرے۔'' (ابوداود:۱۴۸و سندہ صحیح ، صحیح الجامع :۱؍۲۳۸)
3 افضل حالت اور افضل مقام پر دعا
دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ انسان افضل حالت میں اور افضل جگہ پر دعا کرے۔ افضل حالت سے مراد یہ ہے کہ دعا مانگتے ہوئے انسان کی حالت افضل ہو۔ مثلاً سجدے اور رکوع کی حالت۔ جیسا کہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ''خبردار! میں تمہیں رکوع و سجود میں تلاوتِ قرآن سے منع کرتا ہوں لہٰذا رکوع میں ربّ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں دعا کا اہتمام کرو کیونکہ سجدے میں دعا کی قبولیت کا امکان ہے۔'' (مسلم:۴۷۹)
افضل جگہ سے مراد یہ ہے کہ جس جگہ پرانسان دعا کررہا ہے وہ دوسری جگہوں سے افضل ہو مثلاً حرمین شریفین(بیت اللہ ومسجد نبوی)، مسا جد، مکہ مکرمہ وغیرہ۔ یہ ایسے مقامات ہیں جن میں دوسری جگہوں کی نسبت دعا جلدی قبول ہونے کا امکان ہوتا ہے، حتیٰ کہ مشرکین مکہ بھی اس بات کے قائل تھے کہ مکہ کے اندر دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ''جب کفار نے نبی اکرم ﷺ کی پشت پر حالت ِنماز میں اوجھ ڈالی تو (نبی کریم ﷺنے ان پر بددعا کی اور) ان پر نبی اکرم ﷺ کی بددعا گراں گزری کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شہر مستجاب الدعوات ہے۔'' (بخاری :۲۴۰)
4 افضل وقت میں دعا
جس طرح قبولیت ِدعا کے لئے افضل حالت اور افضل جگہ کا ہونا مستحب ہے، اسی طرح افضل وقت میں دعا کرنا بھی مستحب ہے جیسے عرفہ کے دن یا رمضان المبارک کے مہینے میں دعا کرنا اور اس میں بھی بالخصوص آخری دس دن اور ان دس دنوں میں بھی طاق راتیں اور شب ِقدر زیادہ افضل ہیں۔ اسی طرح سحری کا وقت، جمعہ کا دن، اذان اور اقامت کا درمیانی وقت بھی افضل اوقات میں شامل ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ''اذان اور اقامت کے درمیان دعا ردّ نہیں ہوتی۔'' (احمد ۲؍۱۵۵، ترمذی : ۲۱۲)
5 گریہ زاری اور تکرار کے ساتھ دعا کرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ گڑ گڑاتے ہوئے اور باربار دہراتے ہوئے دعا کرنا جیسا کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ''اللہ کے رسولؐ کو یہ بات پسند تھی کہ تین تین مرتبہ دعا کی جائے اور تین تین مرتبہ استغفار کیا جائے۔'' (ابوداود:۱۵۲۴ ، ضعیف عند الالبانی ؒ)
6 اسماے حسنیٰ اور نیک اعمال کا وسیلہ
مستحب آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام لے کر دعا کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَللهِ الاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہ ببها) اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں تو ان ناموں کے ساتھ اللہ ہی کو پکارا کرو۔'' (اعراف :۱۸۰) اسی طرح دعا کرنے والے کو چاہئے کہ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرے کہ اے اللہ! میں نے محض تیری رضا کی خاطر فلاں فلاں نیک کام کیا، اے اللہ! مجھے بخش دے... اے اللہ میری مصیبت دور فرما... اے اللہ میرے حال پر رحم فرما...!!
7 جلد بازی سے پرہیز
بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دعا کرنے والا ان شرائط کو مدنظر رکھ کر دعا کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوتی تو ایسے دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ مایوس ہوکر جلد بازی میں اپنی دعا کو چھوڑ نہ دے بلکہ دعا مانگتا رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔'' پوچھا گیا: یارسول اللہﷺ جلد بازی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ بندے کا اس طرح کہنا کہ میں نے دعا کی، پھر دعا کی، لیکن وہ قبول نہیں ہوئی۔پھر وہ دل برداشتہ ہوکر دعا کو چھوڑ دے۔'' (یہ جلد بازی ہے) (بخاری :۶۳۴۰و مسلم :۲۷۳۵)
قبولیت ِدعا کی مختلف صورتیں
یاد رہے کہ ہر انسان کی ایسی دعا جو مذکورہ شرائط و آداب کے مطابق کی جائے، وہ قبول ضرور ہوتی ہے کیونکہ یہ اللہ کاوعدہ ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ أسْتَجِبْ لَکُمْ) ''اور تمہارے ربّ کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا'' (غافر:۶۰) لیکن دعاکی قبولیت کی تین مختلف صورتیں ہیں جیساکہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : ''ما من مسلم يدعو بدعوۃ ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا أعطاہ الله بها إحدی ثلاث: إما أن تعجّل له دعوته، وإما أن يدخرھا له فی الآخرۃ، وإما أن يصرف عنهمن السوء مثلها، قالوا : إذًا نُکثر، قال: الله أکثر'' ''جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا صلہ رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے (عطا کرنے) والا ہے۔'' (احمد :۳؍۱۸) اس حدیث سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دعا کے مذکورہ بالا آداب وضوابط اور شروط و قواعد کو مد ِنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دست ِسوال دراز کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور بضرور اس کی دعا قبول فرماتے ہیں۔ البتہ دعا کی قبولیت کی تین مختلف صورتیںہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ سائل کو اس کے سوال ومطالبہ سے نواز کر اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور عموماً اسے ہی مقبول دعا خیال کیا جاتا ہے۔اس صورت کی مزید دو حالتیں ہیں، ایک تو یہ کہ ادھر دعا کی جائے او رادھر اسے فوراً قبول کرلیا جائے جس طرح حضرت زکریا ؑنے اللہ تعالیٰ سے طلب ِاولاد کی دعا ( رَبِّ هب لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّيةً طيبةً) (آلِ عمران: ۳۸) اے میرے ربّ! مجھے تو اپنے پاس سے اچھی اولاد عطا فرما۔'' تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول کرلی اور فرشتوں کے ذریعے انہیں باخبر کیا کہ (اِنَّ اللهُ يبشرکَ بيحي) (آلِ عمران: ۳۹) ''یقینا اللہ تعالیٰ آپ کو حضرت یحییٰ (بیٹے) کی خوشخبری دیتے ہیں۔'' دنیا میں قبولیت ِدعا کی دوسری حالت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دعا طویل عرصہ کے بعد قبول ہو جیسے حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: (رَبَّنَا وَابْعَثْ فيهم رَسُوْلاً...) (البقرۃ:۱۲۹) اے ہمارے ربّ ! ان میں سے رسول بھیج...'' جبکہ ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا سینکڑوں برس کے بعد قبول ہوئی اور ابراہیم نے جس رسول کی بعثت کی دعا فرمائی، وہ آنحضرت ﷺ کی صورت میں قبول ہوئی۔ جیسا کہ آنحضرتؐ ہی فرماتے ہیں: (الفتح الربانی: ۲۰؍۱۸۱) ''میں اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی دعا، حضرت عیسیٰؑ کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔'' جبکہ اس کے علاوہ بھی قبولیت کی دو صورتیں ہیں جنہیں لوگ 'قبولِ دعا' کی فہرست میں شامل نہیں سمجھتے، یعنی سائل کی دعا دنیا میں تو پوری نہیں ہوئی، البتہ اس دعا کو روزِ قیامت اجروثواب بنا کر سائل کے نامہ اعمال میں شامل کردیا جائے گا یا بسا اوقات اس دعا کی برکت سے سائل و داعی سے کسی آنے والی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے جس کا اندازہ دعا کرنے والے کو نہیں ہو پاتا اور وہ یہی سمجھتا کہ شاید اس کی دعا قبول نہیں ہوئی جبکہ اس کی دعا بارگاہِ خداوندی میں قبول ہوتی ہے مگر اس قبولیت کی صورت ہمارے خیالات سے کہیں بالا ہوتی ہے۔
بعض اوقات دعا کی جو صورت ہمارے سامنے ہے، اللہ اس سے بہتر صورت میں اس کی تکمیل کردیتے ہیں، اور وہی ہمارے حالات کے زیادہ موافق ومناسب ہوتی ہے، تو یہ بھی قبولیت ِدعا کی ایک صورت ہے۔ اس میں بعض اوقات تاخیر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اس قبولیت ِدعا کو بظاہر اپنے لئے اچھا خیال نہیں کرتے لیکن وسیع تناظر میں یا دور اندیشی کے طور پروہی بات ہمارے حق میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ الغرض آداب و شروطِ دعا کو مدنظر رکھتے ہوئے دعا مانگی جائے تو وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

Fazail e Amal Ki Haqeeqat - Tauseef ur Rehman (Cd/Dvd Quality)

Fazail e Amal Ki Haqeeqat
Sheikh Tauseef ur Rehman

A critical analysis of a famous book called "Tableeghi Nisaab" or Fazail e Amaal written by Moulana Zakariya(pioneer of Tableeghi Jamaat). A widely read book in the sub-continent which is full of SHIRK & BIDAAT . Fazilat ash-shaykh Syed Tausif ur Rahman Rashedi exposed the shirk and false beliefs present in the book. This lecture is an eye opener for those muslims who respect this book more than the Noble Quran. The scanned images of the false incidents and deviant ideology and fabricated ahadeeths mentioned in the above said book have been shown during the lecture so that one can cross check and correct his Islam.

This lecture is intended only to correct our Tableeghi brothers and call them to the path of Prophet Mohammed pbuh, by Allah we are not publishing for the sake of any insult to them or to degrade them in any sense. May Allah guide us the right path and help us in falling in Ibleess net Ameen.

Pehle Namaz Phir Qurbani - Abdul Razzaq Sajid

پہلے نماز پھر قربانی
Pehle Namaz Phir Qurbani
(High Quality Video)
Shaikh Abdul Razzaq Sajid


Direct Download

Aakhiri paighambar s.a.w. (Hindi Islamic Books)

Aakhiri paighambar s.a.w.
 
Pages: 17

Size: 0.3 MB

Deobandiat Apni Kitabon Ke Aaine Me - Yahya arfi

دیوبندیت کتابوں کے آینئہ میں
Deobandiat Apni Kitabon Ke Aaine Me
(High Quality Video)
Yahya Arfi
Direct Download


--------------------------------------------------------------

Download Real Player For play This Video

Mohar e Nabuwat (Urdu Books)

Mohar e Nabuwat


Pages: 65

Size: 5.0 MB

Muhlik Faasla (Pamphlets)

Muhlik Faasla


Pages: 2

Size: 0.2 MB

Muqalat e Tayba (Bidat between Muslim vs Hindu) (Urdu Books)

Muqalat e Tayba (Bidat between Muslim vs Hindu)

Pages: 208

Size: 5.2 MB

Sunday, 27 February 2011

Eid Milad Taarikh wa Irtiqa (Online Books)

عیدمیلادتاریخ وارتقاء

                                                                                                                                                                            مبشر حسین لاہوری
بلاناغہ ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو 'عید میلاد النبیؐ کے نام پر جشن منایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کے شروع
ہوتے ہی اس جشن میلاد کی تقریبات کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔ نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں کا راستہ روک کر زبردستی چندے وصول کرتے ہیں۔ علما حضرات مسجدوں میں  جشن ولادت منانے کے لئے دست سوال دراز کرتے ہیں۔پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرمؐ کے یوم ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہzجاتااور گلیوں، بازاروں ، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، تانگوں، گدھا گاڑیوں اور بسوں میں سوار ہوکر پورے ملک میں اللہ کے رسولؐ سے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ جشن، یہ میلاد اور یہ سلسلۂ تقریبات اللہ کے رسولؐ سے محبت کے اظہار کا ذریعہ گردانا جاتا ہے اس لئے چاروناچار حب ِرسولﷺ سے سرشار ہر پیروجوان حسب ِحیثیت اس میں شمولیت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ گورنمنٹ بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے اور حضورِ اکرم ﷺ کی رسالت کا احترام کرتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ حکومتی سطح پر بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کرتی ہے۔


حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اظہار بجاہے اور آپؐ کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے ... مگر دیکھنا یہ ہے کہ حضورؐ سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ حضورؐ کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں.؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں.؟!
عید ِمیلاد چونکہ آنحضرتؐ سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اسلئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سردست آنحضرتؐ سے محبت اور اسکے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔

حضورؐ سے محبت کا معیار

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرتؐ سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل آنحضرتؐ کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔'' (بخاری: کتاب الایمان: باب حب رسول من الایمان؛۱۴)
صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہوجائے۔'' (ایضاً ؛۱۵)
لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسولؐ کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث ِنبوی ﷺکی روشنی میں صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسولﷺ کے اُسوئہ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسولؐ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپؐ کی نافرمانی کو موجب ِعذاب خیال کرتا ہو۔ لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسولؐ کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپﷺ کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص 'عشق رسول ؐاور حب ِرسولﷺ کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسولﷺ ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں کیونکہ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے: ''فمن رغب عن سنتي فلیس مني'' (بخاری؛۵۰۶۳) ''جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔''

تیسری عید کہاں سے آئی؟

۱۲؍ ربیع الاول کو نہ صرف آنحضرت ﷺ کے یومِ ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے تیسری 'عید' سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں۔ ان دو عیدوں کو خوشی کا تہوار آنحضرتؐ نے بذاتِ خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپؐ نے حلال و حرام کو متعین فرمایا ہے۔ جیسا کہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ آنحضرتؐ کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ قدیم دورِ جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آرہے ہیں تو اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: ''إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر'' (ابوداود: کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین ؛۱۹۳۱) ''اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو خوشی کے دن عطا فرمائے ہیں ؛ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی ہے۔''
ان دونوں عیدوں کے موقع پر باادب طریقہ سے نمازِ عید ادا کی جاتی اور اللہ کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔ نیز عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کئے جاتے ہیں، مگر ۱۲؍ ربیع الاول کی 'عیدمیلاد' کو اوّل تو آنحضرتؐ نے مقرر ہی نہیں فرمایا پھر اسے عید قرار دینے والے اس روز نمازِ عید کی طرح کوئی نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی عیدالاضحی کی طرح قربانیاں کرتے ہیں اور فی الواقع ایسا کیا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ 'عید' ہے ہی نہیں مگر اس کے باوجود اسے عید ہی قرار دینا بے جا تحکم، ہٹ دھرمی اور شریعت کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟

یہ جشن ِولادت ہے یا جشن ِوفات؟

۱۲؍ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ آنحضرتؐ کی ولادت کا دن ہے حالانکہ ۱۲ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔ البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول کو حضورؐ کی وفات ہوئی۔ جیسا کہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے :

یومِ ولادت کی تاریخ

تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرتؐ کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولؐ سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہ'' ''یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔'' (مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲)
البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضورؐ کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضورؐ عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا)میں پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپؐ سوموار کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپؐ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپؐ اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثیرؒ نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲؍ ج۲) علاوہ ازیں بہت محققین نے ۱۲ کی بجائے ۹ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ، مثلاً
1۔قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت دان:قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب 'التقویم العربی قبل الاسلام' میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ''عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول 'حضرت ابراہیمؑ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آنحضرتؐ کی وفات کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت ۲۰ ؍اپریل ۵۷۱ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔'' (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ ؍ج۱)
2۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب 'الرحیق المختوم' کے مصنف کے بقول ''رسول اللہؐ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹؍ ربیع الاول سن۱، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔'' (ص:۱۰۱)
3۔ برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی ۹؍ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق جدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱؍ ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ :ص۸۷ ؍ج۱/رحمۃ للعالمین از منصور پوری: ص۳۶۱ ج۲)

۱۲ ربیع الاول یوم وفات ہے !

جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول حضورؐ کا یوم وفات ہے۔ بطورِ مثال چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے ہیں:
1۔ ابن سعد، حضرت عائشہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲)
2۔ حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔ (دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹)
3۔ حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسولؐ ۱۲؍ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (البدایۃ والنھایۃ: ۲۵۵؍۵)
4۔ مؤرخ ابن اثیرؒ رقم طراز ہیں کہ نبی اکرمؐ ۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔ (اسدالغابۃ: ۴۱؍۱/الکامل:۲۱۹؍۴)
5۔ حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا۔ (فتح الباری ۲۶۱؍۱۶)
6۔ محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص۴۰۴)
7۔ امام نوویؒ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ (شرح مسلم :۱۵؍۱۰۰)
8۔ مؤرخ و مفسر ابن جریر طبریؒ نے بھی ۱۲؍ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (تاریخ طبری:۲۰۷؍۳)
9۔ امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔ (دلائل النبوۃ: ۲۲۵؍۷)
10۔ ملا علی قاریؒ کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۱۰۴؍۱۱)
11۔سیرت نگار مولانا شبلی نعمانیؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ (سیرت النبیﷺ: ص۱۸۳؍ج۲)
12۔. قاضی سلیمان منصور پوری کی بھی یہی رائے ہے۔ (رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱)
13۔ صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (الرحیق: ص۷۵۲)
14۔ ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی رائے ہے۔ (السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴)
15۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ ۱۲ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔ (ملفوظات)

ایک اور تاریخی حقیقت

گذشتہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبیؐ ہے اور برصغیر میں عرصۂ دراز تک اسے '۱۲ وفات' کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس دن جشن اور خوشی منانے والوں پرجب یہ اعتراض ہونے لگے کہ یہ تو یوم وفات ہے اور تم وفات پر شادیانے بجاتے ہو!... تو اس معقول اعتراض سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس کا نام '۱۲ وفات' کی بجائے 'عیدمیلاد' رکھ دیا جیسا کہ روزنامہ 'مشرق' لاہور کی ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۴ء کی درج ذیل خبر سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے : ''اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ ، مولانا محمد بخش مسلم، نور بخش توکلی اور دیگرعلما نے ایک قرار داد کے ذریعے اسے 'میلادالنبیؐ ' کا نام دے دیا۔''
قصہ مختصر کہ اس روز جشن اور خوشیاں منانے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں، وہ نبی اکرم ﷺ کا یومِ پیدائش نہیں بلکہ یوم وفات ہے!

اگر یہ جشن ولادت ہے تو تب بھی بدعت ہے !

اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ۱۲؍ ربیع الاول ہی آنحضرت ﷺ کا یومِ ولادت ہے تو تب بھی اس تاریخ کو جشن عید اور خوشیاں منانا اور اسے کارِ ثواب سمجھنا از روئے شریعت درست نہیں کیونکہ جب خود حضورؐ نے اپنی ولادت کا 'جشن' نہیں منایا، کبھی 'عیدمیلاد' کا انتظام یا حکم نہیں فرمایا، نہ ہی صحابہ کرام نے کبھی یہ خود ساختہ 'عیدمیلاد' منائی اور نہ تابعین ، تبع تابعین، مفسرین ، محدثین اور ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) سے اس کا کوئی ثبوت فراہم ہوتا ہے تو لامحالہ یہ دین میں اضافہ ہے جسے آپ بدعت کہیں یا کچھ اور... بہرصورت اگر اسے کارِ ثواب ہی قرار دینا ہے تو پھر اس ہٹ دھرمی سے پہلے اعلان کردیجئے کہ آنحضرتؐ سمیت تمام صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ اس ثواب سے محروم رہے اور ہم گنہگار (نعوذ باللہ) ان عظیم لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں!

بدعت ِعیدمیلاد کا موجد کون؟

عیدمیلاد کاجشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب ِنبویﷺ اور حب ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف' میلاد النبیؐ' کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے 'میلاد' بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ ''یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیاکرام ؑ کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔''
نیز لکھتے ہیں کہ ''فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں منکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں.سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔'' (البدایۃ والنھایۃ : ۱۱؍۲۵۵ تا ۲۷۱)
بدعت ِعیدمیلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں :
1۔ مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ''أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام'' میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ ''إن أول من أحدثھا بالقاھرۃ الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین اﷲ توجہ من المغرب إلی مصر فی شوال سنۃ (۳۶۱ھ) إحدی وستین وثلاث مائۃ ھجریۃ ...'' ''سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلادالنبیؐ، میلادِ علیؓ، میلادِ فاطمہؓ، میلادِ حسنؓ، میلادِ حسینؓ، اور حاکم وقت کا میلاد.. یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔''
2۔ علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں : ''کان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی ا ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمۃ الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃ الحاضر''(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱؍ ص۴۹۰) ''فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبیؐ، میلادِ علیؓ، میلاد فاطمۃ الزہراؓ، میلادِ حسنؓ، میلاد حسینؓ اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔''
3۔ علامہ ابوالعباس احمد بن علی قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: '' فاطمی حکمران ۱۲؍ ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دارالفطرۃ (مقام) میں ۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ شکر سے انواع و اقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے ۳۰۰ خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک ِمیلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی و مبلغ اور خطباء و قرأ حضرات، قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان و نگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔'' (دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳؍ ص۴۹۸ تا ۴۹۹)
بدعت ِمیلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الابداع في مضار الابتداع (ص۱۲۶) از شیخ علی محفوظ، البدعۃ ضوابطھا وأثرھا السیئۃ في الأمۃ (ص ۱۶تا۲۱) از ڈاکٹر علی بن محمد ناصر، القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل (ص۶۴ تا ۷۲) از شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری، المحاضرات الفکریۃ، ص۸۴ از سیدعلی فکری ... وغیرہ

بدعت ِمیلاد ؛ مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل و موصل) کے سنّیوں تک

عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد ِحکومت میں ختم کردیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عیدمیلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلادِ علیؓ، میلادِ حسنؓ و حسینؓ وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبیؐ پر زور دیا۔ چنانچہ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ کے بقول : ''وکان أول من فعل ذلک بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبہ اقتدی فی ذلک صاحب إربل وغیرہ'' (الباعث علی انکار البدع والحوادث ص۲۱) ''(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی 'اربل'کے حاکم نے بھی (سرکاری طورپر) جشن میلاد منانا شروع کردیا۔'' اربل کا یہ حاکم ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن بکتیکن بن محمد تھا جو مظفر الدین کوکبوری کے لقب سے معروف تھا۔ ۵۸۶ ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے اربل کا گورنر مقرر کیا مگر یہ بے دین، عیاش اور ظالم و سرکش ثابت ہوا جیسا کہ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ : ''یہ گورنر بڑا ظالم تھا، عوام پر بڑا تشدد کرتا، بلا وجہ لوگوں کے اَموال ہتھیالیتا اور اس مال ودولت کو غریبوں، فقیروں پر خرچ کرتا اور قیدیوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتااور ایسے ہی شخص کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ؎
کساعیۃ للخیر من کسب فرجھا                       لک الویل لا تزنی ولا تتصدقی        ''یہ تو اس عورت کی طرح ہے جو بدکاری کی کمائی سے صدقہ خیرات کرتی ہے۔ اے بدکار عورت! تیرے لئے ہلاکت ہے۔نہ تو زنا کر اور نہ ایسی گندی کمائی سے صدقہ کر۔'' (معجم البلدان:ص۱۳۸، ج۱)اسی 'صاحب ِاربل' ہی کے بارے میں امام سیوطی رقم طراز ہیں کہ ''وأول من أحدث فعل ذلک صاحب إربل الملک المظفر أبوسعید کوکبوري'' (الحاوی للفتاوی: ص۱۸۹ ج۱)''سب سے پہلے (اربل میں) جس نے عید ِمیلاد کی بدعت ایجادکی، وہ اربل کا حاکم الملک المظفر ابوسعید کوکبوری تھا۔''
شاہِ اربل بدعت ِمیلاد کا انعقاد کس جوش و خروش اور اہتمام و انصرام سے مناتا تھا، اس کا تذکرہ ابن خلکان نے ان الفاظ میں کیا ہے:
''محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقہا، صوفیا، وعظا، قرأ اور شعرا حضرات اربل آنا شرو ع ہوجاتے اور شاہ اربل مظفرالدین کوکبوری ان 'مہمانوں' کے لئے چار چار، پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا۔ ان میں سب سے بڑا قبہ اور خیمہ خود بادشاہ کا ہوتا اور باقی دیگر ارکانِ حکومت کے لئے ہوتے۔ ماہِ صفر کے آغاز میں ان قبوں اور خیموں کو خوب سجا دیا جاتا اور ہر قبے میں آلاتِ رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا۔ ان دنوں لوگ اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات معطل کرکے سیرو تفریح کے لئے یہاں جمع ہوتے۔ حاکم وقت ہر روز عصر کے بعد ان قبوں کی طرف نکلتا اور کسی ایک قبے میں رقص و سرود کی محفل سے لطف اندوز ہوتا۔ پھر وہیں محفل میں رات گزارتا اور صبح کے وقت شکار کے لئے نکل جاتا، پھربو قت ِدوپہر اپنے محل میں واپس لوٹ آتا۔ عید ِمیلاد تک شاہِ اربل کا یہی معمول رہتا۔ ایک سال ۸؍ربیع الاول اور ایک سال ۱۲؍ ربیع الاول کو عیدمیلاد منائی جاتی۔ اس لئے کہ (اس وقت بھی ) آنحضرتؐ کے یوم ولادت کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عیدمیلاد سے دو دن پہلے شاہِ اربل اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کی بہت بڑی تعداد اور طبلے، سارنگیاں وغیرہ کے ساتھ میلاد منانے نکلتا اور ان جانوروں کو ذبح کرکے شرکائے میلاد کی پرتکلف دعوت کی جاتی۔'' (وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان لابن خلکان : ص۱۱۷ ؍ج۴)
سبط ابن جوزی کا بیان ہے کہ ''اس بادشاہ (کوکبوری) کے منعقد کردہ جشن میلاد کے دستر خوان پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے اس نے دستر خوان پر ۵ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ۱۰۰ گھوڑے، ایک لاکھ پیالے اور ۳۰ ہزار حلوے کی پلیٹیں شمار کیں۔ اس کے پاس محفل میلا دمیں بڑے بڑے مولوی اور صوفی حاضر ہوتے جنہیں وہ خلعت ِفاخرہ سے نوازتا، ان کے لئے خیرات کے دروازے کھول دیتا اور صوفیا کے لئے ظہر سے فجر تک مسلسل محفل سماع منعقد کراتا جس میں وہ بذاتِ خود شریک ہوکر رقص کرتا۔ ہر سال اس محفل میلاد پر یہ بادشاہ تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔'' (مرآۃ الزمان: ص۲۸۱ ج۸)

بدعت ِمیلاد اور نفس پرست علمآء

بدعت ِمیلاد جب شیعوں سے سنّیوں اور سنّیوں کے بھی بادشاہوں میں رائج ہوگئی تو اب ان بادشاہوں کے خلاف آواز حق بلند کرنا یا دوسرے لفظوں میں ان کے بدعات و خرافات پر مذمت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس پرطرہ یہ کہ بعض خود غرض مولویوں نے بادشاہِ وقت کی ان تمام خرافات کو عین شریعت اور کارِ ثواب قرا ر دے دیا۔ چنانچہ عمر بن حسن المعروف ابن دحیہ اندلسی نامی ایک مولوی نے ''التنویر في مولد البشیر والنذیر'' نامی کتاب لکھی جس میں قرآن و سنت کے نصوص کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اور انہیں تاویلاتِ باطلہ کا لبادہ اوڑھا کر عید ِمیلاد کو شرعی امر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بادشاہِ وقت سے ہزار دینار انعام حاصل کیا۔ (ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ۱۳؍۱۲۴/وفیات الاعیان: ۴؍۱۱۹/الحاوی للفتاوی: ۱؍۱۸۹)
واضح رہے کہ اس ابن دحیہ اندلسی کو محدثین نے ضعیف اور ناقابل اعتماد راوی قرار دیا ہے مثلاً امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ متہم (جس پر جھوٹ کاالزام ہو) راوی ہے۔ (میزان الاعتدال :۳؍۱۸۶) اسی طرح حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ''یہ ظاہری مذہب کا حامل تھا۔ ائمہ کرام اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ خبیث اللسان، احمق، شدید متکبر، دینی اُمور میں کم علم اور بے عمل شخص تھا۔'' (لسان المیزان:ص۲۹۶؍ ج۴)

بدعت ِمیلاد برصغیر (لاہور) میں!

گذشتہ صفحات میں یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ بدعت ِمیلاد چوتھی صدی ہجری (۳۶۱ھ) میں مصر کے فاطمیوں (غالی شیعہ) نے ایجاد کی پھر چھٹی صدی ہجری میں سنیوں میں بھی یہ رواج پاگئی۔ تاہم گردشِ ایام کے ساتھ یہ بدعت طبعی موت مرگئی۔ پھر برسوں بعد برصغیر میں انگریز کے آخری دور میں یہ دوبارہ زندہ ہوگئی۔ اس لئے کہ برصغیر کی عیسائی حکومت ہر ۲۵ دسمبر کوسرکاری سطح پر حضرت عیسیٰ ؑ کے یومِ ولادت کا جشن مناتی تھی جس کی دیکھا دیکھی بعض کم علم مسلمانوں نے حب ِنبویﷺ کے احساس سے اپنے طور پر عیدمیلاد النبیؐ منانا شروع کردی۔ اگرچہ بعض لوگ بدعت ِمیلاد کے قلابے اکبر دور سے ملاتے ہیں مگر معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ عیسائیوں کے کرسمس کے ردعمل میں مسلمانوں نے عید ِمیلاد کو رواج دیا۔ اس سلسلے میں درج ذیل دو تاریخی حوالے قابل توجہ ہیں:
1۔ روزنامہ 'کوہستان' ۲۲؍ جولائی ۱۹۶۴ء میں احسان بی اے 'لاہور میں عیدمیلاد النبیؐ ' کی سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ ''لاہور میں عیدمیلاد النبیؐ کا جلوس سب سے پہلے ۵ ؍جولائی ۱۹۳۳ء مطابق ۱۲؍ربیع الاول ۱۳۵۲ھ کونکلا۔ اس کے لئے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیاتھا۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندانِ توحید موچی دروازہ نے کیا۔ اس انجمن کامقصد ہی اس کے جلوس کا اہتمام کرنا تھا۔ انجمن کی ابتدا ایک خوبصورت جذبہ سے ہوئی۔ موچی دروازہ لاہور کے ایک پرجوش نوجوان حافظ معراج الدین اکثر دیکھاکرتے تھے کہ ہندو اور سکھ اپنے دھرم کے بڑے آدمیوں کی یاد بڑے شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور ان دنوں ایسے لمبے لمبے جلوس نکالتے ہیں کہ کئی بازار ان کی وجہ سے بند ہوجاتے ہیں۔ حافظ معراج الدین کے دل میں خیال آیا کہ دنیا کے لئے رحمت بن کر آنے والے حضرت محمدؐ کی یاد میں اس سے بھی زیادہ شاندار جلوس نکلنا چاہئے ... انہوں نے ایک انجمن قائم کی جس کا مقصد عیدمیلاد النبیؐ کے موقع پر جلوس مرتب کرنا تھا۔ اس میں مندرجہ ذیل عہدیدار تھے: (۱) صدر: مستری حسین بخش (۲) نائب صدر: مہر معراج دین (۳) حافظ معراج الدین (۴)پراپیگنڈہ سیکرٹری: میاں خیر دین بٹ (بابا خیرا) (۵) خزانچی: حکیم غلام ربانی... اشتہارات کے ذریعہ جلوس نکالنے کے ارادہ کو مشتہر کیا گیا۔ چست اور چاق و چوبند نوجوانوں کی ایک رضا کار جماعت بنائی گئی اور جگہ جگہ نعتیں پڑھنے کاانتظام کیا گیا... الخ''
2۔ روزنامہ 'مشرق' مؤرخہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۸۴ء (۱۲؍ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ) میں مصطفی کمال پاشا (صحافی)''لاہور میں ۱۲ ربیع الاول کا جلوس کیسے شروع ہوا؟'' کی سرخی کے بعد لکھتے ہیں کہ
''آزادی سے پیشتر ہندوستان میں حکومت ِبرطانیہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسیٰ ؑ کے یوم پیدائش کوبڑے تزک و احتشام کے ساتھ منانے کا انتظام کرتی اور اس روز کی فوقیت کو دوبالا کرنے کے لئے اس دن کو 'بڑے دن' کے نام سے منسوب کیا گیا ... تاکہ دنیا میں ثابت کیا جاسکے کہ حضرت مسیح ہی نجات دہندہ تھے۔
حضور پاکؐ ۱۲؍ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے اور اسی روز وفات پائی۔ کچھ لوگ اس یومِ مقدس کو '۱۲ وفات' کے نام سے پکارتے ہیں۔ آزادی سے پیشتر اس یوم کے تقدس کے پیش نظر مسلمانانِ لاہور نے اظہارِ مسرت و عقیدت کے طور پر جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا... ان دنوں کانگریس اپنے اجتماع موری دروازہ میں منعقد کیا کرتی تھی اور اس کے مقابلہ میں مسلمان اپنے اجتماع موچی دروازہ لاہورمیں منعقد کرتے تھے، لہٰذا موچی دروازہ کو سیاسی مرکز ہونے کے علاوہ سب سے پہلے عیدمیلاد النبیؐ کا جلوس نکالنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ علمی طور پر اس کی قیادت انجمن فرزندانِ توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی۔ جس میں حافظ معراج دین... وغیرہ شامل تھے۔
انجمن کی زیر قیادت جلوس کو دلہن کی طرح سجایا جاتا۔ جلوس میں شامل نوجوانوں پرپھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں۔ سیاسی اور سماجی کارکنوں کے علاوہ جلوس کے آگے پہلوانوں کی ٹولی بھی شمولیت کرتی۔'' واضح رہے کہ
1۔ روزنامہ کوہستان نے انجمن فرزندانِ توحید کے عہد یداران کی تصاویر اخبارِ مذکور میں شائع کیں اور  2۔ روزنامہ مشرق نے اس لائسنس کا عکس بھی شامل اشاعت کیا جو (میلاد النبیؐ کے جلوس کی اجازت کے لئے) حکومت ِبرطانیہ سے حاصل کیاگیاتھا۔ 3۔علاوہ ازیں مذکورہ اخبارات کی فوٹو سٹیٹ تحریریں ماہنامہ 'حرمین' جامعہ علوم اثریہ، جہلم کے ادارہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔

بدعت ِعید میلاد سے متعلقہ شبہات کا ازالہ اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ

عیدمیلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک تو باقی نہیں رہ جاتا مگر اس کے باوجود بعض علما اسے کسی نہ کسی طرح شرعی لبادہ پہنانا چاہتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں قرآنی آیات میں کھینچا تانی کرنا پڑے یاکفار (ابولہب وغیرہ) کے عمل سے استدلال کرنا پڑے مگر حق بہرحال حق ہے جوباطل کی ملمع سازیوں کے باوجود آخر کار نکھر ہی آتا ہے۔ اس لئے آئندہ سطور میں بدعت ِمیلاد کو جائز قرار دینے والوں کے دلائل کاجائزہ پیش کیا جاتا ہے :

قرآنی دلائل

(یٰأیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَبِّکُمْ وَشِفَائٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا) ''اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جونصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں، ان کے لئے شفا ہے اور وہ رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے۔ (اے نبیؐ!) آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔'' (یونس:۵۷،۵۸) اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت وغیرہ حضورؐ کی پیدائش اور تشریف آوری ہی پر موقوف ہے۔ اس لئے سب سے بڑی رحمت و نعمت تو خود حضورؐ کی ذاتِ گرامی ٹھہری، لہٰذا آپؐ کی تشریف آوری پر خوشی منانا چاہئے اور فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں بھی خوشی منانے کا حکم ہے۔
جواب: 1۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید آنحضرتؐ پر نازل ہوا اور آپؐ ہی حکم خداوندی سے اس کی قولی و عملی تفسیر و تشریح فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کی رسالت وبعثت کے بعد ۲۳ مرتبہ یہ دن آیا مگر آپؐ نے ایک مرتبہ بھی اس کی قولی و عملی تفسیر فرماتے ہوئے عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی صحابہ کرامؒ، تابعین عظام اور تبع تابعین، مفسرین و محدثین وغیرہ کو اس آیت میں عید میلاد نظر آئی مگر داد ہے ان نکتہ دانوں کے لئے جنہیں چودہ سو سال بعد خیال آیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیدمیلاد النبیؐ منانے کا حکم دیا ہے اور ان پاکباز ہستیوں کو یہ نکتہ رسی نہ سوجھی کہ جنہیں نزولِ قرآن کے وقت براہِ راست یہ حکم دیا گیا۔
2۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں ولادتِ نبوی ﷺ یا عید میلاد کا کوئی ذکر و اشارہ تک بھی نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کی نعمت پر خوش ہوجاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کے لئے اسے نازل کیا ہے۔
3۔ علاوہ ازیں خوشی کا تعلق انسان کی طبیعت اورقلبی کیفیت سے ہوتا ہے نہ کہ وقت اور دن کے ساتھ۔ اس لئے اگر نزولِ قرآن یا صاحب ِقرآن (آنحضرتؐ) پر خوش و خرم ہونے کا حکم ہے تو یہ خوشی قلبی طور پر ہر وقت موجود رہنی چاہئے، نہ کہ صرف ۱۲ ربیع الاول کو اس خوشی کا اظہار کرکے پورا سال عدمِ خوشی میں گزار دیا جائے۔ اگر آپ کہیں کہ خوشی تو سارا سال رہتی ہے تو پھر آپ سے از راہِ ادب مطالبہ ہے کہ یا تو سارا سال بھی اسی طرح بھنگڑے ڈال کر اور جلوس نکال کر خوشی کا اظہار کیا کریں یا پھر باقی سال کی طرح۱۲؍ ربیع الاول کو بھی سادگی سے گزارا کریں۔
(وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ) (الضحیٰ :۱۱) ''اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔''
اس آیت سے بھی یہ کشید کیا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمت ِمسلمہ کے لئے سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا اس نعمت ِعظمیٰ کا اظہار بھی بڑے پرشوکت جشن و جلوس سے کرنا چاہئے۔
جواب:1۔ اس آیت میں اگرچہ انعاماتِ خداوندی کے اظہار کا ذکر ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا کسی نعمت کے اظہار کے لئے اسلام نے جلوس نکالنے کا حکم دیا ہے؟ مثلاً آپ کے گھر میں بیٹا پیدا ہو تو تحدیث ِنعمت کے طور پر آپ شہر بھر میں جلوس نکالیں گے؟ اگر آپ ہاں بھی کہہ دیں تواللہ کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں، آخر کس کس نعمت پر جلوس نکالیں گے
2۔ آنحضرتؐ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ِعظمیٰ ہیں مگر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام نے اس نعمت ِعظمیٰ کی کس طرح قدر کی؟ کیا وہ آنحضرتؐ کا عید میلاد مناکر اور جلوس نکال کر آنحضرتؐ کی قدرومنزلت کا خیال کیا کرتے تھے یا آپؐ کے اقوال و فرمودات پر عمل پیرا ہوکر اس نعمت کا اظہار کیا کرتے تھے؟ جس طرح صحابہ کرام کیا کرتے تھے، من و عن اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے۔اگر وہ جلوس نکالا کرتے تھے تو ہمیں بھی ان کی اقتدا کرنی چاہئے اگر ان سے آنحضرتؐ کی زندگی یا بعد از وفات ایک مرتبہ بھی جشن و جلوس منانا ثابت نہیں تو پھر کم از کم ہمیں بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہئے۔
3۔ یہ آیت آنحضرتؐ پرنازل ہوئی مگر آپؐ نے زندگی بھر ایک مرتبہ بھی عید ِمیلاد نہیں منائی، پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اسے کارِ ثواب قرار دے کر دین میں اضافہ ، اپنے عملوں کو برباد اور اللہ کے رسولؐ کی مخالفت کریں۔
(وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ) (ابراہیم:۵) ''اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلاؤ۔''
(وَالسَّلاَمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّا) (مریم:۳۳) ''اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے۔''
(وَرَفَعْنَاَ لَکَ ذِکْرَکَ) (الانشراح:۴) ''اور ہم نے آپؐ کا ذکر بلند کردیا''
جواب:ان تینوں آیات سے بھی عید ِمیلاد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں کہیں جشن عیدمیلاد کا ذکر نہیں۔ اگر اس کا کوئی اشارہ بھی ہوتا تو وہ صحابہ کرام سے آخر کیسے مخفی رہ سکتا تھا؟!
آیت نمبر3 میں حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کو گذشتہ قوموں کے واقعات سے باخبر کریں کہ کس طرح ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے انہیں ہلاکت و عذاب سے دوچار کیا گیا اور اطاعت گزاروں کو کامیابی سے نوازا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی اصول تفسیرکی کتاب 'الفوز الکبیر' میں قرآنِ مجید کے پانچ علوم میں سے ایک کا نام 'علم التذکیر بایام اللہ' رکھا جس میں گذشتہ اقوام کے عروج وزوال، انعام و اکرام یا ہلاکت و عذاب پر بحث کی جاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت سے گذشتہ نبیوں کا میلاد منانا مراد ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے گذشتہ نبیوں کا میلاد کیوں نہ منایا؟ اور آنحضرتؐ نے حضرت موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ وغیرہ کا میلاد کیوں نہ منایا؟
آیت نمبر4 میں حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر ہے اور انہوں نے کبھی میلا دنہ منایا نہ ان کے حواریوں نے ایسا کیا البتہ ان کے آسمان پراٹھائے جانے کے عرصہ دراز بعد تقریباً ۳۳۶؁میں پہلی مرتبہ رومیوں نے اس بدعت کو دین عیسوی میں ایجاد کیا۔ روم کے عیسائی علما نے باہم مشورہ سے طے کیا کہ مقامی بت پرستوں کے مقابلہ میں مسیحیوں کی شناخت کے لئے بھی کوئی تہوار ہونا چاہئے۔ رومی بت پرست ۶؍ جنوری کو اپنے ایک دیوتا کے احترام میں تہوار مناتے تھے لہٰذا عیسائیوں نے بھی کرسمس کے لئے یہی تاریخ منتخب کی مگر بعد میں عیسائیوں نے ۲۵ دسمبر کو کرسمس منانے پر اتفاق کرلیا کیونکہ اس تاریخ کو سب سے بڑے دیوتا (یعنی سورج) کا تہوار منایا جاتا تھا ۔ پھر دین عیسوی کی اس بدعت کو جب اللہ کے رسولؐ نے ہرگز اختیار نہیں کیا تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد پر میلا دالنبیؐ منائیں۔
علاوہ ازیں اگر یوم ولادت سے عید میلاد منانے کا جواز ہے تو پھر اس آیت میں موجود یَوْمَ أَمُوْتُ سے 'یومِ سوگ ' بھی منانا چاہئے۔ اگر 'یوم سوگ' نہیں تو پھر جشن ولادت ہی کیوں؟
آیت نمبر5 میں اللہ کے رسولؐ کی عظمت و رفعت کا ذکر ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے، بدعت ِمیلاد کے مرہون منت قرار نہیں دیا۔ لیکن اگر اللہ کے رسولؐ کی رفعت و عظمت جشن میلاد ہی سے ممکن ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جب تک یہ بدعت ایجاد نہیں ہوئی تھی تب تک حضورؐ کی رفعت کیسے قائم رہی؟

اختلاف صرف اظہارِ خوشی کے طریقے پر ہے!

یہاں اس شبہ کا اِزالہ بھی ہوجانا چاہئے کہ میلا دنہ منانے والوں کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں آنحضرتؐ کی تشریف آوری اور رسالت پر شاید خوشی ہی نہیں ہے۔ ایسی بات ہرگز نہیں کیونکہ جسے اللہ کے رسولؐ سے محبت ہی نہیں یا آپ ؐ کی رسالت و بعثت پر خوشی ہی نہیں، وہ فی الواقع مسلمان ہی نہیں۔ البتہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اس خوشی کے اظہار کا شرعی طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ اگر کہا جائے کہ جشن، جلوس، میلاد اور ہر من مانا طریقہ ہی جائز و مشروع ہے تو پھر پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ پھر صحابہ کرام کی آنحضرتؐ سے محبت مشکوک ٹھہرتی ہے، اس لئے کہ انہوں نے اظہارِ محبت کے لئے کبھی جشن میلاد نہیں منایا جبکہ آپؐ کے فرمان پر وہ جان دینے سے بھی نہیں گھبرایا کرتے تھے!
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خوشی اور غمی کی حدود و قیود متعین کردی ہیں جن سے تجاوز ہرگز مستحسن نہیں۔ اس لئے شیعہ حضرات کا شہداے کربلا کے رنج و غم پر نوحہ و ماتم کرنا، تعزیے نکالنا، سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنا جس طرح دینی تعلیمات کے منافی اور رنج و غم کی حدود سے اِضافی ہے اسی طرح بعض سنّیوں کا ۱۲؍ربیع الاول کو یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا، بھنگڑے ڈالنا، قوالیاں کرنا، رات کو بلا ضرورت قمقمے جلانا، چراغاں کرنا اور بے جا اِسراف کرنا بھی دینی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے نزدیک جشن میلاد 'برحق' ہے تو پھر اسے چاہئے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر شیعہ کے نوحہ و ماتم کو بھی برحق کہہ دے !

احادیث کے دلائل

1۔ صحیح بخاری کے حوالے سے عید میلاد کے جواز کے لئے یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ ''قال عروۃ وثویبۃ مولاۃ لأبي لھب وکان أبولھب اعتقھا فأرضعت النبی ا فلما مات أبولھب اریہ بعض أھلہ بشر حیبۃ قال لہ ماذا لقیت؟ قال أبولھب لم الق بعدکم غیرانی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ'' (کتاب النکاح: باب وأمھاتکم اللآتی أرضعنکم)
''عروہ راوی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی اور ابولہب نے اسے آزاد کردیا تھا۔ اس لونڈی نے نبی اکرمﷺ کو (بچپن میں) دودھ پلایا تھا۔ جب ابولہب فوت ہوا تو اس کے کسی عزیز نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بری حالت میں ہے تو اس سے پوچھا کہ کیسے گزر رہی ہے؟ ابو لہب نے کہا کہ تم سے جدا ہونے کے بعد کبھی آرام نہیں ہوا، البتہ مجھے یہاں (انگوٹھے اور انگشت ِشہادت کے درمیان گڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) سے پانی پلا دیا جاتا ہے اور یہ بھی اس و جہ سے کہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزادی بخشی تھی۔''
جواب:1۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ روایت صحیح بخاری کی مسند روایتوں میں شامل نہیں بلکہ ان معلقات میں سے ہے جنہیں امام بخاری بغیر سند کے اَبواب کے شروع میں بیان کردیتے ہیں اور یہ روایت بھی عروہ تابعی سے مرسل مروی ہے اور محدثین کے نزدیک مرسل تابعی حجت نہیں۔
2۔ پھر یہ مرسل روایت اہل سیر کی روایات کے خلا ف ہے، اس لئے کہ اکثر و بیشتر اہل سیر کے مطابق ابولہب نے اپنی لونڈی کو آنحضرتؐ کی پیدائش کے کافی عرصہ بعدآزاد کیا تھا مگر اس روایت سے اس کو ولادت نبوی ؐکے موقع پر آزاد کرنے کا اشارہ ہے۔ ابن جوزی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ '' ثویبہ آنحضرتؐ کے پاس اس وقت بھی آیا کرتی تھی جب آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کرلی تھی۔ اور ان دنوں بھی یہ ابو لہب کی لونڈی تھی مگر اس کے بعد ابولہب نے اسے آزا دکردیا۔'' (الوفاباحوال المصطفیٰ : ص۱۰۷؍ ج۱)
حافظ ابن حجرؒ نے بھی یہ بات ذکر کی ہے۔ (فتح الباری:۹؍۱۴۵ اور الاصابہ:۴؍۲۵۰) اسی طرح ابن سعدؒ نے طبقات (۱؍۱۰۸) میں اور ابن عبدالبرؒ نے الاستیعاب (۱؍۱۲) میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
3۔مذکورہ روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو آنحضرتؐ کی ولادت پر آزا دنہیں کیا لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس نے ولادت ہی پر اسے آزاد کیا تھا تو پھر ابولہب کا یہ عمل اس وقت کا ہے کہ جب اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ میرا بھتیجا نبی بنے گا بلکہ آنحضرتؐ کی پیدائش پراس نے بحیثیت ِچچا اپنی لونڈی آزاد کرکے مسرت کا اظہار کیا اور بچے کی پیدائش پرایسا اظہارِ مسرت بلا استثنائِ مسلم و غیر مسلم ہر شخص فطری طور پر کیا ہی کرتا ہے۔ چنانچہ ابولہب نے بھی اس فطری مسرت کا اظہار کیا مگر جب آپؐ نے رسالت کا اعلان کیا تو یہی ابولہب آپؐ کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور اسی ابولہب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورئہ لہب نازل فرمائی کہ (تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ مَا أَغْنٰی عَنْہٗ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ) (سورئہ لہب:۱تا۳)
''ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں داخل ہوگا۔''
4۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ محض ایک خواب ہے اور شریعت نے نبی ورسول کے علاوہ کسی کے خواب کو حجت و برہان قرا رنہیں دیا۔
5۔ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۶۳ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر فرمائے۔ اس سے بعض لوگ یہ نکتہ رسی کرتے ہیں کہ حضورؐ کی عمر چونکہ ۶۳ سال تھی، اس لئے ہر سال کی خوشی میں آپؐ نے ایک ایک اونٹ ذبح فرمایا۔ اس لئے ہمیں بھی آنحضرتؐ کے یومِ ولادت کی ہر سال خوشی منانا چاہئے۔
جواب: 1۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ اللہ کے رسولؐ نے ۶۳ اونٹ اپنے دست مبارک سے قربان کئے مگر یہ کہاں سے نکل آیا کہ انہیں عیدمیلاد کی خوشی میں قربان کیا گیا تھا؟
2۔ اگر بالفرض یہ عید میلاد کی خوشی میں ذبح کئے گئے تھے تو پھر عیدمیلاد ربیع الاوّل کی بجائے ذوالحجہ کو منانی چاہئے کیونکہ یہ واقعہ نو ذوالحجہ کا ہے!
3۔ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۰۰ اونٹ نحر فرمائے۔ ان میں سے ۶۳ اونٹ تو آپؐ نے اپنے دست ِمبارک سے نحر کئے جبکہ باقی ۳۷ اونٹ حضرت علی نے آپؐ کے حکم سے نحر کئے۔ اس لئے اگر ۶۳ اونٹ آنحضرتؐ کی ۶۳ سالہ زندگی کے ایام ولادت کی خوشی میں ذبح کئے گئے تو باقی ۳۷ اونٹ کس کے یوم ولادت کی خوشی میں تھے؟
6۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرتؐ سوموار کو روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ اس دن آپؐ کی پیدائش ہوئی تھی اور اس دن روزہ رکھنا بطورِ شکرانہ تھا، اس لئے میلاد کی خوشی منانا چاہئے۔ کیونکہ شکرانہ خوشی اور نعمت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔
جواب: 1۔ جن روایات میں سوموار کے روزے کا ذکر ہے، انہی میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپؐ جمعرات کا بھی روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس لئے اگر بالفرض سوموار کا روزہ ولادت کی خوشی میں تھا تو پھر جمعرات کا روزہ کس خوشی میں تھا؟
2۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی میلا دکی خوشی کا روزہ نہ تھا بلکہ بعض صحابہ کے استفسار پر آپؐ نے سوموار اور جمعرات کے روزے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ ''ہفتے کے ان دو دنوں میں بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال جب اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں نے روزہ رکھا ہو۔'' (فتح الباری :۴؍۲۳۶)
3۔ اگر بالفرض آنحضرتؐ سوموار کا روزہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھتے تھے تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ آپؐ سال بھر میں صرف اپنے یومِ تاریخ کا ایک ہی روزہ رکھتے مگر آپؐ تو ہر ہفتے کی سوموار (اور جمعرات) کو روزہ رکھا کرتے تھے... اس سے بھی معلوم ہوا کہ یہاں بھی میلاد کی کوئی گنجائش نہیں۔
4۔ اگر حدیث ِمذکور کی بنا پر خوشی اور میلاد ضروری ہے تو پھر کم از کم میلاد منانے والوں کو اس روز، روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ کے رسولؐ اس روز روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر میلاد منانے والے تو دعوتیں اڑاتے ہیں۔ بقول شخصے  حضور روزہ فرماتے ہیں اوریہ عید مناتے ہیں!
7۔ بعض بھولے بسرے یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یوم اقبال، یوم قائداعظم اور یوم سالگرہ منانا درست ہے تو پھر یومِ میلاد کیوں بدعت ہے؟
جواب: یہ اعتراض تب درست ہوسکتا تھا کہ جب یوم اقبال، یومِ قائد اور سالگرہ وغیرہ منانا دینی اعتبار سے مشروع و جائز ہوتا مگر جب یہ چیزیں بذاتِ خود غیر مشروع ہیں تو انہیں بنیاد بنا کر نئی چیز کیسے مشروع (جائز) ہوجائے گی؟ اسلام میں ایام پرستی کا کوئی تصور نہیں۔ اگر ایام پرستی کا اسلام نے لحاظ رکھا ہوتا تو ہر روز کسی نہ کسی نبی، ولی اور عظیم واقعہ کی یاد میں ایک نہیں، سینکڑوں جشن منانا پڑتے اور اُمت مسلمہ کو سال بھر ایام پرستی ہی سے فرصت نہ مل پاتی۔
علاوہ ازیں یوم اقبال اور یوم قائد وغیرہ منانے والے کیا اسلامی شریعت میں ایسا امتیازی مقام رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اسفعل کو دین و حجت قرا ر دے دیا جائے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اسے بنیاد بنا کر عید ِمیلاد کا جواز کشید کرنا بھی درست نہیں بلکہ یہ تو 'بناء فاسد علیٰ الفاسد' ہے! اسی طرح بچوں کی سالگرہ منانا غیرمسلموں کی نقالی ہے۔ اسلام میں اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ اور ویسے بھی یہ غیر معقول رسم ہے کہ ایک طرف کل عمر سے ایک سال کم ہورہا ہے اور دوسری طرف اس پر خوشی منائی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں غیر مسلموں کی تہذیب و تمدن اور خاص شعار پر مبنی کسی چیز میں نقالی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ''من تشبّہ بقوم فھو منھم...'' (ابوداؤد:۴۰۳۱) ''جس نے کسی (غیر مسلم) قوم کی نقالی کی وہ انہی میں شمار ہوگا۔''

بدعت ِعیدمیلاد ؛ علماے کرام کی نظر میں

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ
فرماتے ہیں کہ ''لم یفعلہ السلف الصالح مع قیام المقتضی لہ وعدم المانع منہ ولو کان ھذا خیرا محضا أو راجحا لکان السلف أحق بہ منا فانھم کانوا أشد محبۃ لرسول اللہ وتعظیما لہ منا وھم علی الخیر أحرص وإنما کمال محبتہ وتعظیمہ فی متابعتہ وطاعتہ واتباع امرہ وإحیاء سنتہ باطنا وظاھرا ونشرما بعث بہ والجھاد علی ذلک بالقلب والید واللسان فإن ھذہ طریقۃ السابقین الأولین المھاجرین والأنصار والذین اتبعوھم بإحسان'' (اقتضاء الصراط المستقیم: ص۲۹۵) '' سلف صالحین نے محفل میلا دکا انعقاد نہیں کیاحالانکہ اس وقت اس کا تقاضا تھا اور اس کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی ۔ اگر یہ محض خیر و بھلائی ہی کا کام ہوتا یا اس میں خیر کا پہلو راجح ہوتا تو سلف صالحین اسے حاصل کرنے کے لئے ہم سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ ہماری نسبت اللہ کے رسولؐ سے بہت زیادہ محبت اور تعظیم و تکریم کرنے والے اور نیکی کے کاموں میں ہم سے زیادہ رغبت کرنے والے تھے۔ آپؐ سے محبت وتکریم کا معیار یہ ہے کہ آپؐ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے، آپؐ کی سنت کو ظاہری اور باطنی طور پر زندہ کیا جائے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو آگے پھیلایا جائے اور اس مقصد کے لئے دل، ہاتھ اور زبان سے جہاد کیا جائے۔ مہاجرین و انصار جیسے ایمان میں سبقت کرنے والوں اور ان کی اچھے طریقے کے ساتھ پیروی کرنے والوں کا یہی طریقہ تھا۔''

تاج الدین الفاکہانیؒ

شیخ تاج الدین عمر بن علی الفاکہانیؒ رقم طراز ہیں کہ ''بہت سے لوگوں نے بار بار مجھ سے عید میلاد النبی ؐ کے بارے میں پوچھا کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے یا یہ دین میں ایک بدعت ہے؟ تو میں نے کہا کہ کتاب وسنت سے اس میلاد کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی اور علمائے اُمت جو دین میں ایک نمونہ اور سلف کے آثار پرگامزن رہنے والے تھے، ان میں سے بھی کسی سے اس کی مشروعیت منقول نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بدعت ہے جسے باطل پرستوں ، خواہش نفس کے پجاریوں اور پیٹ پرستوں نے گھڑا ہے۔'' (الحاوی للفتاوی: ج۱؍ ص۱۹۰،۱۹۱)

ابن الحاجؒ

ابوعبداللہ محمد بن محمد العبدری المعروف بابن الحاج رقم طراز ہیں کہ ''ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادھم أن ذلک من أکبر العبادات وإظھار الشعائر ما یفعلونہ فی شھر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات'' (المدخل: ج۲ ؍ص۲۲۹) ''لوگوں کی جاری کردہ بدعات میں سے ایک بدعت ربیع الاول میں محفل میلاد کا قیام ہے۔ اس بدعت کو اختیار کرنے والے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ ایک سب سے بڑی عبادت اور شعائر ِاسلامیہ کے اظہار کا عمل ہے۔ حالانکہ یہی بدعت میلاد مزید کئی بدعات و محرمات پر بھی مشتمل ہے۔'' نیز فرماتے ہیں کہ : ''محفل میلاد کے موقع پر اگر سماع و غنا کا بھی انتظام ہو تو یہ ظلمات بعضھا فوق بعض کی طرح ہے۔ اوراگر محفل میلاد سماع و غنا اور دیگر مفاسد سے مبرا ہو اور صرف لوگوں کے لئے میلاد کی نیت سے کھانے کا انتظام ہو تو تب بھی یہ بدعت ہے کیونکہ یہ دین میں اضافہ ہے ۔ سلف صالحین کے ہاں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنا ہی زیادہ بہتر ہے۔''

مجدد الف ِثانیؒ

موصوف اپنے کسی عقیدت مند کو عید ِمیلاد کے حوالہ سے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ
''بہ نظر انصاف ببینند اگر فرضا حضرت ایشاں دریں اوان در دنیا زندہ می بودند و ایں مجلس و اجتماع منعقدمے شد آیا بہ ایں راضی مے شد ند وایں اجتماع رامے پسندیدند یانہ؟ یقین فقیر آں است کہ ہرگز ایں معنی را تجویز نہ فرمودند بلکہ انکار مے نمودند مقصود فقیر اعلام بود قبول کنید یا نہ کنید ہیچ مضائقہ نیست و گنجائش مشاجرہ نہ۔ اگر مخدوم زادگان و یاران آنجاں برہماں وضع مستقیم باشند ما فقیراں را از صحبت ایشاں غیر از حرماں چارہ نیست'' (مکتوب ۲۷۳ ، دفتر اول، حصہ پنجم ص ۲۴، نورکمپنی لاہور) ''انصاف سے دیکھئے اور بتائیے کہ اگر اس زمانے میں خود حضرت (نبی اکرم ﷺ) دنیا میں زندہ ہوتے تو کیا آپؐ اس مجلس میلاد کو پسند فرماتے؟ اور اس سے خوش ہوتے؟ فقیر کو یقین ہے کہ آپؐ ہرگز اس کو جائز نہ سمجھتے بلکہ اس سے منع ہی فرماتے۔ فقیر کا کام تو بس مطلع کرنا ہے۔ لہٰذا آپ اسے قبول کریں یا ردّ، مجھے کوئی پرواہ نہیں اور نہ اس میں لڑائی جھگڑے کی کوئی گنجائش ہے۔ لیکن اگر آپ گذشتہ روش ہی پر رہے اور اسی حالت پر آپ کو اصرار رہا تو فقیر کو سوائے ترکِ ملاقات کے کوئی چارہ نہ ہوگا۔''

شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ

آپ سے سوال کیا گیاکہ ربیع الاوّل کے دنوں میں حضورؐ کی روحِ مبارک کو مختلف انواع کے کھانے کھلانے سے ثواب پہنچانا جائز ہے؟ تو آپ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ''اس کام کیلئے وقت اور دن کا تعین کرنا اور مہینہ خا ص کرنا بدعت ہے اور سنت کے مخالف ہے اور سنت کی مخالفت حرام ہے لہٰذا یہ بالکل جائز نہیں۔''(فتاویٰ عزیزیہ: ص۹۳) نیز ''کسی پیغمبر کی ولادت کے دن کو عید کی طرح منانا جائز نہیں۔'' (تحفۃ اثنا عشریہ)

عبدالسمیع رام پوری (خلیفہ احمدرضا خان بریلویؒ)

موصوف فرماتے ہیں کہ ''یہ سامانِ فرحت و سرود اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوا، یعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔''
(انوارِ ساطعہ: ص۱۵۹)

جشن عیدمیلاد کے نقصانات

۱) دین اسلام میں ایک نئی چیز یعنی بدعت جاری کی گئی۔
۲) نبیﷺ کے یوم وفات کو یوم ولادت سمجھ کر جشن منانے کی رسم شروع کی گئی۔
۳) جشن میلاد نہ منانے والوں پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔
۴) جشن میلاد پرہر سال لاکھوں کروڑوں روپے ضائع کئے جاتے ہیں۔
۵) خانۂ کعبہ اور روضۂ نبویﷺ کے ماڈل بنا کر ان کے طواف کئے جاتے ہیں۔
۶) گلی، کوچوں میں پہاڑیاں بنا کر میلے لگائے جاتے ہیں۔
۷) میلا دکے جلوس میں بھنگڑے ، لڈیاں اور ناچ گانے جیسے بیہودہ کام کئے جاتے ہیں۔
۸) بینڈ باجوں اور اخلاق سوز گانوں کے ساتھ آنحضرتؐ کا یومِ ولادت منایا جاتاہے۔
۹) فلمی گانوں کی دھن و طرز پر نعتیں اور شرکیہ قوالیاں گائی جاتی ہیں۔
۱۰) ملحد و بے دین فنکاروں اور اداکاروں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔
۱۱) جشن میلاد کے نام پر جہالت اور فحاشی کوبھی عروج دیا جاتا ہے۔
۱۲) میلاد کی رات قمقمے روشن کرکے بلا ضرورت لائٹنگ کی جاتی ہے۔

عیدمیلاد منانے والوں سے چند سوالات!

۱) عید میلاد فرض (واجب) ہے، سنت ہے یا مستحب؟
۲) جو جشن میلاد نہیں مناتا، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
۳) اللہ کے رسولؐ، صحابہ کرامؓ، تابعین عظامؒ، ائمہ کرام نے یہ جشن کیوں نہ منایا؟ (ضرورت نہ سمجھی یا کوئی رکاوٹ تھی یاسستی اور لاپرواہی کی یا خلافِ شرع سمجھا یا علم نہ تھا یا ترغیب نہیں دی گئی، یا دل حب ِرسول سے خالی تھا ؟ نعوذ باللہ)
۴) گذشتہ چودہ صدیوں میں صحابہ و تابعین سمیت جن مسلمانوں نے یہ جشن نہیں منایا، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
۵) بارہ ربیع الاول یوم وفات بھی ہے جہاں پیدائش اور وفات (یعنی خوشی اور غم) جمع ہوجائیں، وہاں خوشی کو ترجیح دی جاتی ہے یا غم کو؟
۶) یومِ ولادت کی خوشی منانا ضروری ہے تو یومِ وفات کا رنج و غم منانا کیوں ضروری نہیں؟ جبکہ بقولِ دونوں کی تاریخ بھی ایک ہی ہے؟
۷) اگر آنحضرتؐ کے یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا جائز ہے تو شیعوں کا اہل بیت کے رنج و غم میں ماتم نکالنا کیوں جائز نہیں؟
۸) اللہ کے رسولؐ نے دو عیدیں مقرر فرمائی تھیں مگر یہ تیسری 'عید' کہاں سے آئی؟
۹) اگر یہ عید ہے تو اس دن اللہ کے رسولؐ روزہ کیوں رکھتے تھے؟ عید کے روز تو روزہ رکھنا حرام ہے؟
۱۰) اگر یہ عید ہے تو باقی دو عیدوں کی طرح اس روز نمازِ عید کا اہتمام کیوں نہیں کیاجاتا؟

Nizam e Zakat - Jalaluddin Qasmi (Cd/Dvd Quality)

Nizam e Zakat
نظام زکاۃ
Jalaluddin Qasmi
مختصر بیان: زیر نظر ویڈیو میں زکاۃ کی اہمیت وفضیلت , اسکی فرضیت, اسکے مصارف ومستحقین اور تارکین زکاۃ کے عقاب وسزا کے متعلق نہایت ہی عمدہ بیان پیش کیا گیا ہے.

Fiqh e Hanafi Ki Haqiqat - Yahya Arfi

فقہ حنفی کی حقیقت
Fiqh e Hanafi Ki Haqiqat
(High Quality Video)
Yahya Arfi
Direct Download Part-1
Direct Download Part-2

--------------------------------------------------------------

Download Real Player For play This Video

Guzra Saal Kya Paya Kya Khoya - Abdul Razzaq Sajid

گزارا سال کیا پایا کیا کھویا
Guzra Saal Kya Paya Kya Khoya
(High Quality Video)
Shaikh Abdul Razzaq Sajid


Direct Download

Mobile Ghanti, Aur Umar Farooq r.a. Ka Koda (Pamphlets)

Mobile Ghanti, Aur Umar Farooq r.a. Ka Koda

Pages: 02

Size: 0.2 MB

keep Your Mobile Switched Off (Poster)

Keep Your Mobile Switched Off (Poster)


Kunwarepan Ki Pedaish Ka Moajza (Pamphlets)

Kunwarepan Ki Pedaish Ka Moajza


Pages: 06

Size: 0.2 MB

Friday, 25 February 2011

12 Rabiul Awwal Ghor wa Fikr (Online Books)

بارہ ربیع الاول،غوروفکر

                                                                                   بیگم عطیہ انعام الٰہی
ربیع الاوّل کے بابرکت مہینے میں ہمارے پیارے نبیﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔ مشیتِ الٰہی کے تحت اس دنیا
سے آپﷺ کی واپسی بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ یہ صرف ایک اتفاق ہی نہیں بلکہ ربُ العزّت کی طرف سے ہم مسلمانوں کا ایک خاص قسم کا امتحان بھی ہے۔ اس امتحان کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کی پیدائش کا دن اور آپ کا یومِ رحلت بھی ایک ہی یعنی بارہ ربیع الاوّل ہے۔ ہم اس وقت ایک عجیب قسم کے دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ہم آج کے دن آپ کی پیدائش کی خوشی منائیں یا آپ کی وفات کا دُکھ اور صدمہ!


ایک بارہ ربیع الاوّل وہ تھا جس دن آپﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔بے شک اس موقع پر کئی بابرکت اُمور ظاہر ہوئے مگر کلی طور پر کوئی بھی اس بات کا اِحاطہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ پیدا ہونے والی ہستی کون ہے اور انسانیت کے کس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے والی ہے، کیونکہ مستقبل کا کامل علم اللہ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں۔
پھر درجہ بدرجہ آپﷺ اپنی عمر مبارک کی منازل طے کرتے گئے حتیٰ کہ عمر عزیز کے چالیسویں سال آپ کو مقامِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا اور دنیا میں آپﷺکی تشریف آوری کا اصل مشن آپ کے سپرد کیا گیا۔ یہ مشن تھا بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس کے خالق سے ملانا اور اس کی عبادت اور اِطاعت کے ذریعے اسی کے ساتھ وابستہ کرنا۔
آپ ﷺنے اس مشن کو توفیقِ ایزدی کے ساتھ اس شان سے کمال تک پہنچایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے گواہی دی کہ آپﷺنے اپنا فرض کماحقہ پورا کردیا۔ حج کے انہی ایام میں ،منیٰ میں ہی سورۃ النصر نازل ہوئی تو جہاں یہ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکمیل مشن کی بشارت تھی، وہیں اس میں آپﷺکے لئے اب دنیا سے رخصتی کا اشارہ بھی تھا۔ سمجھ دار صحابہ اس اشارے کو سمجھ گئے تھے اور غمگین اور افسردہ ہوگئے۔ پھر بارہ ربیع الاوّل کا وہ دن بھی آگیا جب آپ اس دنیاے فانی سے تشریف لے گئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون!
اس دن صحابہ کرام کے غم و الم کا کیا عالم تھا۔حضرت عمرجیسے جری او ربہادر صحابی غم کے اس کوہِ گراں کو برداشت نہ کرسکے اور تلوار لے کر کھڑے ہوگئے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمدﷺ فوت ہوگئے ہیں تو اس کی گردن اُڑا دوں گا۔ ابوبکر صدیق نے بڑی ہوش مندی اور تدبر کے ساتھ سب کے سامنے حقیقت بیان کی۔ فرمایا :
''جو شخص محمدﷺ کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلا شبہ محمدﷺ فوت ہوگئے ہیں او رجو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے او رکبھی مرنے والا نہیں۔''
پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 144 تلاوت فرمائی: وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ
''محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے۔اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ (یعنی اسلام چھوڑ دوگے)''
عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: گویا ہم لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہوئی پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود سیدنا عمر کہتے ہیں:
''اللہ کی قسم!مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں نے یہ آیت ابوبکر کے تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی او رجب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اُٹھ رہے تھے۔ زمین پر گر گیا او رجب میں نے ابوبکر کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی ہے۔'' (صحیح بخاری: 4454)
بلالِ حبشی موذّنِ رسولﷺ کو ایسی چپ لگ گئی کہ نبیﷺ کے بعد وہ اذان نہ دے سکے۔ رسو ل اللہﷺ کے وصال کے بعد فقط دو دفعہ اذان دی۔ ایک دفعہ حضرت حسن وحسین کے مجبور کرنے پر اَذان دینا شروع کی مگر أشھد أن مُ مُ محمد تک پڑھا اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔صد حیرت اور افسوس ہے ہم پر کہ بارہ ربیع الاوّل کو ہماری یہ کیفیت کیوں نہیں ہوتی۔ آپﷺ کے یومِ پیدائش کی خوشی میں آپﷺکے یومِ وصال کو ہم قطعاً بھول جاتے ہیں۔ قارئین!اگر ایسا ہو کہ ہمارا کوئی بہت ہی پیارا عزیز اسی تاریخ پرفوت ہوجائے جس تاریخ پر وہ پیدا ہوا تو آپ دل پر ہاتھ رکھ کر انصاف سے بتائیے کہ کیا اس تاریخ کو پیدائش کی خوشیاں منائیں گے یا وفات کا غم !
جس دن نبیﷺپیدا ہوئے، کسی کو کامل ادراک نہیں تھا کہ کیسی ہستی دنیا میں تشریف لائی، لیکن اپنی بے مثال زندگی گزار کر جب آپ 63سال کے بعد وفات پاتے ہیں تو صحابہ کرام اور سارے عرب کو اندازہ تھا کہ کون سی ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہے۔ اسی لئے ان کے غم و اَندوہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے اُن پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔
ہم اگر چند دہائیاں پیچھے کو جائیں تو بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ہمارے ہاں بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا نام دیا جاتاتھا اور اس دن لوگوں کے احساسات و جذبات افسردہ اور اُداس ہوتے تھے۔ اس دن ان کی سرگرمیاں ایسے ہی جذبات کی عکاسی کرتیں۔ نجانے کس روشن خیالی کے تحت ایسی سب سوچوں پر پہرہ لگا دیا گیا او راس کو صرف اور صرف خوشیوں اور مسرتوں کا ایک ایسا موقع سمجھ لیا گیا کہ 'عید'سے کم کسی نام پر اطمینان ہی نہیں۔ حالانکہ ایسی مذہبی ، ملی او راجتماعی خوشیوں کے مواقع مقرر کرنا اللہ اور اس کے رسولﷺکا حق ہے اور ان دو ہستیوں نے ہمارے لئے سال بھر میں دو عیدیں مقرر فرمائیں: عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ۔ عیدین کے فلسفہ پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ دونوں عیدوں کے ساتھ اسلام کے دو بنیادی فرائض وابستہ ہیں:رمضان اور حج،او ران کی ادائیگی کی خوشی اور شکرانے میں اللہ تعالیٰ ہمیں مسرت کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ اللہ کے بندوں نے اللہ کی رضا پانے کے لئے اللہ کے عائد کردہ فرائض بجا لانے میں محنت کی۔ آخرت میں اللہ نے حسن قبولیت کا پروانہ دیا اور دنیا میں اجتماعی ملّی خوشی کا دن مقرر کردیا۔ عیدمیلادالنبیﷺ کے ساتھ ایسا کوئی فریضہ وابستہ نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العزّت کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے ہمیں امام الانبیاء رحمۃ للعالمین محمدﷺ سے نوازا۔اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کریں اور محمد رسول اللہﷺ کی اتباعِ کامل کا عہد و اقرار کریں تو اللہ رب العزّت کی اس نعمتِ عظمی کا کچھ حق ادا ہوسکتا ہے۔
کسی بھی عمل کو بطورِ ایک شرعی فریضے کے ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس دو بنیادیں ہوتی ہیں:قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں اس کے بارے میں شرعی حکم ۔جس کے بارے میں دورِ نبوی اور خلافتِ راشدہ کے دور کے بعد ہمیشہ سے اُمتِ مسلمہ کا اجتماعی عمل بھی ہمارے شوقِ عمل کو مہمیز دیتا ہے۔
عیدمیلادالنبیﷺ کے حوالے سے ہم قرآن و سنت میں غور کریں تو واضح نظر آتا ہے کہ اَحادیث میں ہمیشہ 'عیدین'یعنی دو عیدوں کے احکام اور تفاصیل ہی ملتی ہیں نہ کہ تین عیدوں کی۔رہ گیا اُمت کا تعامل تو سب سے پہلے ان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت کا نمبر ہے ، دوسرے نمبر پر تابعین کا او رپھر تبع تابعین کا۔ نبیﷺ نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا ہے: '' سب سے بہترین میرا زمانہ ہے پھر اس کے ساتھ کا او رپھر اس کے ساتھ کا۔'' (صحیح بخاری:2651)
اگر ہم ان تینوں ادوار کو دیکھیں تو ان پاکیزہ نفوس نے بارہ ربیع الاوّل کےحوالے سے ہمارے لئے کوئی نمونہ قائم نہیں کیا۔ ہمارے لئے ان اَدوار کے صالحین کا عملی نمونہ بن سکتا ہے،کیونکہ انہیں آنحضورﷺ نے بہترین قرار دیا۔پھر بعد کے اَدوار میں دین پر عمل کے حوالے سے لوگوں میں ویسی پابندی اوراہتمام نہ رہا، اس لئے بعد کے لوگوں کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔
نبیﷺ کے یومِ میلاد کے سلسلے میں ایک تاریخی پہلو سے بھی جائزہ لیں۔مسلمانوں میں معروف ہے کہ نبیﷺ 22/اپریل 571ء میں بروز سوموار پیدا ہوئے۔ جبکہ اسلامی مہینے کے لحاظ بارہ ربیع الاوّل عام الفیل کے اگلے سال بروز سوموار صبح کو پیدا ہوئے۔
محققین کی تحقیق کے مطابق 22/اپریل 571ء ، 12 ربیع الاوّل سن1 ہجری عام الفیل میں پیر کا دن نہیں بنتا بلکہ جمعرات کا دن بنتا ہے۔پیر کا دن 9 ربیع الاوّل میں پڑتا ہے۔اس لئےآپﷺکی یوم پیدائش 9 ربیع الاوّل ہے، نہ کہ 12ربیع الاوّل۔ یہ تحقیق سیرتِ نبویﷺ پر عالمی انعام یافتہ کتاب 'الرحیق المختوم'کے مصنف علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری کی ہے۔اُنہوں نے اپنی اس کتاب میں علامہ محمد سلیمان منصورپوری اور محمود پاشا فلکی کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے۔
قارئین!غور فرمائیں اگر منشائے الٰہی یہ ہوتا کہ اُمتِ محمدیہ اپنے نبی محمدﷺ کا یوم پیدائش بطورِ عید منائے تو کم از کم اس کی تاریخ کے بارے میں اختلاف نہ ہوتا۔ دوسری طرف 12 ربیع الاوّل آپﷺ کا یوم رحلت ہونے کے بارے میں اُمت میں کوئی اختلاف نہیں۔ لہٰذا بارہ ربیع الاوّل آپﷺ کا یومِ میلاد ہو یا نہ ہو مگر یہ نبیﷺکا یوم رحلت ضرور ہے۔ مگر ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ اس سنگ دل اُمت نے اپنے نبیﷺ کے یوم رحلت کو'یومِ عید'بنا ڈالا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کے یومِ پیدائش کو بطورِ عید مناتے ہیں تو مسلمانوں نے بھی اُن کی دیکھا دیکھی اپنے نبیﷺکے یومِ پیدائش کو عید بنا ڈالا۔مگر جوشِ نقالی میں وہ یہ بھی غور نہ کرسکے کہ یومِ پیدائش کو عید منا رہے ہیں یا یوم ِوصال کو۔
پھر اس عید کو منانے کے لئے نئے سے نئے انداز اختیار کرلیے۔ پہلے تو صرف جلوس نکلتے تھے۔جس کی قیادت ہاروں سے لدے پھندے کچھ 'پير' کرتے ہیں۔ ساتھ میں کچھ ڈھول بجانے او ربھنگڑا ڈالنے والے بھی ہوتے ہیں۔ پھر آخر میں سب پیٹ بھر کر اعلیٰ کھانا کھاتے ہیں۔نام نبی ﷺکا اور شان اپنی دوبالا کرتے ہیں۔کام و دہن کی لذت خود حاصل کرتے ہیں۔ اُس نبیﷺ کے نام پر جنہوں نے کبھی پیٹ بھر کر اچھا کھانا نہیں کھایا تھا اور کئی کئی دن تک اُن کے ہاں چولہا ہی نہیں جلتا تھا۔
ہر سال اس عید کو منانے میں جدت پیدا کرلی جاتی ہے۔ اس دفعہ کی خبر یہ ہے کہ عیدمیلاد النبیﷺ پر مشعل بردار جلوس نکالا جائے گا۔ یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ یہ مشعلیں خوشی کی علامت ہوں گی یا غم کی؟کیونکہ مغرب میں تو غم کے موقع پر مشعلیں جلا کر خاموشی اختیا رکی جاتی ہے۔ نوائے وقت میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ مدینہ منورہ سے اشیا حاصل کرکے یہاں پاکستان میں تین من کیک تیار کیا جائے گا۔ اگریہ کیک 'برتھ ڈے'کیک ہے تو پھر اس کو 63 من کا ہونا چاہئے، کیونکہ حضورﷺ کی عمر مبارک 63 سال تھی اور اگر یومِ رحلت کے لئے ہے تو خود ہی اپنے عمل کی سنگینی پر غور فرمالیں۔
''یہ اُمت روایات میں کھوگئی!''
یہ بات واضح ہے کہ عوام الناس اپنے آباء اَجداد او رنام نہاد 'مولویوں'کو دیکھتے سنتے ہوئے یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر ان کی غلطی اور کوتاہی یہ ہے کہ دین کے معاملات کو کم اہم سمجھتے ہوئے اُن میں خود سمجھ پیدا نہیں کرتے اور کچھ نہیں تو اُنہیں علمائے حق سے ہی راہنمائی لے لینی چاہئے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ لوگ نبیﷺ سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے ہی یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر ... اظہارِ عقیدت و محبت کے لئے ہمارے سامنےکتاب و سنت او راُسوہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہونا چاہئے نہ کہ مروّجہ رسوم و رواج!
کتاب و سنت اور اُسوہ صحابہ کرامکی روشنی میں حب ِرسولﷺ کے عملی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمارے سامنے واضح احکام اور ہدایات ہیں جن پرپورا اُترنے سے ہی حب رسولﷺ کا کچھ اظہار ہوسکتا ہے۔جس بات سے رسول اللہﷺ منع فرمائیں، ہم رک جائیں او رجس کام کو کرنے کا حکم دیں، پوری رضا و رغبت سے اس پر عمل پیرا ہوں، یہی ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اتباع رسول کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ اطاعت سے آگے بڑھ کر رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر معاملے میں اتباع اور پیروی کو اختیارکیا جائے یعنی آپﷺ کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند اورناپسند بنا لینا۔
آپ سے محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ نبیﷺپرمسنون طریقے سے مسنون الفاظ میں زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔اذان کے بعد آپﷺ کے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا کی جائے ۔اس کے لئے مسنون دعا کو ہی اختیار کیا جائے او راللہ تعالی سے اُمید رکھی جائے کہ وہ روزِ قیامت ہمیں رسول اللہﷺ کی شفاعت نصیب فرمائیں گے۔