Thursday, 30 June 2011
A Glimpse at the Beauty of Islam - English Books
A Glimpse at the Beauty of Islam
Author: Al-Arabi Abu Hamzah | Pages: 104 | Size: 32 MB
Islam has changed the lives of countless millions of people, yet remains unknown or misunderstood to many more millions. It only needs to be presented and understood. This publication is a summary of different facets of Islam which are briefly introduced.
Right click on Download Links and click- "Save Target as" OR "Save Link as"
Bade Bade Gunahon Mein 100 bade Gunah - Online Books
بسم اللہ الرحمن الرحیم
::::: بڑے بڑے گناہوں میں سے 100بڑے گناہ :::::
کبیرہ گناہوں کی تعریف
ہر وہ گناہ جس کو قرآن ، حدیث یا اجماع امت نے کبیرہ گناہ قرار دیا ہو ، یا جس گناہ کو عظیم قرار دیتے ہوئے اس پر سخت سزا سنائی گئی ہو ۔ یا اس پر کوئی حد مقرر کی گئی ہو یا گناہ کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہو یا جنت کے حرام ہونے کا حکم لگایا گیا ہو۔
کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی فضیلت
فرمان الہٰی ہے(ترجمہ) --- اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کروگے تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو معاف کر دیں گے اور تم کوباعزت مقام(جنت) میں داخل کریں گے ۔--- (نساء4/ آیت31)
مزید فرمایا (ترجمہ):--- اچھے کام کرنے والوں کو اچھی جزا دی جائے گی و ہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں سے دور رہتے ہیں اور فحاشی سے اجنتاب کرتے ہیں سوائے لغزشوں کے ۔ بے شک تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے ۔ --- (النجم /آیت۳۱)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :--- پانچ نمازیں، جمعہ جمعہ تک، رمضان سے رمضان تک(یہ تمام اعمال ) صغیرہ گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔--- (مسلم)
ہر وہ گناہ جس کو قرآن ، حدیث یا اجماع امت نے کبیرہ گناہ قرار دیا ہو ، یا جس گناہ کو عظیم قرار دیتے ہوئے اس پر سخت سزا سنائی گئی ہو ۔ یا اس پر کوئی حد مقرر کی گئی ہو یا گناہ کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہو یا جنت کے حرام ہونے کا حکم لگایا گیا ہو۔
کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی فضیلت
فرمان الہٰی ہے(ترجمہ) --- اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کروگے تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو معاف کر دیں گے اور تم کوباعزت مقام(جنت) میں داخل کریں گے ۔--- (نساء4/ آیت31)
مزید فرمایا (ترجمہ):--- اچھے کام کرنے والوں کو اچھی جزا دی جائے گی و ہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں سے دور رہتے ہیں اور فحاشی سے اجنتاب کرتے ہیں سوائے لغزشوں کے ۔ بے شک تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے ۔ --- (النجم /آیت۳۱)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :--- پانچ نمازیں، جمعہ جمعہ تک، رمضان سے رمضان تک(یہ تمام اعمال ) صغیرہ گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔--- (مسلم)
ذیل میں فرامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منقول ہیں۔
۱) شرک باللہ
۲) ترکِ نماز
--- کیا میں تمہیں سب سے بڑے کبیرہ گناہ کی خبر نہ دوں ، وہ ہے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔--- (بخاری)
--- کفر اور بندے کے درمیان فرق نماز کا چھوڑ دینا ہے۔--- (مسلم)
۳) والدین کی نافرمانی
۴) ناحق قتل کرنا
۵) جھوٹی گواہی
کیا میں تمہیں بڑے کبیرہ گناہوں کی خبر نہ دوں؟ وہ ہیں شرک باللہ ، والدین کی نافرمانی، جھوٹی گواہی اور کسی انسان کا قتل کرنا--- (مسلم)
۶) والدین پر لعنت بھیجنا
بے شک کبیرہ گناہوں میں ایک برا گناہ اپنے والدین پر لعنت بھیجنا ہے ۔ آپ علیہ السلام سے پوچھا گیا :--- کوئی اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیجتا ہے؟--- آپ علیہ السلام نے فرمایا :--- ایک شخص کسی دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تووہ جواب میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور اس کی ماں کو برا کہتا ہے۔--- (بخاری، مسلم)
۷ تا ۱۱ )
سات ہلاک خیز گناہ سات بڑے گناہوں سے بچو۔ (۱) شرک (۲) جادوگری (۳) قتل کرنا (۴) سود کھانا (۵) مال یتیم کو ہڑپ کرجانا (۶) میدان جہاد سے فرار ہونا (۷) مومن اور معصوم عورتوں پر تہمت لگانا۔(بخاری، مسلم)
۱۲) ایمان نہ لانا
جنت میں مومن کے علاوہ کوئی نہیں جائے گا۔ (مسلم)
۱۳) پڑوسی کو ایذا دینا
جس شخص کے پڑوسی اس کی برائیوں سے محفوظ نہ ہوں وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم)
۱۴) متکبر
جن کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میںنہیں جائے گا۔(مسلم)
۱۵) چغل خور
--- جنت میں چغل خور نہیں جائے گا۔--- (مسلم)
--- قیامت کے اللہ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا جو دو چہرے والا ہوگا۔ یعنی ایک جگہ ایک بات کرتا ہے تو دوسرے لوگوں کے نزدیک بالکل دوسری بات کرتا ہوگا۔--- (مسلم) منافق بھی اسی کو کہا جاتا ہے۔
۱۶) خود کشی کرنے والا
--- جس شخص نے زہر پی کر خودکشی کرلی، تو قیامت کے دن وہ ہمیشہ جہنم میں زہر پیتا رہے گا۔--- (بخاری، مسلم)
۱۷) رشتوں کو توڑنے والا
--- جنت میں قطع رحمی کرنے والا داخل نہ ہوگا، یعنی رشتوں ناتوں کو توڑنے والا--- (مسلم)
۱۸) حرام رزق کھانا
جنت میں وہ گوشت داخل نہ ہوگا جو حرام رزق سے نشوونما پاتا ہے۔(مسند احمد، ابن حبان)
۱۹ تا ۲۳
--- احسان جتلانے والا، ہمیشہ شراب نوشی کرنے والا، جادو پر یقین رکھنے والا، جادوگر کاہن، اور تقدیر کو جھٹلانے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔--- (احمد)
۲۴) قرض ادا نہ کرنا
قرض خواہ جب فوت ہوجاتاتو آپ علیہ السلام نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے،جب تک اس کا قرض ادا نہ کیا جاتا، اور شہید کے متعلق آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ قرض کے سوا باقی تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے۔(مسلم)
۲۵،۲۶) مردوں کی مشابہت والیاں اور بے غیرت مرد
--- اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں کی طرف نہ نظرِ رحمت سے دیکھے گااور نہ ہی انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ (۱) ماں باپ کا نافرمان،(۲) مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں (۳) بے غیرت مرد
۲۷) بوڑھا زانی
۲۸)جھوٹا حکمران
۲۹)متکبر فقیر
--- اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں کی طرف نہ نظرِ رحمت سے دیکھے گا، نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور نہ ہی ان سے کلام فرمائے گا۔(۱) بوڑھا زانی، (۲) جھوٹا حکمران، (۳)تکبر کرنے والا فقیر(مسلم) مسند بزار میں ہے کہ یہ تینوں افراد جنت میں داخل بھی نہ ہونگے۔
۳۰) غیر مسلم ذمی کو قتل کرنا
جس شخص نے ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گا۔ بے شک جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے۔ ذمی سے غیر مسلم مراد ہے جو مسلمانوں کے ملک میں رہتا ہو۔ (بخاری)
۳۱) اپنی رعایا کودھوکا دینے والا حکمران
کسی شخص کو اللہ تعالیٰ عوام کا نگران بنادے اور اس کی موت کے وقت وہ اپنی عوام کو دھوکا دیتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیتا ہے۔ (بخاری)
۳۲) بد اخلاق
جنت میں متکبر اور بد اخلاق داخل نہ ہوسکے گا۔(ابو داؤد)
۳۳) عوام کو مارنے والا
۳۴) عریاں عورتیں
جہنمیوں کی دو ایسی اقسام ہیں جو میں نے اب تک دنیا میں نہیں دیکھی، ایک وہ لوگ جس کے پاس کوڑے ہونگے اور وہ لوگوں کو بلا وجہ مارا کریں گے، دوسری وہ عورتیں جو لباس پہن کر بھی عریاں رہتی ہونگی، لوگوں کو مائل کرنے والی، خود بھی مائل ہونے والی، ان کے سر کے ایسے بال ہونگے جیسے بختی اونٹنی کے کوہان ۔ یہ جنت میں نہیں جائیں گی ، اس کی خوشبو بھی نہ ملے گی، جب کہ جنت کی خوشبو دور دور تک جاتی ہے۔ (مسلم)
۳۵) پیشاب کے چھینٹے
دو افراد کو قبر میں عذاب ہورہا ہے اور وہ کسی بڑے گناہ میںنہیں بلکہ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے بچتا نہ تھا اور دوسرا بے حد چغل خور تھا۔ (بخاری) یعنی لوگوں میں ان گناہوں کو بڑا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
۳۶)جھوٹی قسم
--- اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے--- (بخاری)
۳۷) جھوٹ بولنا
--- منافق کی تین نشانیوں میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے--- (مسلم)
۳۸)زنا کرنا
فرمانِ الہٰی ہے(ترجمہ)--- زنا کے قریب بھی مت جاؤ ، بے شک یہ برا راستہ اور فحش کام ہے--- (اسراء ۱۶/۳۲)
۳۹) ہم جنس پرستی
فرمانِ الہٰی ہے(ترجمہ)--- تم یہ بڑا فحش(اغلام بازی) کام کرتے ہو۔ جو تم سے پہلے کسی نے نہ کیا--- (اعراف /۸۰)
۴۰)سود خوری
--- سود کھانے والے، کھلانے والے، سود کا حساب کتاب کرنے والا اور سودی کاروبار کے گواہوں پر لعنت ہو ، یہ سب برابر گناہ میں شریک ہیں--- (مسلم)
۴۱) زکوٰۃ ادا نہ کرنا
--- جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں ادا کرتا تو اس شخص کا مال جہنم کا انگارہ ہوگا جس کے ذریعہ اس کی پیشانی، منہ اور کمر کو داغا جائے گا اور قیامت کا ایک دن دنیا کے پچاس ہزار سال کے برابر ہے ۔--- (مسلم۔ احمد)
۴۲)جھوٹا خواب بیان کرنا
--- جس شخص نے جھوٹا خواب بیان کیا تو اس کو قیامت کے دن جو کے دانے دو ٹکڑے کرکے جوڑنے کا حکم دیا جائے گا اور وہ اس کو کبھی نہ جوڑ پائے گا(یعنی اس کو ایسے کام پر مجبور کیا جائے گا جو وہ کر نہیں سکتا نتیجتاً وہ عذاب پائے گا) --- (مسلم)
۴۳)جاسوسی کرنا
--- جس شخص نے کسی قوم کی باتوں کوکان لگاکر سنا اور وہ قوم اس بات کو ناپسند کرتی ہو تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسا ڈالا جائے گا۔--- (مسلم) یعنی گرم سیسے کی دھات سے عذاب دیا گائے گا۔
۴۴)جان داروں کی تصویر کشی کرنا
--- قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مصوّروں کو سخت عذاب دیگا--- (مسلم) یعنی جانداروں کی تصاویر اور مجسمے بنانے والے۔
۴۵ تا ۴۶) حلالہ کرنا اور کرانا
--- اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ --- (ابو داؤد، ترمذی)
۴۷) کسی کا کھانا ضائع کرنا
آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ کسی شخص کا کھانا ضائع کردے (اور وہ بھوکا ہو)(مسلم)
۴۸) رشوت
--- رشوت دینے اور لینے والے پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے--- (ابو داؤد)
۵۰)میت پر نوحہ کرنا
--- دو چیزیں لوگوں میں ایسی ہیں جو کہ کفر ہیں، حسب و نسب میں طعنہ زنی کرنا اور میت پر نوحہ خوانی کرنا --- (مسلم)
۵۱)مسلمانوں سے خروج
--- جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت بھر نکل گیا تو اس نے گویا اسلام کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکا اور جس شخص نے جاہلیت کی دعوت دی تو وہ جہنم کا ایندھن بنے گا اگرچہ وہ نماز و روزہ رکھتا ہو--- (ترمذی)
۵۲) جوا بازی کرنا
فرمان الہٰی ہے(ترجمہ)--- (اے نبی علیہ السلام )یہ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں پوچھتے ہیں بتائیے کہ اس میں بڑا گنا ہے۔--- (بقرہ ۲/آیت۲۱۹)
۵۳)مسلمان کو گالی دینااور قتل کرنا
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور قتل کرنا کفر ہے۔ (بخاری)
۵۴) نبی جھوٹ بولنا
جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کرجھوٹ گھڑا، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(بخاری)
۵۵) چوری
اللہ کی لعنت اس چور پر جو انڈہ چراتا ہے پھر اس کا ہاٹھ کاتا جاتا ہے۔(مسلم)
۵۶)جان دار کو مانا
اللہ کی لعنت اس پر جو جاندار کو نشانہ بناتا ہے۔ (مسلم)
۵۷) بدعتی کو پناہ دینا
اللہ کی لعنت ہے بدعتی کو پناہ دینے والے پر (مسلم)
۵۸) غیر اللہ کے ذبح کرنا
اللہ کی لعنت ہے غیر اللہ کے لئے ذبح کرنے والے پر۔(مسلم)
۵۹ تا ۶۰) کسی غیر کو اپنا باپ یا مالک بنانا
جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا باپ بنانے کا دعویٰ کیااور کسی غلام نے اپنے مالک کو چھور کر دوسرے کو مالک کہا تو اس پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ (بخاری)
۶۱) چہرے کو داغنا
رسول اللہ علیہ السلام نے ایک گدھے کے چہرے کوداغا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ جس نے گرم لوہے سے اس کو داغا ہے اس پر لعنت ہو۔(مسلم)
۶۲) زمین کی حد بندی
جس شخص نے زمین کی حد بندی کو بد لا(ناجائز قبضہ کیا) اس پر اللہ کی لعنت ہو (مسلم)
۶۳غیبت کرنا
فرمان الہٰی ہے (ترجمہ)کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کروگے۔(حجرات /آیت۲۱)
۶۴)شراب کے شراکت دار
رسول اللہ علیہ السلام نے شراب کی وجہ سے 10 افراد پر لعنت فرمائی، شراب بنانے والا، بنوانے والا، پینے والا، اٹھانے والا، منگوانے والا، پلانے والا، بیچنے والا، کمائی کھانے والا ، جس کیلئے خریدی جائے اور خریدنے والا(ترمذی)
۶۵)چہرے پر نقش و نگا ر کرنا
چہرے کی جلد کو گودنے اور نقش و نگار بنانے والیوں پر لعنت ہو۔ (بخاری)
۶۶)بال اکھیڑنا
چہرے کے(بال اکھیڑنے) اور حسن کیلئے دانتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والیوں پر لعنت ہو۔(بخاری)
۶۸) مصنوعی بال لگانا
مصنوعی بال لگانے اور لگوانے والیوں پر لعنت ہو۔ (بخاری)
۶۹) عورتوںکی مشابہت
عورتوں اور مردوں میں سے ایک دوسرے کی مشابہت کرنے والوں پر لعنت ہو۔ (بخاری)
۷۰)قبروں کو سجدہ کرنا
یہود و نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیائo کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیاتھا۔(بخاری)
۷۱)پانی سے انکار
جو شخص کسی مسافر کو پانی پلانے سے انکار کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عذابِ درد ناک دیگا۔ (مسلم)
۷۲)قسم کھانے والا تاجر
جھوٹی قسمیں کھانے والا تاجر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب میں گرفتا رہوگا اور اللہ اسے نظرِ رحمت سے بھی نہ دیکھے گا(مسلم)
۷۳) بیعت توڑنے والا
جو شخص بیعت دنیاداری کیلئے توڑ دے تو قیامت کے دن وہ بھی عذاب سے دو چار ہوگا۔(مسلم)
۷۴) تہبند لٹکانا
تکبر کی بنا پر ازار ، شلوار کو لٹکانا قیامت کے دن عذاب کا موجب ہوگا۔(مسلم)
۷۵)روزہ چھوڑنا
رخصت کے بغیر جان بوجھ کر روزہ چھوڑنا اتنا برا گناہ ہے کہ پھر ساری زندگی کے روزے کفارہ نہیں بن سکتے۔(احمد)
۷۶)راہ زنی کرنا
جس شخص نے ہمارے اوپر اسلحہ اٹھایا پھر وہ ہم میں سے نہ ہوگا۔(بخاری)
۷۷)ارکان اسلام کا ترک کرنا
اسلام کے پانچ ارکان ہیں۔، توحید، نماز ، زکوٰۃ ، حج اور روزہ رکھنا(بخاری) یعنی ان میں سے اگر کسی ایک پر ایمان نہ لایا جائے اور طاقت کے باوجود عمل نہ کیا جائے تو مسلمان نہیں رہے گا۔
۷۸) خیانت
ایک چادر کی خیانت کرنے والے کو میں نے جہنم میں دیکھا۔ (مسلم)
۷۹) غیر فطری تعلق
وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی سے غیر فطری طریقہ سے جماع کرتا ہے ۔(یعنی اس کے مقعد میں جماع کرے)(ابو داود)
۸۰)ظلم
ظلم کرنے سے ڈرو بے شک دنیا میں ظلم کرنا قیامت کے دن اندھیرے کو بڑھاتا ہے(بخاری) یعنی جتنا ظلم دنیا میں کرے گا روز قیامت اتنے اندھیرے میں رہے گا۔
۸۱) لوہے کیساتھ اشارہ کرنا
کسی نے اپنے ساتھی کو لوہے کے ہتھیار سے اشارہ کیا تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ (بخاری)
۸۲)بیت اللہ میں زیادتی کرنا
حرم میں الحاد(ظلم، زیادتی) کرنا اللہ کے نزدیک بدترین ہے۔(بخاری)
۸۳) ملاوٹ
۸۴)ریاکاری
ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں، ریاکاری کرنے والے کو اللہ قیامت کے دن مشہور کردے گا یعنی اس کی رسوائی کی جائے گی۔(مسلم)
۸۵)جادو گر کے پاس جانا
جو شخص جادوگر کے پاس صرف جائے گا تو اللہ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کریگا۔ (مسلم)
۸۶)سونے کے برتن
سونے اور چاندی کے برتن میں کھانے والے کے پیٹ میں جہنم کی آگ ہوگی۔(مسلم)
۸۷)ریشم اور سونا پہننا
سونے اور چاندی اور ریشم کے برتن استعمال کرنا مسلمان مردوں کے لئے ناجائز ہے کافر دنیا میں اور مسلمان آخرت میں استعمال کریں گے۔(بخاری)
۸۸) صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کو گالی دینا
میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی مت دو، انصار صحابہ رضی اللہ عنہم سے منافق بغض کرتا ہے۔ (بخاری)
۸۹)نمازی کے آڑے آنا
نمازی کے آگے سے گذرنے والا ااگر یہ جان لے کہ یہ کتنا بڑا گنا ہے، تو وہ چالیس برس کھڑا رہنا بہتر سمجھتا۔(بخاری)
۹۰)بھگوڑا غلام
مالک سے فرار ہونے والا غلام کفر کرتا ہے حتیٰ کہ وہ واپس لوٹ آئے۔(مسلم)
۹۱) گمراہی کی دعوت
جو گمراہی کی دعوت دے تو عمل کرنے والوں کا گناہ بھی داعی پر ہوگا مزید یہ کہ پیروکاروں کے گناہ میں کمی نہیں آئے گی۔(مسلم)
۹۲) ہم بستری کے راز
اللہ کے نزدیک بدترین وہ میاں بیوی ہیں جو اپنی ازدواجی تعلقات کے رازکو افشاء کریں۔ (مسلم)
۹۳،۹۴)مدینہ میں بدعت اور بدعتی کو پناہ دینا
مدینہ حرمت و عزت والی جگہ ہے جوشخص یہاں بدعت رائج کرے یا بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو (بخاری)
۹۵) مسلمان کا ذمّہ
کسی نے مسلمان کا دیا ہوا ذمّہ(معاہدہ) توڑا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو (بخاری)
۹۶)اللہ پر قسم کھانا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جس شخص نے قسم کھائی کہ میں فلان کو نہیں بخشوں گا تو میں فلاں شخص کو بخش دوں گا اور قسم والے کو پکڑلوں گا۔(مسلم۔حدیث قدسی )
۹۷)جمعہ کی نماز چھوڑنا
لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آجائیں وگرنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا اور ان کو غافل بنادے گا۔(مسلم)
۹۸،۹۹) عورتوں کا کثرت سے لعن طعن کرنا اور شوہر کی نافرمانی کرنا
اے عورتو ! صدقہ کرو بے شک میں نے اکثر اہل جہنم عورتوں کو دیکھا ہے۔ پوچھا کیوں؟ فرمایا تم کثرت سے لعنت کرتی ہے اور شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو۔(بخاری)
۱۰۰) شوہر کی ناراضگی
جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے اور شوہر ناراضگی میں رات گذاردے تو اس عورت پر فرشتوں کی لعنت صبح تک جاری رہتی ہے۔ (بخاری)
Kya Safar ka Mahina Ashubh Hai? - Hindi Islamic Books
Pages: 8
Size: 0.6 MB
Aurton Ka Qabristaan Jane Ke Bayan Mein - Urdu Books
Pages: 21
Size: 0.6 MB
Aima Arba Abu Hanifa, Maalik, Shafai, Aur Ahmad Ka Aqeedah - Urdu Books
Pages: 79
Size: 1.9 MB
Tuesday, 28 June 2011
Isra Aur Meraj - Ibrat wo Nasihat - Maqsud ul hasan Faizi (Cd/Dvd Quality)
One of the greatest lectures on the topic of Isra and Meraj by fazilat ash shaykh Maqsood ul Hasan Faizi hafezhullah where the shaykh describes the event of Meraj and the lessons and the admonitions one should take from this great event.
One will not stop tears where he describes the martyrdom of maid of Firaun's daughter who with her kids were put into hot cauldron.
The main lecture is followed by a Q & A session in which fazilat ash shaykh has answered few questions relating to spread of Islam in sub continent. Shaykh Mushtaq Kareemi hafezhullah (working at IslamHouse dot com in Urdu section) talks briefly about the corruption and the dirtiness of Interest.
A MUST watch lecture.
One will not stop tears where he describes the martyrdom of maid of Firaun's daughter who with her kids were put into hot cauldron.
The main lecture is followed by a Q & A session in which fazilat ash shaykh has answered few questions relating to spread of Islam in sub continent. Shaykh Mushtaq Kareemi hafezhullah (working at IslamHouse dot com in Urdu section) talks briefly about the corruption and the dirtiness of Interest.
A MUST watch lecture.
An excellent educational DVD explaining Shaikh Muhammed ibn Abdul Wahhab's book, "Al-Qawaaid al-Arbaa" - English lectures
Movie Files | Flash Video | MPEG4 |
01. Explaining Tawheed and Shirk (Part A) | 30.0 MB | |
01. Explaining Tawheed and Shirk (Part B) | 24.3 MB | |
02. Is the Muslim Ummah Protected from Shirk | 46.2 MB | |
03 The First Principle | 30.7 MB | |
04. Proof for Differentiating between the types of Tawheed from Scholars before Ibn Taymiyah | 27.7 MB | |
05. The Second Foundation of Shirk | 40.2 MB | |
06. What is Shafa'ah and its Types | 25.9 MB | |
07. Refuting the calim of worldly life for the Mesengers in Barzakh | 27.5 MB | |
08. The Third Foundation of Shirk | 38.0 MB | |
09. Issues concerning which ignorance is not an excuse | 21.9 MB | |
10. The Danger of calling a Muslim to be a Disbeliever | 25.2 MB | |
11. The Ruling concerning 'muslim' movie actors who prostrate to idols in movies | 33.5 MB | |
12. The Fourth Principle (part A) | 38.9 MB | |
12. The Fourth Principle (part B) | 37.5 MB | |
13. Wali and. Karamah | 22.2 MB | |
14. Understanding the Issue of Barakah in light of the Hadeeth of Abu Waaqid al-Laythee | 38.6 MB | |
15. Is the Prophet Aware of his nation after his Death? | 15.4 MB | |
16. Is it Legitimate to make Dua by the Dua of the Prophet after his Death | 12.2 MB | |
17. Understanding Al-Walaa wal-Baraa in light of Lailaha illallah | 28.2 MB | |
18. Understanding the Two Testimonies in Light of Soorah al-Fatihah | 28.4 MB | |
19. Asking Allah's Messenger to make duaa for you after his death is Major Shirk | 14.8 MB | |
20.Distorting the meaning of, "I am only a human like you" | 8.7 MB | |
21. The Blind Man who made Dua by the Dua of the Prophet | 9.0 MB | |
Four.Foundations.of.Shirk.Part1.mp4 | 541.3MB | |
Four.Foundations.of.Shirk.Part2.mp4 | 546.8MB |
The Life Of Isa (Jesus) In Islam - English Books
The Life Of Isa (Jesus) In Islam
Author: Ahmad Jibril | Pages: 26 | Size: 1 MB
Extract from book, 'The life of the Prophet Isa alayhe salam has been a topical issue of late in the media as well as in popular culture. There is a new awareness and heightened curiosity worldwide regarding the amazing life and miracles of Isa alayhe salam. His personality has impacted the three major religions of this world, namely Judaism, Christianity, and Islam. Given the importance of his time on earth, it is critical for mankind to fully understand his pivotal role in shaping history as well as the final days.'
Right click on Download Links and click- "Save Target as" OR "Save Link as"
Khud-Ikhtyari Maut Aur Khudkushi - Online Books
:::::خوداختیاری موت اور خودکشی:::::
چند مستثنیات کے ماسوا ہر بیماری کا علاج بندہ کے اختیار میں ہے
علاج کے بعد بھی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔اس میں اسکی موت ہے اور دوسرا بڑھاپا۔موت کسی کی واقع ہونے والی ہے تو کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہ کرلی جائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ وقتِ معینہ پر آکر رہے گی . اسی طرح بڑھاپے کو بھی کوئی دوا ٹال نہیں سکتی ، کیوں کہ بڑھاپا طاری ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ اب اس کا کام اس دنیا سے ختم ہوگیا اس لیے اسے بڑھاپے کی منزل میں پہنچادیا گیا جس میں وہ کچھ دن مبتلا رہ کراس دنیا سے رخصت ہوجائے گا چنانچہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا : اللہ کے بندو ! علاج کراؤ اس لیے اللہ عزوجل نے موت اور بڑھاپے کے سوا جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے شفا بھی رکھی ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسو ل ﷺنے فرمایا کہ : ہر بیماری کا علاج اللہ نے پیدا کیا ہے مگر بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں۔
کیا انسان نے بعض بیماریوں کے علاج میں کامیابی حاصل کی ہے؟
باوجود اس کے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج اطباء ڈھونڈنے میں اب تک ناکام ہیں ۔ یہ انسانوں کی کم علمی ہے نہ کہ خالق کائنات کا نقص اسی لیے تو قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے کہ تم کائنات کی تخلیق پر غو رکیوں نہیں کرتے ، تم اشیاء کے رموز وحقائق کے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، تم میں اتنا شعورکیوں نہیں کہ تم نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرسکودنیانے دیکھا ہے کہ انسان جن نامعلوم چیزوں کے جاننے کی کوشش برابر کرتارہا اسے ان میں کامیابی مل گئی۔ کینسر جو کسی زمانے میں لاعلاج بیماری تصور کی جاتی تھی آج اس کا علاج تو نہیں البتہ اس کے انسداد کا حل کافی حد تک تلاش کر لیاگیا ہے . سینکڑوںمریض دوا کے سہارے آج زندہ ہیں اگرچہ ان کو جان کا خطرہ لگارہتاہے یہ کیا کم ہے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ نہیں ہوا ہے۔اگر بیماری پہلے یا دوسرے مرحلے میں ہو اور بر وقت اس اسکا علاج شروع کر دیا گیا تو یہ بیماری بھی ختم ہو جاتی ہے۔خود اللہ کے رسول ا کو اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض بیماریوںکا علاج بھی انسان کی دسترس سے باہر ہے ، لہذا آپ نے لوگوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دی . چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا ۔۔:
اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا بھی اتاری ہے ، جاننے والا اسے جانتا ہے ، نہ جاننے والا نہیں جانتا ۔
حالات اور وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہے ، پہلے طب میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج کے زما نے میں ہیں اور آئندہ بھی مزید سہو لہتیں فراہم ہو ں گی (انشاء اللہ ) جو مریض اور طبیب کے لیے تقویت کا باعث ہونگی چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہے کہ۔:رسول ا کا ارشاد ہے’’لکل داء دواء ‘‘ مریض اور طبیب دونوں کے لیی تقویت کا با عث ہے۔اس میں علاج کے تلاش کی ترغیب بھی ہے ،اگر مریض کو یہ محسوس ہو کہ اس کا مرض لا علاج نہیں ہے بلکہ اس کا علاج ممکن ہے تو اس کا دل امید سے بھر جائے گا اور مایوسی ختم ہوجائے گی اس سے وہ اپنے اندر نفسیاتی طور پر مرض پر غالب آنے والی توانائی محسوس کرے گا اسی طرح طبیب کو جب معلوم ہوگا کہ ہر بیماری کی اللہ نے دوا رکھی ہے تو تلاش وجستجو اس کے لیی ممکن ہوگی ۔
عیادت سے مریض کی صحت کو تقویت ملتی ہے
یہیں سے عیا دت کی شرعی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مصیبت اور بیماری میں مبتلاہوتو دوسرے بھائی کو چاہیی کہ وہ اس کی عیادت کے لیی پہنچے اور مریض کو تسلی بخش باتیں سنا کر لوٹے اس سے مریض کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ خیر خواہی مریض کے حق میں اتنی مفید ہوتی ہے کہ کوئی دوا بھی اس کا بدل نہیں ہوتی اور بیمار باتو ں باتوں میں اچھا ہوجاتا ہے اور بستر مرض سے اٹھ کرچلنے پھرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مریض کے حق میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ عیا دت کے لیی جانے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ڈھیر ساری نیکیوں سے نوازتا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ : ’’جو مسلما ن کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں ، اگروہ شام کے وقت اس کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لیی پھل ہوں گے ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’بیشک مسلمان جب اپنے بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہا ں سے واپس ہونے تک وہ جنت کے پھلو ں میں رہتا ہے۔‘‘ عیادت نہ صرف یہ کہ اپنے قریب ترین رشتہ دار کی کی جائے بلکہ اس کے مستحق سارے لوگ ہیں ۔ بچہ، بوڑھا ، جوان ، عورت ، مرد ،پڑوسی ، یہاں تک کہ غیر مسلموں کی بھی کی جانی چاہیی۔اللہ کے رسول ﷺکا اس پر کثرت سے عمل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو تا کید کے ساتھ فرمایا : ’’بھوکے کو کھا نا کھلاؤ ،مریض کی عیادت کرو ، اور قیدی کو چھڑاؤ ۔‘‘
بیما ری سے گناہ کم ہوتے ہیں
تندرستی کے برقرار رہنے کے لیی ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیر ضروری اجزاء اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے ۔ اس کا دوسرا فا ئدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں .کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیا ہے اس کی مدافعت ہو جائے . چنا نچہ اللہ کے رسول ا نے فر ما یا :
’’مسلما نوں کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کا نٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ اگر کسی مؤمن بندے کو یہ اندازہ ہو جائے کہ بیما ری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑا فائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے . جیسا کہ رسول ا نے فرما یا : جو لوگ عافیت میں ہیں ، قیا مت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا ، یہ چاہیں گے کاش ! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھا لوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جا تے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں بیماری کومسلما نوں کے لیی ایک نعمت اور اس کے گنا ہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرما یا گیا : ’’ جس مسلمان کو کا نٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کو ئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتاہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطرنہیں ہو نا چا ہیی بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چا ہیی اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کر نے کے لیی نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے .نیز اس کا علاج یہ بھی کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب و محن نہ ہو تے تو بندے عجب وفرعونیت ،شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہو جاتے،جن سے آدمی دنیا میں اور آخرت میں ہر جگہ تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتا ۔اس لیی یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے .نیز کفر و عدوان اورشرک وغیرہ کے فاسق مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔بس پاک ہے وہ جو ابتلاء کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اور انعاما ت کے ذریعہ ابتلاء میں ڈال دیتی ہے ۔
بیماری میں صبر کی اہمیت
اللہ تبارک وتعالی اپنے جس بندے سے زیادہ محبت کرتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ابتلاء وآزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ اندازہ لگائے کہ میرے بندے کامصیبت میں کیا رویہ رہتا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول انے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کے سا تھ خیر کا ارادہ کر تا ہے تو اسے مصیبت میں ڈال دیتا ہے ۔ اسی طرح کی اور دوسری احادیث بھی ہیں جن سے اسی مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے .ایسی صورت میں مومن کا رویہ یہ ہو نا چاہیی کہ وہ ہر حال میں صبرکرے اور اسے اپنی تکالیف کا مداوا تصور کرے۔ اگر وہ ناشکری اور جزع و فزع کرتا ہے تو وہ اپنی تکلیف میں اضافہ ہی کرتاہے۔ کیونکہ صبرسے تکالیف میں برداشت کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: اے ایمان والو! مددطلب کرو صبر اور نماز کے ذریعہ ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیںانہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے ۔ہم ضرور تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک کے ذریعہ اور مالوں ،جانوں ِاورپھلوں میں کمی کر کے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادو! جن کواگر کوئی مصیبت آتی ہے توکہتے ہیں،ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے ،ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی عنایات اور رحمتیں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں ۔ (البقرۃ) بعض صحابہ کرام بیماری میں مبتلاء ہوتے تودوا علاج ترک کردیتے اور صبر وشکر کو ہی اس کا مداواسمجھتے تھے جس کی اللہ کے رسول ا نے ممانعت کی اور فرمایا کہ صحت کو تندرست رکھنے کے لیی دوا بھی ضروری ہے اور صبر بھی ضروری ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے ،کہ ایک عورت مرگی کی بیماری میں مبتلا تھی جب اس پردورہ پڑتاتو اسے اپنے کپڑوں کی خبر نہ رہتی اور وہ بے ستر ہوجاتی تھی اس نے اللہ کے رسول اسے دعا کی درخواست کی ،آپ انے فرمایاتم چاہو تو دعا کرو اور چاہو تو صبر کرو ، اللہ تعا لی اس کے عوض جنت عطا فرمائے گا ،اس پر اس نے کہا تب تو میں صبر کرونگی البتہ آپ دعا فرمائیی !کہ دورہ کی حالت میں میری بے ستری نہ ہو ،آپ انے اس کے لیی دعا فرمائی۔ اس عالم پریشانی میں جو بندہ صبر کر تا ہے اللہ کے نزدیک اس کا مقام بہت بلند ہو جاتا ہے ،جیساکہ باری تعالی کا فرمان ہے: ’’وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں تنگی ترشی اورتکلیف میں اور جنگ کے وقت ،یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہیں۔‘‘ صبر وشکر کو مؤمن کا خاص وصف قرار دیتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ مؤمن کا معاملہ کتنا اچھا ہے ،کہ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے ،وہ اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے یہ بات مؤمن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ،اگر وہ مسرت سے ہمکنار ہوتو شکر کرتا ہے یہ اس کے لیی بہتر ہوتا ہے اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبرکرتاہے یہ بھی اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے۔‘‘ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں نبیوں اور نیک بندو ںکو بڑی مشکلات ، سخت سے سخت بیماری اور آزمائش میں مبتلا کرکے ان کے صبر کا امتحان لیا ہے ،مگر وہ ہر حال میں صبر کرتے رہے ،جس کے صلہ میں اللہ نے ان کے مرتبے کو بلند فرمایا صبر ایوب سے کون واقف نہیں ہے ، حضرت ایوب علیہ السلام مہلک ترین بیماری میں ایک لمبے عرصے تک مبتلارہے لیکن پھربھی انہوں نے صبرکے علاوہ کوئی لفظ شکوہ اپنی زبان پر کبھی آنے نہیں دیااس بیماری میں انکے تمام قریبی لوگ ساتھ چھوڑگئے مگر انکی بیوی اٹھارہ سال تک خدمت کرتی رہیںانکی تکلیف کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات انکی بیوی بھی کرب والم میں مبتلا ہوجاتی تھی ایک باربجذبہ ہمدردی انکی بیوی نے کچھ ایسے الفاظ کہے جو صبر ایو ب کے منافی تھے اور خداکی جناب میں شکوہ کا پہلو لیی ہوئے تھے اس پر وہ اپنی مونس و غم خوار بیوی سے ناراض ہوگئے اور کہا کہ تم نے کفران نعمت کی ہے اسکی سزا میں تم کو ضرور دونگا اس صبر کے صلہ میں اللہ نے انکے درجات بلندکئے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے۔
اور یاد کرو جب ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے تو ارحم الرا حمین ہے،ہم نے اس کی پکار سنی اور اسے جو تکلیف تھی وہ دور کردی ۔ہم نے اسے اس کو اہل وعیال دئیی اور اس کے صبر کے ذریعہ نہ صرف دنیوی و اخروی درجات بلند ہوتے ہیں بلکہ اس سے مریض کی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں کیونکہ جو آڈمی بیماری کی حالت میں صبر کرے گا اسے اپنی تکلیف کا بوجہ ہلکا معلوم ہوگا اور اس کی امیدیں اور نیک خواہشات برآئیں گی چنانچہ مرض چھوٹا ہو یا بڑا، قابل علاج ہو یا لا علاج ہر حال میں اسلام نے صبر کی تعلیم دی ہے ۔جو لوگ مذہبی اقدار کی اہمیت نہیں محسوس کرتے ان کے نزدیک یہ ایک بے معنی نصیحت ہے۔ اس سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور وہ ممکنہ تدابیر بھی اختیار نہیں کرتا ، لیکن یہ صبر کا غلط تصور ہے۔ صبر اس بات کا نام ہے کہ آدمی مشکلات میں جزع ، فزع اور گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کرے ،شکوہ شکایت کی جگہ جم کر ان کا مقابلہ کرے جو تدبیریں اس کے بس میں ہوں ان کو پورے سکون کے ساتھ اختیار کرے اور نتیجہ اللہ کے حولے کردے ، اس سے انسان کی قوت ارادی (will power) مضبوط ہوتی ہے اور آدمی کے اندر خود اعتمادی اور خدا اعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔ مریض کے اندر مضبوط قوت ارادی ہو تو وہ مرض کا بڑی ہمت اور پامردی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مریضوں کی قوت ارادی مستحکم ہوتی ہے وہ مایوس اور بے صبر مریضوں کے مقابکہ میں لمبی زندگی پاتے ہیں ۔
موت کی دعا نہیں کرنی چاہیئے
ہر انسان کسی نہ کسی طرح بیماری میں مبتلاہے بعض بیماری قابل علاج ہوتی ہے تو کوئی لا علاج اور زندگی بھر وہ کرب و الم کی دنیا میں زندہ رہتا ہے ، ایسی حالت میں وہ چا ہتا ہے کہ اس لا علاج بیماری اور تکلیف بھری دنیا سے کسی طرح نجات پالے جس کے لیی وہ بعض وقت دعا کرتا ہے کہ اللہ مجھ کو اس تکلیف دہ زندگی سے نکال کر موت دے دے ، جو درست نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندو ں پربیماری اسی لیی طاری کرتا ہے کہ اس کے اندر قوت برداشت کا داعیہ پیدا ہو ، اللہ کے رسول ا نے ایسی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔: تم میں سے کسی شخص کوکوئی تکلیف پہنچے تووہ موت کی تمنا نہ کرے ،اگر کسی وجہ سے بالکل ضروری ہوجائے تو اس طرح کہے: اے اللہ ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندہ رہنا میرے حق میں بہتر ہو اور جب موت میرے حق میں بہترہے تو موت دے دے،مصائب ومشکلات اور بیماری تو وقتی چیز ہے ،یہ کبھی جلد رفع ہو جاتی ہے اور کبھی وقت لگتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اسکا مقابلہ نہ کرے ،اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عیادت کے لیی پیدا کیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ بزدلی ہے اور مومن کے شان کے خلاف اور کفر ان نعمت ہے۔ اندازہ لگائیی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بعض بیماری کا بہتر علاج گرم لوہے سےداغےجانے کا تھا ۔ جس کی تکلیف سے آدمی کی ہڈی چرمر ا جاتی تھی باوجود اس تکلیف کے وہ زندہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔بعض روایات میں آتاہے کہ حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ کو بطور علاج گرم لوہے سے سات داغ لگائے گئے ، اس سے انہیں سخت تکلیف ہو ئی با وجود اس کے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ورنہ تکلیف اتنی سخت ہے کہ میں اللہ سے موت کی دعا کرتا ۔
یہ تو صحابہ کا عمل تھا ،خود اللہ کے رسول ﷺ کو لوہے سے داغےجانے کی تکلیف کا اندازہ تھا ۔باوجود اس کے آپ نے حفظان صحت کے تحت اسکی اجازت دی کہ تم اس طریقہ پر عمل کرکے اپنا علاج کراؤ ،جیساکہ اللہ کے رسول ا نے فرمایا :
شفا تین چیزوں میں ہے ، شہد کا گھونٹ پینے ، پچھنے کا نشان اور آگ سے داغ لگانے میں ۔میںاپنی امت کو داغ لگانے سے منع کرتا ہوں۔کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت ہوگی یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اسی اللہ کوہے ،انسان کے بس میں اگر یہ چیزہوتی تو دنیا کا نظام درھم برھم ہوکر رہ جاتا ،انسان کادنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقی درجات کا باعث ہے ، اسی لیی اللہ کے رسول انے منع فرمایا کہ موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیی اس لیی کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے ۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کاایک خوبصورت عطیہ ہے جسے اس کی رضا کے حصول اورمرضی کے مطابق ہی استعمال کیا جائے تاکہ اس کی نافرمانی میں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ پر امید رہتا ہے کیونکہ مایوسی کفر ہے
علاج کے بعد بھی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔اس میں اسکی موت ہے اور دوسرا بڑھاپا۔موت کسی کی واقع ہونے والی ہے تو کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہ کرلی جائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ وقتِ معینہ پر آکر رہے گی . اسی طرح بڑھاپے کو بھی کوئی دوا ٹال نہیں سکتی ، کیوں کہ بڑھاپا طاری ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ اب اس کا کام اس دنیا سے ختم ہوگیا اس لیے اسے بڑھاپے کی منزل میں پہنچادیا گیا جس میں وہ کچھ دن مبتلا رہ کراس دنیا سے رخصت ہوجائے گا چنانچہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا : اللہ کے بندو ! علاج کراؤ اس لیے اللہ عزوجل نے موت اور بڑھاپے کے سوا جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے شفا بھی رکھی ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسو ل ﷺنے فرمایا کہ : ہر بیماری کا علاج اللہ نے پیدا کیا ہے مگر بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں۔
کیا انسان نے بعض بیماریوں کے علاج میں کامیابی حاصل کی ہے؟
باوجود اس کے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج اطباء ڈھونڈنے میں اب تک ناکام ہیں ۔ یہ انسانوں کی کم علمی ہے نہ کہ خالق کائنات کا نقص اسی لیے تو قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے کہ تم کائنات کی تخلیق پر غو رکیوں نہیں کرتے ، تم اشیاء کے رموز وحقائق کے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، تم میں اتنا شعورکیوں نہیں کہ تم نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرسکودنیانے دیکھا ہے کہ انسان جن نامعلوم چیزوں کے جاننے کی کوشش برابر کرتارہا اسے ان میں کامیابی مل گئی۔ کینسر جو کسی زمانے میں لاعلاج بیماری تصور کی جاتی تھی آج اس کا علاج تو نہیں البتہ اس کے انسداد کا حل کافی حد تک تلاش کر لیاگیا ہے . سینکڑوںمریض دوا کے سہارے آج زندہ ہیں اگرچہ ان کو جان کا خطرہ لگارہتاہے یہ کیا کم ہے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ نہیں ہوا ہے۔اگر بیماری پہلے یا دوسرے مرحلے میں ہو اور بر وقت اس اسکا علاج شروع کر دیا گیا تو یہ بیماری بھی ختم ہو جاتی ہے۔خود اللہ کے رسول ا کو اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض بیماریوںکا علاج بھی انسان کی دسترس سے باہر ہے ، لہذا آپ نے لوگوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دی . چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا ۔۔:
اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا بھی اتاری ہے ، جاننے والا اسے جانتا ہے ، نہ جاننے والا نہیں جانتا ۔
حالات اور وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہے ، پہلے طب میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج کے زما نے میں ہیں اور آئندہ بھی مزید سہو لہتیں فراہم ہو ں گی (انشاء اللہ ) جو مریض اور طبیب کے لیے تقویت کا باعث ہونگی چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہے کہ۔:رسول ا کا ارشاد ہے’’لکل داء دواء ‘‘ مریض اور طبیب دونوں کے لیی تقویت کا با عث ہے۔اس میں علاج کے تلاش کی ترغیب بھی ہے ،اگر مریض کو یہ محسوس ہو کہ اس کا مرض لا علاج نہیں ہے بلکہ اس کا علاج ممکن ہے تو اس کا دل امید سے بھر جائے گا اور مایوسی ختم ہوجائے گی اس سے وہ اپنے اندر نفسیاتی طور پر مرض پر غالب آنے والی توانائی محسوس کرے گا اسی طرح طبیب کو جب معلوم ہوگا کہ ہر بیماری کی اللہ نے دوا رکھی ہے تو تلاش وجستجو اس کے لیی ممکن ہوگی ۔
عیادت سے مریض کی صحت کو تقویت ملتی ہے
یہیں سے عیا دت کی شرعی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مصیبت اور بیماری میں مبتلاہوتو دوسرے بھائی کو چاہیی کہ وہ اس کی عیادت کے لیی پہنچے اور مریض کو تسلی بخش باتیں سنا کر لوٹے اس سے مریض کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ خیر خواہی مریض کے حق میں اتنی مفید ہوتی ہے کہ کوئی دوا بھی اس کا بدل نہیں ہوتی اور بیمار باتو ں باتوں میں اچھا ہوجاتا ہے اور بستر مرض سے اٹھ کرچلنے پھرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مریض کے حق میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ عیا دت کے لیی جانے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ڈھیر ساری نیکیوں سے نوازتا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ : ’’جو مسلما ن کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں ، اگروہ شام کے وقت اس کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لیی پھل ہوں گے ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’بیشک مسلمان جب اپنے بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہا ں سے واپس ہونے تک وہ جنت کے پھلو ں میں رہتا ہے۔‘‘ عیادت نہ صرف یہ کہ اپنے قریب ترین رشتہ دار کی کی جائے بلکہ اس کے مستحق سارے لوگ ہیں ۔ بچہ، بوڑھا ، جوان ، عورت ، مرد ،پڑوسی ، یہاں تک کہ غیر مسلموں کی بھی کی جانی چاہیی۔اللہ کے رسول ﷺکا اس پر کثرت سے عمل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو تا کید کے ساتھ فرمایا : ’’بھوکے کو کھا نا کھلاؤ ،مریض کی عیادت کرو ، اور قیدی کو چھڑاؤ ۔‘‘
بیما ری سے گناہ کم ہوتے ہیں
تندرستی کے برقرار رہنے کے لیی ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیر ضروری اجزاء اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے ۔ اس کا دوسرا فا ئدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں .کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیا ہے اس کی مدافعت ہو جائے . چنا نچہ اللہ کے رسول ا نے فر ما یا :
’’مسلما نوں کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کا نٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ اگر کسی مؤمن بندے کو یہ اندازہ ہو جائے کہ بیما ری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑا فائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے . جیسا کہ رسول ا نے فرما یا : جو لوگ عافیت میں ہیں ، قیا مت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا ، یہ چاہیں گے کاش ! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھا لوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جا تے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں بیماری کومسلما نوں کے لیی ایک نعمت اور اس کے گنا ہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرما یا گیا : ’’ جس مسلمان کو کا نٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کو ئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتاہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطرنہیں ہو نا چا ہیی بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چا ہیی اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کر نے کے لیی نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے .نیز اس کا علاج یہ بھی کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب و محن نہ ہو تے تو بندے عجب وفرعونیت ،شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہو جاتے،جن سے آدمی دنیا میں اور آخرت میں ہر جگہ تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتا ۔اس لیی یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے .نیز کفر و عدوان اورشرک وغیرہ کے فاسق مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔بس پاک ہے وہ جو ابتلاء کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اور انعاما ت کے ذریعہ ابتلاء میں ڈال دیتی ہے ۔
بیماری میں صبر کی اہمیت
اللہ تبارک وتعالی اپنے جس بندے سے زیادہ محبت کرتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ابتلاء وآزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ اندازہ لگائے کہ میرے بندے کامصیبت میں کیا رویہ رہتا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول انے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کے سا تھ خیر کا ارادہ کر تا ہے تو اسے مصیبت میں ڈال دیتا ہے ۔ اسی طرح کی اور دوسری احادیث بھی ہیں جن سے اسی مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے .ایسی صورت میں مومن کا رویہ یہ ہو نا چاہیی کہ وہ ہر حال میں صبرکرے اور اسے اپنی تکالیف کا مداوا تصور کرے۔ اگر وہ ناشکری اور جزع و فزع کرتا ہے تو وہ اپنی تکلیف میں اضافہ ہی کرتاہے۔ کیونکہ صبرسے تکالیف میں برداشت کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: اے ایمان والو! مددطلب کرو صبر اور نماز کے ذریعہ ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیںانہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے ۔ہم ضرور تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک کے ذریعہ اور مالوں ،جانوں ِاورپھلوں میں کمی کر کے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادو! جن کواگر کوئی مصیبت آتی ہے توکہتے ہیں،ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے ،ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی عنایات اور رحمتیں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں ۔ (البقرۃ) بعض صحابہ کرام بیماری میں مبتلاء ہوتے تودوا علاج ترک کردیتے اور صبر وشکر کو ہی اس کا مداواسمجھتے تھے جس کی اللہ کے رسول ا نے ممانعت کی اور فرمایا کہ صحت کو تندرست رکھنے کے لیی دوا بھی ضروری ہے اور صبر بھی ضروری ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے ،کہ ایک عورت مرگی کی بیماری میں مبتلا تھی جب اس پردورہ پڑتاتو اسے اپنے کپڑوں کی خبر نہ رہتی اور وہ بے ستر ہوجاتی تھی اس نے اللہ کے رسول اسے دعا کی درخواست کی ،آپ انے فرمایاتم چاہو تو دعا کرو اور چاہو تو صبر کرو ، اللہ تعا لی اس کے عوض جنت عطا فرمائے گا ،اس پر اس نے کہا تب تو میں صبر کرونگی البتہ آپ دعا فرمائیی !کہ دورہ کی حالت میں میری بے ستری نہ ہو ،آپ انے اس کے لیی دعا فرمائی۔ اس عالم پریشانی میں جو بندہ صبر کر تا ہے اللہ کے نزدیک اس کا مقام بہت بلند ہو جاتا ہے ،جیساکہ باری تعالی کا فرمان ہے: ’’وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں تنگی ترشی اورتکلیف میں اور جنگ کے وقت ،یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہیں۔‘‘ صبر وشکر کو مؤمن کا خاص وصف قرار دیتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ مؤمن کا معاملہ کتنا اچھا ہے ،کہ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے ،وہ اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے یہ بات مؤمن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ،اگر وہ مسرت سے ہمکنار ہوتو شکر کرتا ہے یہ اس کے لیی بہتر ہوتا ہے اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبرکرتاہے یہ بھی اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے۔‘‘ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں نبیوں اور نیک بندو ںکو بڑی مشکلات ، سخت سے سخت بیماری اور آزمائش میں مبتلا کرکے ان کے صبر کا امتحان لیا ہے ،مگر وہ ہر حال میں صبر کرتے رہے ،جس کے صلہ میں اللہ نے ان کے مرتبے کو بلند فرمایا صبر ایوب سے کون واقف نہیں ہے ، حضرت ایوب علیہ السلام مہلک ترین بیماری میں ایک لمبے عرصے تک مبتلارہے لیکن پھربھی انہوں نے صبرکے علاوہ کوئی لفظ شکوہ اپنی زبان پر کبھی آنے نہیں دیااس بیماری میں انکے تمام قریبی لوگ ساتھ چھوڑگئے مگر انکی بیوی اٹھارہ سال تک خدمت کرتی رہیںانکی تکلیف کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات انکی بیوی بھی کرب والم میں مبتلا ہوجاتی تھی ایک باربجذبہ ہمدردی انکی بیوی نے کچھ ایسے الفاظ کہے جو صبر ایو ب کے منافی تھے اور خداکی جناب میں شکوہ کا پہلو لیی ہوئے تھے اس پر وہ اپنی مونس و غم خوار بیوی سے ناراض ہوگئے اور کہا کہ تم نے کفران نعمت کی ہے اسکی سزا میں تم کو ضرور دونگا اس صبر کے صلہ میں اللہ نے انکے درجات بلندکئے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے۔
اور یاد کرو جب ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے تو ارحم الرا حمین ہے،ہم نے اس کی پکار سنی اور اسے جو تکلیف تھی وہ دور کردی ۔ہم نے اسے اس کو اہل وعیال دئیی اور اس کے صبر کے ذریعہ نہ صرف دنیوی و اخروی درجات بلند ہوتے ہیں بلکہ اس سے مریض کی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں کیونکہ جو آڈمی بیماری کی حالت میں صبر کرے گا اسے اپنی تکلیف کا بوجہ ہلکا معلوم ہوگا اور اس کی امیدیں اور نیک خواہشات برآئیں گی چنانچہ مرض چھوٹا ہو یا بڑا، قابل علاج ہو یا لا علاج ہر حال میں اسلام نے صبر کی تعلیم دی ہے ۔جو لوگ مذہبی اقدار کی اہمیت نہیں محسوس کرتے ان کے نزدیک یہ ایک بے معنی نصیحت ہے۔ اس سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور وہ ممکنہ تدابیر بھی اختیار نہیں کرتا ، لیکن یہ صبر کا غلط تصور ہے۔ صبر اس بات کا نام ہے کہ آدمی مشکلات میں جزع ، فزع اور گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کرے ،شکوہ شکایت کی جگہ جم کر ان کا مقابلہ کرے جو تدبیریں اس کے بس میں ہوں ان کو پورے سکون کے ساتھ اختیار کرے اور نتیجہ اللہ کے حولے کردے ، اس سے انسان کی قوت ارادی (will power) مضبوط ہوتی ہے اور آدمی کے اندر خود اعتمادی اور خدا اعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔ مریض کے اندر مضبوط قوت ارادی ہو تو وہ مرض کا بڑی ہمت اور پامردی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مریضوں کی قوت ارادی مستحکم ہوتی ہے وہ مایوس اور بے صبر مریضوں کے مقابکہ میں لمبی زندگی پاتے ہیں ۔
موت کی دعا نہیں کرنی چاہیئے
ہر انسان کسی نہ کسی طرح بیماری میں مبتلاہے بعض بیماری قابل علاج ہوتی ہے تو کوئی لا علاج اور زندگی بھر وہ کرب و الم کی دنیا میں زندہ رہتا ہے ، ایسی حالت میں وہ چا ہتا ہے کہ اس لا علاج بیماری اور تکلیف بھری دنیا سے کسی طرح نجات پالے جس کے لیی وہ بعض وقت دعا کرتا ہے کہ اللہ مجھ کو اس تکلیف دہ زندگی سے نکال کر موت دے دے ، جو درست نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندو ں پربیماری اسی لیی طاری کرتا ہے کہ اس کے اندر قوت برداشت کا داعیہ پیدا ہو ، اللہ کے رسول ا نے ایسی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔: تم میں سے کسی شخص کوکوئی تکلیف پہنچے تووہ موت کی تمنا نہ کرے ،اگر کسی وجہ سے بالکل ضروری ہوجائے تو اس طرح کہے: اے اللہ ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندہ رہنا میرے حق میں بہتر ہو اور جب موت میرے حق میں بہترہے تو موت دے دے،مصائب ومشکلات اور بیماری تو وقتی چیز ہے ،یہ کبھی جلد رفع ہو جاتی ہے اور کبھی وقت لگتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اسکا مقابلہ نہ کرے ،اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عیادت کے لیی پیدا کیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ بزدلی ہے اور مومن کے شان کے خلاف اور کفر ان نعمت ہے۔ اندازہ لگائیی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بعض بیماری کا بہتر علاج گرم لوہے سےداغےجانے کا تھا ۔ جس کی تکلیف سے آدمی کی ہڈی چرمر ا جاتی تھی باوجود اس تکلیف کے وہ زندہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔بعض روایات میں آتاہے کہ حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ کو بطور علاج گرم لوہے سے سات داغ لگائے گئے ، اس سے انہیں سخت تکلیف ہو ئی با وجود اس کے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ورنہ تکلیف اتنی سخت ہے کہ میں اللہ سے موت کی دعا کرتا ۔
یہ تو صحابہ کا عمل تھا ،خود اللہ کے رسول ﷺ کو لوہے سے داغےجانے کی تکلیف کا اندازہ تھا ۔باوجود اس کے آپ نے حفظان صحت کے تحت اسکی اجازت دی کہ تم اس طریقہ پر عمل کرکے اپنا علاج کراؤ ،جیساکہ اللہ کے رسول ا نے فرمایا :
شفا تین چیزوں میں ہے ، شہد کا گھونٹ پینے ، پچھنے کا نشان اور آگ سے داغ لگانے میں ۔میںاپنی امت کو داغ لگانے سے منع کرتا ہوں۔کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت ہوگی یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اسی اللہ کوہے ،انسان کے بس میں اگر یہ چیزہوتی تو دنیا کا نظام درھم برھم ہوکر رہ جاتا ،انسان کادنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقی درجات کا باعث ہے ، اسی لیی اللہ کے رسول انے منع فرمایا کہ موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیی اس لیی کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے ۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کاایک خوبصورت عطیہ ہے جسے اس کی رضا کے حصول اورمرضی کے مطابق ہی استعمال کیا جائے تاکہ اس کی نافرمانی میں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ پر امید رہتا ہے کیونکہ مایوسی کفر ہے
Sachcha Dharm kya Hai? - Hindi Islamic Books
Pages: 85
Size: 1.9 MB
Monday, 27 June 2011
Promised Prophet of the Bible - English Books
Promised Prophet of the Bible
Author: Munqidh Bin Mahmoud Assaqqar | Pages: 136 | Size: 1 MB
Extract from book, ' There is no doubt that the prophet-hood of our prophet Muhammad (saw) is one of two important tasks that the Muslim is carrying to humanity. Muslims believe that to prove the prophet-hood of Muhammad (saw) is one of many essential tasks in their religion; therefore, it is a compulsory duty for Muslims to present this evidence and proof.
Right click on Download Links and click- "Save Target as" OR "Save Link as"
Muhabbat e rasool s.a.w. ke Taqaze - Online Books
محبت رسولﷺ کے تقاضے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَأَزْوَاجُہُ أُمَّہَاتُہُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللَّہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَی أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا کَانَ ذَلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُورًا (الاحزاب:۶) نبی ﷺ مومنوں پر ان کی ذات سے زیادہ حق رکھتا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور رشتہ دار اللہ کی کتاب کے مطابق ایک دوسرے کیلئے مومنوں اور مہاجروں سے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں کیلئے پسندیدہ طور پر کچھ کرو ۔ یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔
اسلام اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑ ا انسان بھی اس محبت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ البقرۃ:۱۶۵
کچھ لوگوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جن کے ساتھ وہ ایسی محبت کرتے ہیں جو کہ اللہ کے ساتھ کرنی چاہیے ۔ایمان والوں کی محبت تو اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس سے بڑ ھ کر کسی کے ساتھ بھی ایمان والوں کی محبت نہیں ہوتی ۔اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ کی محبت ہے وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف اللہ کے رسول ﷺ ہوں اور دوسری طرف کائنات کی کوئی بھی چیز ہو ، جب تک انسان رسول اللہ ﷺ کی محبت پر کسی دوسرے کو ترجیح دیتا ہے ، وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں ہوا جتنی اس محبت میں کمی ہو گی اتنی ہی ایمان میں کمی ہو گی چنانچہ رسول معظم ﷺ فرماتے ہیں : وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہِ لاَ یُومِنُ اَحَدُکُم حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ إِلَیہِ مِن وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجمَعِینَ ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ جب تک میں تم میں سے اپنے بیٹے اور والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک کوئی شخص صاحب ایمان اور مسلمان نہیں ہو سکتا۔
اللہ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے ہماری خواہشیں ، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اللہ تعالیٰ سے بڑ ھ کر کوئی نہیں جانتا۔ اللہ نے فرمایا :
﴿قُلْ إِنْ کَانَ آَبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ﴾(التوبہ:۲۴)
کہہ دیجئے اگر تمہیں اپنے والدین اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور رشتہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس میں گھاٹے سے ڈرتے ہو اور تمہارے مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو ، تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ انہیں رستہ دکھاتے ہی نہیں لہذا ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سب سے بڑ ھ کر محبت ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس شخص میں آ جاتی ہیں ، وہ ایمان کی لذت پالیتا ہے اور ایمان کا ذائقہ چکھ لیتا ہے ان میں پہلی چیز اللہ اور اس کے حبیب ﷺ محبت رکھتا ہے
اس حدیث کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے :
شہد میٹھا ہے لیکن جو شخص بیمار ہوجاتا ہے جب وہ شہد کو منہ میں ڈالتا ہے تو اسے کڑ وا محسوس ہوتا ہے حالانکہ شہد کڑ وا نہیں بلکہ بیمار کے منہ کا ذائقہ خراب ہے اور اس کامزاج بگڑ چکا ہے ۔ بیماری کی وجہ سے اس کا احساس درست نہیں رہا ۔شہد میٹھا اسے ہی محسوس ہو گا جو تندرست ہو گا بیمارکو تو شہد کڑ وا ہی محسوس ہو گا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا بڑ ی ہی عزیز چیز ہے ۔
خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر میں قریش کا ایک سردار قتل کرڈالا اس کے بعد ایک اور موقعہ پر وہ ایک جنگی مہم میں شامل ہوے تو اس میں گرفتار ہوگئے ۔ جس آدمی کو قتل کیا تھا ، اس کے وارثوں نے انہیں خرید لیا اور اعلان کر دیا کہ ہم انہیں قتل کر کے اپنا بدلہ لیں گے ایک دن مقرر ہو گیا کہ فلاں دن خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھایا جائے گا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ، وہ یہ کہ پھانسی اور چیز ہے سولی اور چیز ہے ۔ پھانسی یہ ہے کہ گلے میں ایک رسی ڈال کر نیچے تختہ رکھا جاتا ہے ۔ اس کے نیچے ایک گڑ ھا ہوتا ہے وہ تختہ ہٹالیا جاتا ہے تو وہ شخص پھندے کے ساتھ جھولتارہتا ہے اس کا گلا گھٹتا ہے اور یوں وہ مرجاتا ہے لمحے کی بات ہوتی ہے یا چند لمحوں کی مگر سولی والی موت بہت المناک سزا ہوتی ہے سولی کے لیے ایک اونچا لمبا کھمبا گاڑ دیا جاتا ہے ۔ اس کے اوپر ایک آڑ ی ترچھی لکڑ ی رکھی جاتی ہے جیسے صلیب ہوتی ہے پھر جس شخص کو سولی دینا ہوتی ہے ، اس کے جسم کو سیدھی لکڑ ی کے ساتھ اور ہاتھ ترچھی لکڑ ی کے ساتھ باندھ دیئے جاتے ہیں پھر اس کو نیزوں اور تلواروں کے کچو کے دے دے کر مارا جاتا ہے یا بعض کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ دھوپ میں پڑ ا رہے اور پرندے اور درندے اسے آ کر نوچتے رہتے ہیں یہ بڑ ی ہی خوفناک سزا ہے ۔
اب خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھا دیا گیا انہیں ایک ظالم کافر نے نیزے سے کچو کہ مارا اور کہنے لگا ، آج تو پسند کرتا ہو گا کہ تیری جگہ محمد ﷺ ہوتے اور تو ان کے بدلہ میں چھوڑ دیا جاتا تیرا کیا خیال ہے ؟ وہ کہنے لگے ، میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد ﷺ کو کانٹا بھی چبھے اور میری جان بچ جائے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اتنا کسی اور کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتو پھر سمجھ لو کہ اس کے ایمان میں کمی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان کا ذائقہ وہ شخص چکھتا ہے جس میں تین چیزیں ہوں : پہلی چیز یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے محبت رکھے تو صرف اللہ کے لیے محبت رکھے ، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس سے مسلمان محبت رکھے اللہ کی خاطر رکھے ۔ جوشخص دنیا کی طمع رکھتا ہے ، وہ ایمان کی لذت سے کسی صورت آشنا نہیں ہو سکتا۔ ایسا آدمی طامع اور لالچی ہے جہاں لالچ نظر آتا ہے اس طرف بڑ ھ جاتا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور ایمان سے اس کا کیا واسطہ؟ اس قسم کا شخص بھی ایمان کی لذت سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ایک حب طبعی ہوتی ہے اور ایک حب عقلی وایمانی ۔ حب طبعی کا معنی طبیعت کے تقاضے کی وجہ سے محبت ہے حب عقلی وایمانی کا مطلب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ اس سے محبت کی جائے جیسا کہ ہمیں بے شمار دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کا ہم پر یہ سب سے بڑ ا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا اس لیے اس کا حق ہے کہ اس سے محبت رکھیں اور اس کی عبادت کریں اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور یہ اس کا ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہمیں سیدھا راستہ معلوم ہوا ان کاحق ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کی اطاعت کریں چونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہمارے تمام دوستوں اور عام لوگوں سے زیادہ ہمارے خیر خواہ ہیں اس لئے جب ہماری طبیعت کی محبوب چیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان مقابلہ ہوتو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ وہ ہمارے ان تمام رشتوں ، لوگوں اور چیزوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں کہ ایک طرف بیٹے ، بیوی کی محبت کا تقاضا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا تقاضا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ایسی حالت میں پتہ چلتا ہے کہ بندہ کس طرف جاتا ہے ؟ تیسری چیز یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد مومن کو کفر کی طرف لوٹناآگ میں گرائے جانے سے برا معلوم ہو۔
سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ نبی ا کے ایک صحابی مرثد رضی اللہ عنہ بہادر اور دلیر تھے ۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی ذمہ داری ایک نہایت مشکل کام پر لگا دی۔ مکے میں کافروں نے اپنے کچھ عزیزوں کو ہجرت سے روک کر ان کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے مرثد! تم نے پہلے ان کا پتہ کرنا ہے کہ قیدی کہاں ہیں پھر ان کے نکالنے کی سبیل کرنی ہے پھر وہاں سے انہیں نکال کر مدینہ لانا ہے ۔ بھائیو! دشمنوں کے گھر میں جا کر جہاں کوئی مونس ومددگار نہیں ، وہاں اکیلے شخص کا ایسی ڈیوٹی کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ وہ زمانہ جاہلیت میں نقب زنی کرتے رہے تھے ، ڈاکے مارتے رہے تھے ۔ قدرت نے وہ ساری تربیت ایک سیدھے کام کی طرف لگادی یہ مکہ میں ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر کھڑ ے تھے تو عناق نامی ایک عورت نے انہیں دیکھ لیا (یہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے عشق ومحبت کرتے تھے ) اس نے کہا مرثد ہو؟ فرمایا: ہاں مرثد ہوں کہتی ہے مرحباً۔ آؤ پھر آج رات ہمارے پاس گزارلو ، اب دیکھتے خواہش نفس پوری کرنے کا مکمل موقع ہے ۔ مرثد نے کیا ایمان افروز جواب دیا۔ فرمایا اے عناق! اسلام میرے اور تیرے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑ ا ہو گیا ہے ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَد حَرَّمَ الزِّنَا۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے ۔
حالانکہ مرثد کو خوب معلوم تھا کہ اگر اس کی خواہش پوری نہ کروں گا تو یہ شورمچائے گی ایک طرف رسول اللہ ﷺ کے فرامین ہیں کہ زنا حرام ہے تو دوسری طرف پرانی محبت چھوڑ دی ۔
قارئین کرام! ایسی محبت مصیبت ہوتی ہے مرثد کی اللہ اور اس کے رسول سے ایمانی محبت تھی۔ اس لئے انہوں نے کافرہ عورت سے تعلقات توڑ ڈالے اور بھاگ کر ایک جگہ چھپ گئے ۔ فرماتے ہیں میں جس جگہ چھپا ہوا تھأ وہاں ایک کافر نے پیشاب کیا تو اس کی دھار مجھ پر پڑ ی لیکن اللہ نے کافر کو اندھا کر دیا اور وہ مجھے دیکھ نہ سکا۔ اس کے بعد میں اس جگہ پہنچا جہاں وہ قیدی تھا جسے نکالنا تھأ اس کی زنجیریں کھولیں اور اپنے ساتھ مدینہ لے آیا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں عناق سے نکاح کر لوں ؟ آپ ﷺ نے یہ آیت پڑ ھی۔
﴿ الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ﴾(النور:۳)
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک اور یہ چیز مومنوں پر حرام کر دی گئی ہیں ۔
یہ آیت پڑ ھ کر آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے نکاح مت کرو اس آیت میں زانی اور مشرک کو اکٹھا ذکر کیا گیا کیونکہ مشرک بے غیرت ہوتا ہے ، اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے اور زانی بھی بے غیرت ہوتا ہے جو اپنی محبوبہ میں غیر کی شرکت کو برداشت کرتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نجد کے بادشاہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے لے آئے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دو ۔ نبی ﷺ مسجد میں تشریف لائے پوچھا: ثمامہ کیا حال ہے ؟ کہا ٹھیک ہے ۔اگر آپ قتل کریں گے تو اس شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لینے والے موجود ہیں اور اگر احسان کر دو تو ایک قدر دان شکر گزار پر احسان کرو گے ۔ اگر دولت چاہتے ہوتو میں دولت منگوا کر دے دیتا ہوں ۔ نبی ﷺ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ مقصود یہ تھا کہ یہ مسجد میں مسلمانوں کی عبادت باہمی محبت اور اخلاق دیکھے کیونکہ سنا سنایا تو بہت کچھ ہوتا ہے جو خلاف اسلام ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں فرق ہوتا ہے چنانچہ نبی ﷺ دوسرے دن پھر تشریف لائے تو آپ ا نے پھر اس سے احوال دریافت فرمایا: اس نے پھر یہی تینوں باتیں دہرائیں ۔ تیسرے دن پھر آپ ﷺتشریف لائے تو اس نے پھر یہی الفاظ دھرائے نبی ﷺ نے فرمایا : اَطلِقُوا ثَمَامَۃَ ثمامہ کو آزاد کر دو۔
اس کے بعد ثمامہ ایک آدمی سے پوچھتا ہے ۔ بھائی جان ! بتاؤ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس نے کہا غسل کرو کلمہ پڑ ھو تو مسلمان ہوجاؤگے ۔ اس آدمی نے قریب کے چشمہ کی طرف رہنمائی کی۔ وہ وہاں گیا غسل کیا اور آ کر کلمہ پڑ ھا ۔ اشہد ان لا إلہ إلا اللہ واشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ ۔ اب جو میں بات کرنا چاہتا ہوں ، وہ اس سے آگے ہے ۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یا رسول اللہ ! ایمان لانے سے پہلے اس روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ ﷺ سے زیادہ برا چہرہ نظر نہیں آتا تھا مجھے سب سے زیادہ نفرت آپ ﷺ سے تھی۔ اب یہ حال ہے کہ اس دنیا میں آپ کے چہرے سے زیادہ محبوب چہرہ میری نظر میں کوئی نہیں ۔
ذرا غور کرنا ہے کہ اسلام قبول کیے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو کتنی مدت ہوئی ہے ؟ لیکن آپ ﷺ کی شکل وصورت سے کس حد تک پیار ہے ۔ ایک ہم بھی مسلمان ہیں ۔ 60,50,40اور70 سال عمر گزار چکے ، جانتے بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شکل وصورت کیسی تھی؟ آپ نے داڑ ھی پوری رکھی تھی ۔ آپ سیدھی مانگ نکالتے تھے آپ کا لباس کیسا تھا؟ مگر عمر کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ہم میں نبی ﷺ کے ساتھ اتنی محبت بھی پیدا نہیں ہو سکی کہ ہم اپنی شکل ہی نبی ﷺ کی شکل مبارک کے مطابق بنالیں ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کرنے والا بنا دے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے ۔ آمین
اسلام اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑ ا انسان بھی اس محبت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ البقرۃ:۱۶۵
کچھ لوگوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جن کے ساتھ وہ ایسی محبت کرتے ہیں جو کہ اللہ کے ساتھ کرنی چاہیے ۔ایمان والوں کی محبت تو اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس سے بڑ ھ کر کسی کے ساتھ بھی ایمان والوں کی محبت نہیں ہوتی ۔اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ کی محبت ہے وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف اللہ کے رسول ﷺ ہوں اور دوسری طرف کائنات کی کوئی بھی چیز ہو ، جب تک انسان رسول اللہ ﷺ کی محبت پر کسی دوسرے کو ترجیح دیتا ہے ، وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں ہوا جتنی اس محبت میں کمی ہو گی اتنی ہی ایمان میں کمی ہو گی چنانچہ رسول معظم ﷺ فرماتے ہیں : وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہِ لاَ یُومِنُ اَحَدُکُم حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ إِلَیہِ مِن وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجمَعِینَ ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ جب تک میں تم میں سے اپنے بیٹے اور والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک کوئی شخص صاحب ایمان اور مسلمان نہیں ہو سکتا۔
اللہ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے ہماری خواہشیں ، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اللہ تعالیٰ سے بڑ ھ کر کوئی نہیں جانتا۔ اللہ نے فرمایا :
﴿قُلْ إِنْ کَانَ آَبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ﴾(التوبہ:۲۴)
کہہ دیجئے اگر تمہیں اپنے والدین اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور رشتہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس میں گھاٹے سے ڈرتے ہو اور تمہارے مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو ، تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ انہیں رستہ دکھاتے ہی نہیں لہذا ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سب سے بڑ ھ کر محبت ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس شخص میں آ جاتی ہیں ، وہ ایمان کی لذت پالیتا ہے اور ایمان کا ذائقہ چکھ لیتا ہے ان میں پہلی چیز اللہ اور اس کے حبیب ﷺ محبت رکھتا ہے
اس حدیث کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے :
شہد میٹھا ہے لیکن جو شخص بیمار ہوجاتا ہے جب وہ شہد کو منہ میں ڈالتا ہے تو اسے کڑ وا محسوس ہوتا ہے حالانکہ شہد کڑ وا نہیں بلکہ بیمار کے منہ کا ذائقہ خراب ہے اور اس کامزاج بگڑ چکا ہے ۔ بیماری کی وجہ سے اس کا احساس درست نہیں رہا ۔شہد میٹھا اسے ہی محسوس ہو گا جو تندرست ہو گا بیمارکو تو شہد کڑ وا ہی محسوس ہو گا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا بڑ ی ہی عزیز چیز ہے ۔
خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر میں قریش کا ایک سردار قتل کرڈالا اس کے بعد ایک اور موقعہ پر وہ ایک جنگی مہم میں شامل ہوے تو اس میں گرفتار ہوگئے ۔ جس آدمی کو قتل کیا تھا ، اس کے وارثوں نے انہیں خرید لیا اور اعلان کر دیا کہ ہم انہیں قتل کر کے اپنا بدلہ لیں گے ایک دن مقرر ہو گیا کہ فلاں دن خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھایا جائے گا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ، وہ یہ کہ پھانسی اور چیز ہے سولی اور چیز ہے ۔ پھانسی یہ ہے کہ گلے میں ایک رسی ڈال کر نیچے تختہ رکھا جاتا ہے ۔ اس کے نیچے ایک گڑ ھا ہوتا ہے وہ تختہ ہٹالیا جاتا ہے تو وہ شخص پھندے کے ساتھ جھولتارہتا ہے اس کا گلا گھٹتا ہے اور یوں وہ مرجاتا ہے لمحے کی بات ہوتی ہے یا چند لمحوں کی مگر سولی والی موت بہت المناک سزا ہوتی ہے سولی کے لیے ایک اونچا لمبا کھمبا گاڑ دیا جاتا ہے ۔ اس کے اوپر ایک آڑ ی ترچھی لکڑ ی رکھی جاتی ہے جیسے صلیب ہوتی ہے پھر جس شخص کو سولی دینا ہوتی ہے ، اس کے جسم کو سیدھی لکڑ ی کے ساتھ اور ہاتھ ترچھی لکڑ ی کے ساتھ باندھ دیئے جاتے ہیں پھر اس کو نیزوں اور تلواروں کے کچو کے دے دے کر مارا جاتا ہے یا بعض کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ دھوپ میں پڑ ا رہے اور پرندے اور درندے اسے آ کر نوچتے رہتے ہیں یہ بڑ ی ہی خوفناک سزا ہے ۔
اب خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھا دیا گیا انہیں ایک ظالم کافر نے نیزے سے کچو کہ مارا اور کہنے لگا ، آج تو پسند کرتا ہو گا کہ تیری جگہ محمد ﷺ ہوتے اور تو ان کے بدلہ میں چھوڑ دیا جاتا تیرا کیا خیال ہے ؟ وہ کہنے لگے ، میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد ﷺ کو کانٹا بھی چبھے اور میری جان بچ جائے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اتنا کسی اور کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتو پھر سمجھ لو کہ اس کے ایمان میں کمی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان کا ذائقہ وہ شخص چکھتا ہے جس میں تین چیزیں ہوں : پہلی چیز یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے محبت رکھے تو صرف اللہ کے لیے محبت رکھے ، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس سے مسلمان محبت رکھے اللہ کی خاطر رکھے ۔ جوشخص دنیا کی طمع رکھتا ہے ، وہ ایمان کی لذت سے کسی صورت آشنا نہیں ہو سکتا۔ ایسا آدمی طامع اور لالچی ہے جہاں لالچ نظر آتا ہے اس طرف بڑ ھ جاتا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور ایمان سے اس کا کیا واسطہ؟ اس قسم کا شخص بھی ایمان کی لذت سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ایک حب طبعی ہوتی ہے اور ایک حب عقلی وایمانی ۔ حب طبعی کا معنی طبیعت کے تقاضے کی وجہ سے محبت ہے حب عقلی وایمانی کا مطلب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ اس سے محبت کی جائے جیسا کہ ہمیں بے شمار دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کا ہم پر یہ سب سے بڑ ا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا اس لیے اس کا حق ہے کہ اس سے محبت رکھیں اور اس کی عبادت کریں اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور یہ اس کا ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہمیں سیدھا راستہ معلوم ہوا ان کاحق ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کی اطاعت کریں چونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہمارے تمام دوستوں اور عام لوگوں سے زیادہ ہمارے خیر خواہ ہیں اس لئے جب ہماری طبیعت کی محبوب چیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان مقابلہ ہوتو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ وہ ہمارے ان تمام رشتوں ، لوگوں اور چیزوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں کہ ایک طرف بیٹے ، بیوی کی محبت کا تقاضا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا تقاضا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ایسی حالت میں پتہ چلتا ہے کہ بندہ کس طرف جاتا ہے ؟ تیسری چیز یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد مومن کو کفر کی طرف لوٹناآگ میں گرائے جانے سے برا معلوم ہو۔
سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ نبی ا کے ایک صحابی مرثد رضی اللہ عنہ بہادر اور دلیر تھے ۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی ذمہ داری ایک نہایت مشکل کام پر لگا دی۔ مکے میں کافروں نے اپنے کچھ عزیزوں کو ہجرت سے روک کر ان کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے مرثد! تم نے پہلے ان کا پتہ کرنا ہے کہ قیدی کہاں ہیں پھر ان کے نکالنے کی سبیل کرنی ہے پھر وہاں سے انہیں نکال کر مدینہ لانا ہے ۔ بھائیو! دشمنوں کے گھر میں جا کر جہاں کوئی مونس ومددگار نہیں ، وہاں اکیلے شخص کا ایسی ڈیوٹی کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ وہ زمانہ جاہلیت میں نقب زنی کرتے رہے تھے ، ڈاکے مارتے رہے تھے ۔ قدرت نے وہ ساری تربیت ایک سیدھے کام کی طرف لگادی یہ مکہ میں ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر کھڑ ے تھے تو عناق نامی ایک عورت نے انہیں دیکھ لیا (یہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے عشق ومحبت کرتے تھے ) اس نے کہا مرثد ہو؟ فرمایا: ہاں مرثد ہوں کہتی ہے مرحباً۔ آؤ پھر آج رات ہمارے پاس گزارلو ، اب دیکھتے خواہش نفس پوری کرنے کا مکمل موقع ہے ۔ مرثد نے کیا ایمان افروز جواب دیا۔ فرمایا اے عناق! اسلام میرے اور تیرے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑ ا ہو گیا ہے ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَد حَرَّمَ الزِّنَا۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے ۔
حالانکہ مرثد کو خوب معلوم تھا کہ اگر اس کی خواہش پوری نہ کروں گا تو یہ شورمچائے گی ایک طرف رسول اللہ ﷺ کے فرامین ہیں کہ زنا حرام ہے تو دوسری طرف پرانی محبت چھوڑ دی ۔
قارئین کرام! ایسی محبت مصیبت ہوتی ہے مرثد کی اللہ اور اس کے رسول سے ایمانی محبت تھی۔ اس لئے انہوں نے کافرہ عورت سے تعلقات توڑ ڈالے اور بھاگ کر ایک جگہ چھپ گئے ۔ فرماتے ہیں میں جس جگہ چھپا ہوا تھأ وہاں ایک کافر نے پیشاب کیا تو اس کی دھار مجھ پر پڑ ی لیکن اللہ نے کافر کو اندھا کر دیا اور وہ مجھے دیکھ نہ سکا۔ اس کے بعد میں اس جگہ پہنچا جہاں وہ قیدی تھا جسے نکالنا تھأ اس کی زنجیریں کھولیں اور اپنے ساتھ مدینہ لے آیا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں عناق سے نکاح کر لوں ؟ آپ ﷺ نے یہ آیت پڑ ھی۔
﴿ الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ﴾(النور:۳)
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک اور یہ چیز مومنوں پر حرام کر دی گئی ہیں ۔
یہ آیت پڑ ھ کر آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے نکاح مت کرو اس آیت میں زانی اور مشرک کو اکٹھا ذکر کیا گیا کیونکہ مشرک بے غیرت ہوتا ہے ، اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے اور زانی بھی بے غیرت ہوتا ہے جو اپنی محبوبہ میں غیر کی شرکت کو برداشت کرتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نجد کے بادشاہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے لے آئے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دو ۔ نبی ﷺ مسجد میں تشریف لائے پوچھا: ثمامہ کیا حال ہے ؟ کہا ٹھیک ہے ۔اگر آپ قتل کریں گے تو اس شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لینے والے موجود ہیں اور اگر احسان کر دو تو ایک قدر دان شکر گزار پر احسان کرو گے ۔ اگر دولت چاہتے ہوتو میں دولت منگوا کر دے دیتا ہوں ۔ نبی ﷺ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ مقصود یہ تھا کہ یہ مسجد میں مسلمانوں کی عبادت باہمی محبت اور اخلاق دیکھے کیونکہ سنا سنایا تو بہت کچھ ہوتا ہے جو خلاف اسلام ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں فرق ہوتا ہے چنانچہ نبی ﷺ دوسرے دن پھر تشریف لائے تو آپ ا نے پھر اس سے احوال دریافت فرمایا: اس نے پھر یہی تینوں باتیں دہرائیں ۔ تیسرے دن پھر آپ ﷺتشریف لائے تو اس نے پھر یہی الفاظ دھرائے نبی ﷺ نے فرمایا : اَطلِقُوا ثَمَامَۃَ ثمامہ کو آزاد کر دو۔
اس کے بعد ثمامہ ایک آدمی سے پوچھتا ہے ۔ بھائی جان ! بتاؤ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس نے کہا غسل کرو کلمہ پڑ ھو تو مسلمان ہوجاؤگے ۔ اس آدمی نے قریب کے چشمہ کی طرف رہنمائی کی۔ وہ وہاں گیا غسل کیا اور آ کر کلمہ پڑ ھا ۔ اشہد ان لا إلہ إلا اللہ واشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ ۔ اب جو میں بات کرنا چاہتا ہوں ، وہ اس سے آگے ہے ۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یا رسول اللہ ! ایمان لانے سے پہلے اس روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ ﷺ سے زیادہ برا چہرہ نظر نہیں آتا تھا مجھے سب سے زیادہ نفرت آپ ﷺ سے تھی۔ اب یہ حال ہے کہ اس دنیا میں آپ کے چہرے سے زیادہ محبوب چہرہ میری نظر میں کوئی نہیں ۔
ذرا غور کرنا ہے کہ اسلام قبول کیے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو کتنی مدت ہوئی ہے ؟ لیکن آپ ﷺ کی شکل وصورت سے کس حد تک پیار ہے ۔ ایک ہم بھی مسلمان ہیں ۔ 60,50,40اور70 سال عمر گزار چکے ، جانتے بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شکل وصورت کیسی تھی؟ آپ نے داڑ ھی پوری رکھی تھی ۔ آپ سیدھی مانگ نکالتے تھے آپ کا لباس کیسا تھا؟ مگر عمر کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ہم میں نبی ﷺ کے ساتھ اتنی محبت بھی پیدا نہیں ہو سکی کہ ہم اپنی شکل ہی نبی ﷺ کی شکل مبارک کے مطابق بنالیں ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کرنے والا بنا دے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے ۔ آمین
Subscribe to:
Posts (Atom)