جمعہ کے بیان میں
لفظ جمعہ میم کے ساکن کے ساتھ اور جمعہ میم کے فتح کے ساتھ ہر دو طرح سے بولا گیا ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیںقال فی الفتح قد اختلف فی تسمیۃ الیوم بالجمعۃ مع الاتفاق علی انہ کان لیسمی فی الجاہلیۃ والعروبۃ بفتح العین وضم الراءوبالوحدۃالخ یعنی جمعہ کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عہد جاہلیت میں اس کو یو عروبہ کہا کرتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ اس دن مخلوق کی خلقت تکمیل کو پہنچی اس لیے اسے جمعہ کہا گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تخلیق آدم کی تکمیل اسی دن ہوئی اس وجہ سے اسے جمعہ کہا گیا۔ ابن حمید میں سند صحیح سے مروی ہے کہ حضرت اسعد بن زرارہ کے ساتھ انصار نے جمع ہوکر نماز ادا
کی اور حضرت اسعد بن زرارہ نے ان کو وعظ فرمایا پس اس کا نام انہوں نے جمعہ رکھ دیا کیوں کہ وہ سب اس میں جمع ہوئے یہ بھی ہے کہ کعب بن لوی اس دن اپنی قوم کو حرم شریف میں جمع کر کے ان کو وعظ کیاکرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ اس حرم سے ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ یوم عروبہ کا نام سب سے پہلے یوم جمعہ کعب بن لوی ہی نے رکھا۔ یہ دن بڑی فضیلت رکھتا ہے اس میں ایک ساعت ایسی ہے جس میں جو نیک دعاکی جائے قبول ہوتی ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی روش کے مطابق نماز جمعہ کی فرضیت کے لیے آیت قرآنی سے استدلال فرمایا جیسا کہ باب ذیل سے ظاہر ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری فرماتے ہیں وذکر ابن قیم فی الھدی ص 118, 102 ج 1 یوم الجمعۃ ثلاثا وثلاثین خصوصیۃ ذکر بعضھا الحافظ فی الفتح ملخصا من احب الوقوف علیھا فلیرجع الیھا ( مرعاۃ ج 2 ص: 272 ) یعنی جمعہ کے دن کے لیے 33 خصوصیات ہیں جیسا کہ علامہ ابن قیم نے ذکرفرمایا ہے کچھ ان میں سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کی ہیں، تفصیلات کے شائقین ان کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔
باب : جمعہ کی نماز فرض ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ
إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع ذلكم خير لكم إن كنتم تعلمون
“ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کی یاد کے لیے چل کھڑے ہو اور خرید وفروخت چھوڑ دو کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے ہو ”۔ ( آیت میں ) فاسعوا فامضوا کے معنی میں ہے ( یعنی چل کھڑے ہو )
تشریح : ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ اچانک تجارتی قافلہ اموال تجارت لے کر مدینہ میں آگیا اور اطلاع پاکر لوگ اس قافلے سے مال خرید نے کے لیے جمعہ کا خطبہ ونماز چھوڑ کر چلے گئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے، اس وقت عتاب کے لیے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر یہ بارہ نمازی بھی مسجد میں نہ رہ جاتے تو مدینہ والوں پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی۔” نہ جانے والوں میں حضرات شیخین بھی تھے ( ابن کثیر ) اسی واقعہ کی بنا پر خرید وفروخت چھوڑنے کا بیان ایک اتفاقی چیز ہے جو شان نزول کے اعتبار سے سامنے آئی، اس سے یہ استدلال کہ جمعہ صرف وہاں فرض ہے جہاں خرید وفروخت ہوتی ہو یہ استدلال صحیح نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہاں جمعہ فرض ہے وہ جگہ شہر ہو یا دیہات تفصیل آگے آرہی ہے۔
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، قال حدثنا أبو الزناد، أن عبد الرحمن بن هرمز الأعرج، مولى ربيعة بن الحارث حدثه أنه، سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " نحن الآخرون السابقون يوم القيامة، بيد أنهم أوتوا الكتاب من قبلنا، ثم هذا يومهم الذي فرض عليهم فاختلفوا فيه، فهدانا الله، فالناس لنا فيه تبع، اليهود غدا والنصارى بعد غد".
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن حارث کے غلام عبد الرحمن بن ہرمز اعرج نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی۔ یہی ( جمعہ ) ان کا بھی دن تھا جو تم پر فرض ہوا ہے۔ لیکن ان کا اس کے بارے میں اختلاف ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتا دیا اس لیے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے۔ یہود دوسرے دن ہوں گے اور نصاریٰ تیسرے دن۔