Monday, 28 March 2011

Ahad e Risalat Aur Science wa Technology (Online Books)

عہدِرسالتﷺاور سائنس و ٹیکنالوجی

                                                                            ڈاکٹر نعمان ندوی
ترقی سائنس، ارتقا اور معیارِ زندگی کی بلندی کے مفروضات کی تلاش میں سرگرداں ہونے سے قبل اس سوا ل پرنہایت گہرے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ رسول اللہﷺ تاریخ کے کس موڑ پر تشریف لائے؟ جب آپ ﷺ دنیا   میں آئے تو اس دنیا کا کیانقشہ تھا؟ اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی نبوت کے لیے جس خطے کا  انتخاب کیا،اس کی جغرافیائی اہمیت و حیثیت کیا تھی؟ 
حرمین شریفین کی جغرافیائی اہمیت اور حیثیت
مکہ مکرمہ قدیم اور جدید جغرافیہ دانوں کی تحقیق کے مطابق دنیا کے وسط میں واقع ہے۔ گویا کائنات کی مرکزی ہستی ختمئ مرتبﷺ کو کائنات کے مرکز میں مبعوث کیا گیا، اس بعثت کے ذریعے خانۂ کعبہ کی مرکزیت کو دنیا کے لیے ایک مرتبہ پھر ابد تک قائم کردیا گیا کہ اب پوری دنیا کو رہتی دنیا تک اس مرکز ِخداوندی اور اس مرکزی ہستی رسالت مآبﷺ کے ساتھ دائمی تعلق قائم کرنا تھا جو تمام عالمین کے لیے رحمت اور كافةً للناس ہیں اور آپﷺ کا پیغام پوری دنیا کے لیے آخری، حتمی، قطعی اور ابدی پیغام ہے۔
جزیرۃ العرب کی جغرافیائی اہمیت یہ ہے کہ دنیا کے تین برّاعظم اس سے ملتے ہیں۔ حج کی عبادت کے باعث دنیا بھر کے تجارتی قافلے جزیرۃ العرب کے ذریعے اس سرزمین سے، جونہ صرف مرکز کائنات [Centre of Universe] بلکہ ازل سے ابد تک کے لیے مرکز رُشد و ہدایت بھی ہے؛ تجارت، کاروبار، حج اور اسفار کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اورپیغام رسالت مآبﷺ ان قافلوں کے ذریعے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں فطری طریقے سے پہنچ سکتا تھا۔ یہ پیغام لے جانے والے پیامِ رسالتﷺ کی صرف زبانی ترسیل نہ کرتے بلکہ پیغام دینے والے پیامبر کی سیرت اور شخصیت کے گوشوں سےبھی ذاتی طور پر واقف ہوتے تھے، کیونکہ وہ قرآنِ مجسم رسالت مآبﷺ کو جزیرۃ العرب کے گردوغبار، درودیوار، دیار و اَمصار، کوچہ و بازار اورنقش و نگار میں ایک نورانی و روحانی وجود کے طور پر چلتا پھرتا ہوا پاتے تھے۔ ایک لفظی قرآن تیس سپاروں میں بند تھا اور دوسرا عملی قرآن مکہ کے گلی کوچوں میں شب و روز اُن کے درمیان موجود تھا جس کے ایمان کی حرارت سے پتھردل پگھل رہے تھے اور صحرا میں موجود ریت کے ذرّوں کوبھی شعور حاصل ہورہا تھا۔ آپؐ کی سیرت کے گوشے ان کے لیے مہر جہاں تاب کی کرنوں کی طرح روشن تھے۔ یہ پیغام رسانی' عین الیقین' کے درجے میں ہوتی تھی۔
بعثت ِنبویؐ کے وقت قومِ حجاز کی تمدنی حالت
عالم عرب کے ایک جانب یونانی فلسفے، سائنس، منطق، تہذیب و تمدن کے آثار محفوظ تھے تو دوسری جانب ایران، چین، ہند او رروم کی تہذیبیں اپنے علوم و فنون کی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ تھیں۔ فلسفہ، سائنس، ٹیکنالوجی اور علومِ عقلیہ میں جزیرۃ العرب ان اقوام سے مسابقت کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ جس قوم، بنو اسمٰعیل میں آپؐ تشریف لائے وہ 'اُمیون' تھے۔ صرف اہل کتاب اس خطے میں لکھنے پڑھنے سے واقف تھے۔ اس کے برعکس مدارس اور جامعات کے ذریعے تعلیم یونان، ہند، چین اور ایران کے خطوں میں عام تھی۔ ان خطوں سے متصل ماضی کی مِٹی ہوئی تہذیبیں: ہڑپہ، موہنجودڑو و ٹیکسلا کے آثار بھی اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺ کو ان کی آمد سے پہلے کی عظیم الشان قوموں اور ان کے عہد میں موجود مخالف تہذیب و تمدن کے علوم عقلیہ[Natural Philosophy, Science & Technology]سے کچھ عطا نہیں کیا گیا۔
چین، ہند ، روم، یونان اور ایران کی عمارات کے مقابلے میں مدینۃ النبیؐ میں کوئی ایک عمارت عہدِ رسالت میں تو کیا اس کے بعد بھی ماضی قریب تک تعمیر نہیں کی جاسکی تو آخر کیوں؟ اُنیسویں صدی کے آخر تک مکہ معظمہ میں فراہمئ آب و نکاسئ فضلات[Water and Drainage System] کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں تھا، جبکہ رسالت مآبﷺ کی آمد سے تین ہزار سال پہلے کی تہذیب موہنجودڑو میں نکاسی غلاظت کا زبردست نظام موجود تھا۔ مدینۃ النبیؐ میں اس طرح کی سڑکیں، گلیاں، بازار، مکان، سماعت گاہیں [Auditorium]اور یونیورسٹیاں موجود نہ تھیں جو رسالت مآبﷺ کی آمد سے پہلے موہنجودڑو ، ہڑپا ، ٹیکسلا، یونان اور روم وغیرہ کی تہذیبوں میں موجود تھیں۔ اتنی عظیم الشان تہذیبوں، قوموں اور تمدنوں کے مقابلے میں جو ہر قسم کے علوم وفنون سے آراستہ تھیں، ایک ایسی ہستی کو کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا جو نہ لکھنا جانتی تھی، نہ پڑھنا جانتی تھی:
﴿ وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ (العنكبوت:48)
''اے نبیﷺ! آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے او رنہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے؛ اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔''
اصل علم وحکمت کیا اور اُمیّت کیا ہے؟
ایسی ہستی کا انتخاب کرنے کی حکمت مالکُ الملک کے سوا کون جان سکتا تھا؟ عرب میں یہودی بھی لکھنے کے فن سے واقف تھے مگر اس فن کی خالق کائنات کی نظر میں کوئی وقعت نہ تھی کہ یہودی اس کتاب کوبھلا چکے تھے جو زندگی کا سرچشمہ تھی لہٰذا اس سرچشمے سے لاتعلقی کے بعد کوئی علم اور کوئی ہنر پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا۔ رسالت ِمآبﷺ میں اُمّی ہونے کی صفت کو عیب کے بجائے اس ہستی کے حق میں ہنر اور کمال قرار دیا گیا اور قرآن نے'اُمّی'کے لقب سے آپﷺ کو اور آپؐ کی قوم کو خود پکارا۔
یہ پکار، یہ اعلان اس امر کا استعارہ ہے کہ اے اہل عالم! تمہاری نظر میں جہل اور علم کے دائرے، اس کےاُصول و منہاج، پیمانے اور معیارات، اس کے اندازے،اس کو پرکھنے کے تمام طریقے او راس کی تمام تعریفیں بالکل غلط ہیں۔ تم عظیم الشان عمارتوں، کتابوں، کتب خانوں، اداروں، مدرسوں، فلسفوں، سائنس و منطق کو علم سمجھتے ہو مگر یہ کیسا علم و عقل اور کیسی روشنی ہے کہ تم حقیقت ِکائنات اور مالکِ حقیقی کی معرفت سے محروم ہو۔ وہ علم جو تمہیں حقیقت الحقائق سے وابستہ نہ کرسکے، وہ قیامت تک علم نہیں، جہل ہے۔ علم وہ ہے جو تمہیں اپنے خالق کی معرفت سے آگاہ کرے اور اپنی آخرت سنوارنے کے طریقے بتائے لہٰذا اصلاً اُمّی رسالت مآبﷺ نہیں ؛اہل یونان، روم، ہند، چین و ایران ہیں جو ہدایت کی روشنی سے محروم ہیں؛ جو اپنے مالک حقیقی کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ جو اس نور سے محروم ہو، اس سے بڑا محروم کون ہوسکتا ہے؟
اُمّی ہونے کے باوجود رسالت مآبﷺ پر علم کس ذریعے سے نازل کیا گیا؟ کیا قلم سے؟ جس کی قسم سورۃ العلق میں کھائی گئی۔ کیا کتاب سے؟ جو اس عہد کے تمام بڑے تمدنوں میں موجود تھی۔ کیا قرطاس سے؟ جو اس عہد کے لوگوں کے لیے اجنبی نہ تھا۔ بلکہ علم آپﷺ کے قلب ِاطہر پر نازل کیا گیا کہ یہی قلب علم کا اصل سرچشمہ ہے۔ انبیا اسی قلب کو درست کرنے کے لیےبھیجے جاتے ہیں جس میں باطل نقب لگاتا رہتا ہے:
﴿ قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ (البقرة:97)
''ان سےکہو کہ جبرئیلؑ نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن آپکے قلب پرنازل کیا ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے رسالت مآبﷺ کی رسالت کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے وسیع فرما دیا اور آپ پر نبوت کا اختتام کردیا۔ آپ كافة للناس ہیں، آپ کی ہستی کو اللہ تعالیٰ نے ابد تک کے انسانوں کی زندگی سنوارنے، ان کو کتاب او رحکمت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث فرمایا :
﴿ هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ(الجمعة:2)
'' وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُنھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور اُنھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔''
ان زمانوں کے لیے جو سائنس و ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہونے کا دعویٰ کریں، قرآن نے واضح کردیا کہ اس رسول کی بعثت ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں :
﴿ وَّ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (الجمعة:3)
'' اور دوسروں کے لیے بھی انھی میں سے جو اَب تک ان سے نہیں ملے۔''
رسالت مآبﷺ کو اپنے عہدکے عظیم الشان تمدنوں کے سامنے کھڑا کرکے دنیا کو قیامت تک کے لیے بتا دیا گیا کہ اصل علم و دانش اور روشنی و نور وحی الٰہی او رعلومِ نقلیہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس روشنی، نور اور دانش سے محروم معاشرے مادّی طور پر خواہ کتنے ہی عظیم الشان ہوں، وہ تاریک ترین اورجہالت میں غرق ہیں اور اُن کو جہالت سے نکال کر روشنی میں لانا اُمت ِوسط کی بنیادی ذمہ داری ہے، جو صبح قیامت تک برقرار رہے گی۔
رسالت مآبﷺ کو قرآن نے 'سراجِ منیر' کے نام سے پکارا، اس لیے کہ العلم، الکتاب آجانے کے بعد روشنی اورعلم آجاتا ہے اور'اُمّیت'باقی نہیں رہتی۔ لہٰذا قرآن نے اُمّی اُن کو کہا جو اپنی قوم کے ایک بے مثال فرد پر روشنی، نور، فرقان، میزان، فصل الخطاب، حکم، لب، ضیا، ذکر، حکمت، خیرکثیر اور العلم نازل ہونے کے باوجود اس سے دانستہ محروم رہے، جو الکتاب کے نزول کے باوجود اس نور سے پھوٹنے والے علم سے بے بہرہ تھے:
﴿ وَ مِنْهُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِيَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ (البقرة:78)
''ان میں ایك د وسرا گروہ اُمیّوں کا ہے جوکتاب کا تو علم نہیں رکھتے بس اپنے بے بنیاد آرزوؤں او راُمیدوں کو لیےبیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔''
حقیقی علم کے حامل وعامل ہونے کا نتیجہ دین ودنیا کی سرفرازی ہے!
کتاب ہدایت سے محرومی اور العلم کے مقابلے میں وہم و گمان کی پیروی اور بے بنیاد اُمیدوں و آرزوؤں کے لیے سرگرمی'اُمّیت'ہے اوراِسے ترک کرنا نور، روشنی، برہان، فرقان، عرفان، ایمان، سراج اور چراغ ہے۔ اس روشنی کانتیجہ وہ عظمت، رعب و دبدبہ، ہیبت و فضیلت اور اِعزاز و اکرام ہے جو حامل وحی گروہ کوروئے زمین پر عطا کی جاتی ہے:
﴿ كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَ لَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَكْبَرُ تَفْضِيْلًا (الاسراء:20،21)
''تیرے ربّ کی طرف سے اس کی عطا ہر ایک کو پہنچتی ہے۔ تیرے پروردگار کی بخشش کہیں رکی ہوئی نہیں۔ مگر دیکھ لو کہ دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت میں اس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے اور اس کی فضیلت او ربھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی۔''
اس فضیلت کا ایک اثر قرآن نے یہ بھی بیان کیاکہ اس گروہ کے کردار،اقبال اور گفتار کے باعث اللہ تعالیٰ اہل عالم کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا فرما دیں گے ۔ یہ عزت، محبت، برتری اور فضیلت سائنس وٹیکنالوجی کی بنیاد پر نہیں، علم صحیح اور اعمالِ صالحہ کے صلے میں عطا ہوگی۔اس محبت کا سبب ان کی اخلاقی و روحانی ایمانی فضیلت ہوگی اورکچھ نہیں۔ قرآن کے الفاظ میں :
﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا (مريم:96، 97)
''یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں، عنقریب رحمٰن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔ پس اے نبیﷺ! اس کلام کو ہم نے آسان کرکے تمہاری زبان میں اس لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو۔''
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے ربّ سے اپنی اولاد کے لیے دعا فرماتے ہوئے یہ آرزو کی تھی کہ
﴿رَبَّنَاۤ اِنِّيْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْۤ اِلَيْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ (إبراهيم:37)
'' اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کے جنگل میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔''
یہ مرتبہ اور فضیلت تاریخ کے کسی بھی دور میں، کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی وقت حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن جدیدیت کے زیر اثر عہد ِحاضر کےبعض راسخ العقیدہ مسلمان حلقے بھی اب اس فضیلت کے کچھ زیادہ قائل نہیں رہے ہیں۔ ان کے خیال میں سائنس وٹیکنالوجی کے بغیر فضیلت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا او رکم از کم عصر حاضر میں صرف اخلاق اور کردار پیدا کرنے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا، بالفاظِ دیگر اُمت کی علمیّت اور مابعد الطبیعیات رفتہ رفتہ تبدیل ہورہی ہے!!
کسی قوم کے عروج کی ضمانت کیا سائنس وٹیکنالوجی ہیں؟
تو کیا سائنس و ٹیکنالوجی کا انکار کردیا جائے؟
سوال انکار و اقرار کا نہیں ،اُصول کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو اس لیے تباہ نہیں کیا کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئی تھی بلکہ اس لیے تباہ کیا کہ وہ گناہ کی زندگی میں بہت آگے بڑھ گئی تھی او رپیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھی او رکسی قوم کو عروج اس لیے عطا نہیں فرمایا کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنی مقابل تہذیب سے بڑھ گئی تھی۔ استخلاف فی الارض کو پاکیزگئ قلب و نظر سے مشروط کیا گیاہے، سائنس و ٹیکنالوجی زیادہ سے زیادہ فرضِ کفایہ کے درجے میں ہے، لیکن اب اُمّت صرف اس کے حصول کو واحد فریضۂ دینی تصور کررہی ہے۔ فرضِ کفایہ نے افضل ترین فرض کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ یہ ہے فکرونظر میں تبدیلی، کہ فضیلت، برتری، کامیابی اور استخلاف کا واحد سبب محض سائنس و ٹیکنالوجی کو سمجھ لیا گیا ہے۔ پوری اُمّت اسی کی تعلیم و تحصیل کو افضل ترین علم تصور کررہی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے زوال کی رات مزید گہری ہورہی ہے۔
اُمید کا مرکز العلم اور الکتاب نہیں بلکہ وہ علم ہوگیا ہے جو مغرب نے تخلیق کیا ہے اور ہم صرف اسی علم کی آرزو سے تبدیلی کی صبح کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ وہ بنیادی تغیر ، رویہ اور سوچ ہے جس نے اُمت کے لیے بلندی کے تمام راستے مسدود و محدود کردیئے ہیں۔ قرآن میں عروج و زوال سے متعلق آیات میں ایک آیت بھی ایسی نہیں بتائی جاسکتی جو عروج کو صرف اور صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول سے مشروط کرتی ہو ، نہ ہی استخلاف کی کسی آیت میں کسی نبی کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ زمین میں اقتدار کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کے علم کی تدریس و تعلیم کو اوّلیت دیں گے۔ ہر جگہ صلوٰۃ، زکوٰۃ، امربالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس علم کو جو مرتبہ و مقام دیا گیا ہے، اس مرتبے و مقام سے اُسے ہٹا دیا جائے تو یہ عدل نہیں، ظلم ہے۔ اس ظلم کے اقرار اور اس پر تین سو برس مسلسل اصرار کے باوجود اُمّت کا حال کیا ہے؟ ملائیشیا، ترکی، ایران، سوڈان، مصر اور پاکستان تمام تر دعوؤں کے باوجود نہ دین میں آگے ہیں، نہ دنیا میں بلکہ شکست کی رات مسلسل طویل ہورہی ہے۔
قرآن حکیم نے عروج و زوال کے قانون میں کہیں سائنس و ٹیکنالوجی کو زوال و عروج کا سبب قرار نہیں دیا۔اسی لیے:﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات:13) ''اللہ کے یہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔''
سائنس داں اور ٹیکنالوجسٹ ہونا کوئی عظمت نہیں۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ رسالت مآبﷺ کے ساتھ رکوع و سجود میں اللہ کے فضل کی تلاش کے لیے سرگرداں رہتے تھے:
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًاٞ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا (الفتح:29)
'' محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، کافروں پر سخت ہیں۔آپس میں رحم دل ہیں، تو انھیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدےکر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں ہیں۔ ان کے نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ان کی یہی مثال تورات اور انجیل میں ہے۔''
کبھی تسخیر کائنات، تسخیر ارض اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تلاش میں اُنہیں سرگرداں نہیں پایا گیا ،اسی لیے قرآن نےبتایا کہ گناہِ عظیم پر اصرار کرنے والے جہنم میں ہوں گے:
﴿ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُتْرَفِيْنَۚ وَكَانُوْا يُصِرُّوْنَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيْمِ (الواقعة:45،46)
'' بے شک یہ لوگ اس سے پہلے بہت نازوں میں پلے ہوئے تھے اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے۔''
سائنس وٹیکنالوجی نہ جاننے والوں یا اس میں پیچھے رہ جانے والوں کو قرآن کی کسی ایک آیت میں بھی جہنم کی وعید نہیں سنائی گئی، آخر کیوں؟ حضرت ابراہیم کو ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنایا گیا:
﴿ فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً  قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ (الذاريات:28)
'' پھر تو دل ہی دل میں اُن سے خوفزدہ ہو گئے، انہوں نے کہا: آپ خوف نہ کیجیے۔''
تو اس علم سے مراد سائنس و ٹیکنالوجی کا علم نہیں، خالق کائنات کی معرفت اور آخرت کی حقیقت کا علم مراد تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ نےبچپن میں ہی حکم سے نوازا۔ ﴿ يٰيَحْيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ  وَ اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا (مريم:12) جبکہ حکم کی یہ صفت دیگر انبیا کو نبوت کے ساتھ عطا کی گئی۔ یہ حکم کیا سائنس و ٹیکنالوجی تھا؟
اسلامی نظریۂحیات
کفار و مشرکین کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ ان کے سامنے ان کے ربّ کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے، یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے:
﴿وَ مَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَ (يٰس:46)
ایسے تمام افراد اور تمام قوموں پر اللہ کا عذاب دراصل ان کے گناہوں کے باعث نازل ہوا: ﴿ فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ (العنكبوت:40) اور مؤمنين كی كاميابی كا سبب یہ تھا کہ وہ گناہگار زندگی سے نفرت کرتے تھے، پاکیزہ زندگی بسر کرتے اور اس دنیا کو گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ذمے دار بنائے گئے :
﴿ وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا (الاسراء:19)
'' جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسا کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مؤمن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔''
ا للہ اپنے بندوں کا نہایت خیرخواہ ہے:
﴿ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ  تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَيْنَهَا وَ بَيْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِيْدً وَ يُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ وَ اللّٰهُ  رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ (آلِ عمران:30)
'' جس دن ہر نفس اپنی کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی، اللہ اُنہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔''
وه اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا .....
﴿ اَلَمْ يَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِيْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْيَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِ  اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا كَانَ  اللّٰهُ  لِيَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ (التوبة:70)
''کیا انھیں اپنے سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں: قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم اور اہل مدین اور موتفکات کی۔ ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیل لے کر پہنچے، اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا۔''
اور تمہارا ربّ بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔ اگر وہ ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑنا چاہتا تو ان پر فوراً عذاب بھیج دیتا:﴿ فَاَتْبَعَ سَبَبًا (الکہف:85)
اسی لیے اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے لیے لازم کرلیا ہے۔(الانعام:35)
اس رحمت کے باعث وہ فوراً سزا نہیں دیتا، سورۃ فاطر کی آیت 45 میں ارشاد ہے:
''اگر وہ کہیں لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑتا تو زمین کی پشت پرایک جاندار کو بھی نہ چھوڑتا ،لیکن وہ ان کو ایک معین مدت تک مہلت دے رہا ہے۔''
لہٰذا وہ انسان کو مہلت ِعمر دیتا ہے کہ وہ عہد اَلست کو یاد کرکے اپنے خالق کی پناہ میں آجائے۔''کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا؟'' (فاطر:37) انسان نے وہ قرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا :﴿ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَاۤ اَمَرَهٗ (عبس: 23) یعنی بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے نیکیوں میں سبقت کرنے والے:﴿ اُولٰٓىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ (المؤمنون:61) اس آيت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے لیے عرصۂ حیات کا تعین اس لیے فرمایا کہ ان کے اندر جو خیر مخفی ہے، اس کوظاہر ہونےکا موقع عطا فرمائے او ریہ عمر اس خیر کے ظہور میں آنے کے لیے بہت کافی ہے۔لیکن یہ انسان عہدِ الست کو یاد کرنے کے بجائے ویسی ہی بحثوں میں پڑ گئے جیسی بحثو ں میں پچھلی گمراہ قوموں کے لوگ پڑے تھے:
﴿كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْۤااَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّ اَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوْا۠ بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَ خُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا اُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (التوبة:69)

''مثل ان لوگوں کی جوتم سے پہلے تھے تم میں سے وہ زیادہ قوت والے تھے اور زیادہ مال واولاد والے تھے۔پس وہ اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیاجیسے تم میں سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اس طرح جداگانہ بحث کی جیسے کہ انھوں نے کی تھی ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت ہوئے یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں۔''
مؤمنین اس دنیا کو عیش کی بجائے مشقت، آزمائش او رامتحان کی جگہ سمجھتے تھے ،کیونکہ انسان کو مشقت میں پیدا کیا گیا ہے۔ (البلد:4) اور عیش صرف جنت میں میسر ہوگا جہاں ہر خواہش پوری ہوگی۔(الفرقان:16) جو کچھ (جنت میں) وہ طلب کریں گے، ان کے لیے حاضر ہے۔(یٰس:57) لہٰذا دنیا میں عیش وعشرت تلاش کرنے کی بجائے مومن اسے جنت کے حصول تک ملتوی کردیتے ہیں اور سادہ زندگی کو اپنے پیغمبرﷺ کی اتباع میں اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں۔ کفار کو جب اقتدار ملتا ہے تو وہ اس زمین کو جنتِ ارضی بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی دوڑ دھوپ دنیا سے زیادہ سے زیادہ تمتع پر مرکوز رہتی ہے اور مؤمنین استخلاف فی الارض کی نعمت ملنے کے بعد نماز، زکوٰۃ کا نظام قائم کرتے اور معروف کی تلقین و منکر کا خاتمہ کرتے ہیں:
﴿ اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ (الحج:41)
''یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم زمیں میں ان کو اقتدار دیں تو یہ پو ری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔''
وہ متاعِ دنیا کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔(الحجر:88) نماز اُنہیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے کہ یہ دین کا ستون ہے اور کفر او راسلام میں حد فاصل ہے۔ اس لیے قرآن میں آتا ہے: ﴿وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِيْ وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِيْ عَلَيْكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (البقرة:150)
''اور جس جگہ بھی آپ ہوں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور جہاں کہیں تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو تاکہ لوگوں کی کوئی حجت تم پر باقی نہ رہ جائے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے۔ تم اُن سے نہ ڈرو، مجھ ہی سے ڈرو تاکہ میں اپنے نعمت تم پر پوری کروں، اس لیے بھی کہ تم راہ ِراست پاؤ۔''
یہ آیت کفر و اسلام میں حد کا تعین کرتی ہے۔ ارشاد ہے اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو: ﴿وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْـَٔلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى (طٰه:132) مؤمنین کو تجارت خرید و فروخت اللہ کی یاد، اقامت ِنماز اور ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی:
﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ الزَّكٰوةِ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ  (النور:37)
'' ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور آنکھیں اُلٹ پلٹ جائیں گی۔''
نماز کے بغیر ایمان معتبر نہیں ہے، اس لیے سورۂ توبہ میں مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی تویہ بھی کہا گیا کہ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کردیں تو اُنہیں چھوڑدو۔ (آيت:5)
نماز اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی مخلوق کا حق ہے۔ ان دونوں حقوق کے بغیر ایمان قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لیے حضرت ابوبکرؓ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف جنگ كی اور فرمايا کہ اگر یہ اونٹ کی رسّی کے برابر زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کریں گے تو ان کے خلاف جنگ ہوگی، اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں ہوسکتی !!
دور ِنبویﷺ کا احیا ہی مطلوب دین ہے!
رسالت مآبﷺ کو حکم دیا گیا :
﴿ وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيْرًا فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا (الفرقان: 51)
''اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک خبردار کرنے والا اُٹھا کھڑا کرتے پس اے نبی ! کافروں کی بات ہرگز نہ مانیئے اوراس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کیجئے۔''
ان آيات ميں بتا ديا گیا کہ قیامت تک کے لیے سرچشمۂ روشنی کے طور پر کل دنیا کے لیے رسالت مآبﷺ کافی ہیں جس طرح ایک سورج سارے جہاں کے لیے کافی ہوتا ہے۔
لاکھ ستارے ہر طرف ظلمت ِشب جہاں جہاں    اک طلوعِ آفتاب دشت و چمن سحرسحر
اہل کفر سے جہاد کے لیے رسالت مآبﷺ کو علومِ عقلیہ اور آلاتِ سائنس کے بجائے قرآن دیاگیا اورکہا گیا کہ اس کو لے کر کفار سے زبردست جہاد کرو۔ عہدِ حاضر کامسلمان اس قرآن کو ایک طرف رکھ کر جہاد کا علمبردار ہے۔ روزِ قیامت اس اُمت سے اللہ تعالیٰ یہ سوال کریں گے کہ اس نے اس ذمہ داری کو کس درجے میں پورا کیا؟
اسی لیے جمعہ کے خطبوں میں دنیابھر کی مساجد میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے کہ «خیر القرون قرني» سب سے بہترین زمانہ عہدِ رسالت کا زمانہ ہے اور سب سے بہترین لوگ السابقون الأولون ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ خیر القرون سب سے بہتر زمانہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خشیت و عبادت ِالٰہی، آخرت کے خوف اور دنیا سے بے رغبتی کے اعتبار سے وہ عہد مثالی و معیاری عہد تھا، جب آخرت غالب تھی اور دنیا غیر اہم۔ کسی دل کو دنیا محبوب و مطلوب نہ تھی، حضرت خالد بن ولیدؓ جیسا سپہ سالار بھی دنیا سے کوئی رغبت نہ رکھتا تھا۔ جب انتقال ہوا تو ترکے میں صرف ایک گھوڑا اور تلوار تھی، وہ بھی اُمت کے لیے وقف فرما دیئے تھے او راس بات کا رنج تھا کہ شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ خیرالقرون کا یہی مطلب ہے کہ دنیا غیر اہم اور مری ہوئی بکری سے زیادہ حقیر اور آخرت ہر شے سے زیادہ اہم ہوجائے، اس یقین کے بغیر اُمّت کا عروج ممکن نہیں۔ ان معنوں میں مسلمانوں کے لیے اُمید و آرزو، روشنی و نور، معیار و وقار و اعتبار اور عظمت و شوکت کی ہر راہ ماضی سے پیوستہ ہوکر عہد ِرسالتﷺ کے مدینۃ النبیؐ سے وابستہ ہوجاتی ہے اوراس اُمت کی ذمہ داری یہ بن جاتی ہے کہ وہ تاریخ کے پہیے کو مسلسل عہدِ رسالت کی طرف موڑنے، خیر القرون سے وابستہ رکھنے او رپیچھے کی طرف بار بار پلٹانے کی کوششوں میں مصروف رہے اور ہر اس حرکت، جدوجہد، کوشش کو ترک کردے جو مارکس، ہیگل اور مغربی فلاسفہ کے کافرانہ فلسفوں کے تحت ارتقا کے تاریخی سفر کے کفر کو عام کرتی ہے۔ تاریخ کے اس جدلیاتی نظریے کے مطابق ہر اگلا دور پچھلے دور سے بہتر ہوتا ہے اور ہر آنے والی نئی نسل گزر جانے والی نسلوں سے بہتر، زیادہ عاقل و بالغ وسیع النظر، اَعلم اور زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہے۔
اسلام اور مغربی تہذیب میں امتزاج ناممکن ہے!
اسلامی تہذیب و تاریخ و علمیّت میں اس قسم کے افکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ عہد رسالت سے بہتر زمانہ اور بہتر دور نہ آسکتا ہے، نہ آسکے گا اور اس دور کا احیا، اس کی جدوجہد، اس روشنی کی جستجو اور جدوجہد کی خاطر زندگی وقف کردینا یہی مطلوب دین ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عہدِ رسالت سب زمانوں سےبہتر ہے تو اس اعتراف و اعلان کا کیا مطلب ہے؟ کیا عہدِ رسالت کا طرزِ معاشرت ،تہذیب، اندازِ نشست و برخاست، سادگی، جمالیات اور سادہ ترین زندگی اب ہمیشہ کے لیے متروک ہوچکے ہیں یا اس کا احیا ممکن ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارا طرزِ زندگی فرعون کا ہو، اور اس طرزِ زندگی میں خیرالقرون کی روحانیت کو داخل کردیا جائے؟ کیادنیا کو ترجیح دینے والے نفس، نظامِ زندگی، معیشت، معاشرت تہذیب وثقافت میں عہدِ رسالت کی روحانیت داخل کی جاسکتی ہے؟
جدید طرزِ زندگی کے اندر اسلام کی روحانیت داخل کرنے کی آرزو محض سادگی کی انتہا ہے لہٰذا جب بھی دنیا پرست طرزِ زندگی دین میں داخل ہوگا اور دین دوسرے دروازے سے رخصت ہونے کے بجائےاس جدید مادی ڈھانچے میں تعمیر و تشکیل کے مرحلے سے گزر کر جدید مادیت کی اسلام کاری کرے گا تو روحانیت اس پیکر مادی سے خود بخود رخصت ہوجائے گی۔ دو مختلف طرز ِزندگی دو مختلف و متضاد مابعد الطبیعیات سےنکلنے والے ادارے، اقدار و روایات، علوم، رویے، اسالیب اور مناہج ایک تہذیب میں نہیں سموئے جاسکتے۔ اس لیے گزشتہ سو برس میں عالم اسلام کے اخلاقی روحانی بحرانوں کا سبب یہی دوئی [Dualism] ہے جس کو جاری رکھنے کی علمی دلیلیں دنیا پرست اہل علم مسلسل دے رہے ہیں۔
نفس پرستی اور نفس کشی کی متضادروایات ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ کیا خیر القرون کے عہد کی کیفیات اس دور کی سادگی اور دنیا سے کم سے کم تمتع کی روایت کے بغیر روحانیت کا منبع کچھ او ربھی ہوسکتا ہے؟
مغرب کی کھوکھلی اور بے چین تہذیب
کیا اس جدید تہذیب و تمدن اور طریقوں کو لفظ بہ لفظ 'ارتقاے زمانہ' کے نام پر اختیار کرلیا جائے جس کے نتیجے میں لوگوں کا زندگی بسر کرنا بلکہ مغرب میں لوگوں کا مرنا بھی ناممکن ہوگیا ہے؟ برطانیہ جیسے ملک میں تدفین کی رسومات پر چار پانچ ہزار پونڈ خرچ ہوتے ہیں لہٰذا اب تدفین کی رسم کے لیے بھی انشورنس متعارف کرایا گیاہے۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں کینسر جیسی کئی موذی اور مہلک بیماریوں کے جدید علاج نے موت کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے۔علاج سے مرنے کے لیے لاکھوں روپے کی ضرورت ہے۔ سات ہزار سال کی تاریخ میں سترہ تہذیبوں میں جہاں کبھی خود کشی کی روایت نہیں رہی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ خود کشی جدید طرزِ زندگی کے طور پر عام ہورہی ہے۔ غربت، معیارِ زندگی کی آرزو ، خوابوں سے بھرپور اَلف لیلوی پرتعیش زندگی، چکا چوند سے معمور ، زرق برق خوابناک طرزِ حیات جو صرف میڈیا پر دکھائی دیتا ہے، جدید ایجادات اور اُن کی اشتہار بازی سے بے شمار مہلک دماغی، جسمانی اور روحانی امراض مسابقت کی دوڑ میں ناکامی کے باعث پیدا ہورہے ہیں۔ان مہلک امراض کے علاج اتنے مہنگے ہیں کہ زندگی بہ خوشی ہار دینا اور خود کشی کرلینا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ جو موت قسطوں میں لاکھوں روپے خرچ کرکے ملتی ہو، جس کے باعث خاندان، جائیداد، عزتیں اور عورتیں سب بک جاتی ہوں مگر مریض پھر بھی صحت مند نہ ہوتا ہو تو سب کے لیے خودکشی کے راستے کھل جاتے ہیں۔ اسی لئے خود کشی عام ہورہی ہے خواہ وہ دنیا کے غریب علاقے ہوں یا امیر خطے، اس کا سبب شاعر عارف شفیق نے صرف دومصرعوں میں بتا دیا ہے: ؏
غریب شہر تو فاقے سے مرگیا ،لیکن امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی
کسی کے پاس کھانے کو روٹی نہیں اور کسی کے پاس کھاکےمرنے کے لیے ہیرا ہے، یہ خدا بے زار معاشروں کا انجام ہے!!
خودکشی صرف غریب آدمی نہیں کررہا، بڑے بڑے اُمرا کررہے ہیں؛ ان یورپی ممالک میں ہورہی ہے جہاں آمدنی اور عیاشی سب سے زیادہ ہے۔ جن کو ہمارے جدیدیت پسند مسلم مفکرین بڑی حسرتوں سے دیکھتے ہیں او رجیسے ہی کسی یورپی ملک سے سفر کرکے آتے ہیں ،فوراً مدح و ثنا کے لیے سفر نامے لکھتے او راسلام سے ٹریفک کا نظام ثابت کرنےلگتے ہیں۔مغرب میں محبت، خاندان،رشتوں، روابط، مذہب، اقدار اور اخلاقیات کی موت کے باعث لوگوں کی زندگی بے معنی[meaningless]ہوچکی ہے۔ اس کو معنیٰ دینے کا طریقہ گینیزبک آف ورلڈ ریکارڈ ہے، مگر زندگی پھر بھی بے معنی ہی رہتی ہے۔ نہ خاندان ، نہ ماں، نہ بیوی نہ بچے، آدمی کس کے لیے جیئے؟ کس کے لیے مرے؟ کس کے لیے قربانی دے؟ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے ہی لیے مرجائے۔ ہائیڈیگر کے الفاظ میں یہ 'فاتحانہ موت' آج مغرب کی پسندیدہ تہذیب ہے جسے تیزی سے مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔
عہد ِحاضر کا سب سے بڑا فلسفی گلزڈلیوز[Gills Delluze]اس عہد کے مسائل پر سوچتے سوچتے پاگل ہوگیا اور وہ ان مسائل کا کوئی جواب نہ دے سکا تو اس نے ہسپتال کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ اسے صدمہ ہے کہ انسان ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔ باپ بیٹی ،ماں اور بیٹے کے رشتوں میں مساوات کے فلسفے کے باوجود ابھی تک احترام قائم ہے۔ یہ تعلقات ابھی تک مکمل ناپاک نہیں ہوئے۔اسے شکایت یہ ہے کہ [Incestuous Relations]عام کیوں نہیں ہوگئے۔ حالانکہ مغرب میں مساوات کے فلسفے کے باعث حقیقی خونی رشتوں میں جنسی جبر کی شکایات عام ہیں۔تاریخ انسانی میں کبھی کسی فلسفی نے اس بےبسی کے ساتھ اپنی جان کانذرانہ پیش نہیں کیا۔ جدید مغربی تہذیب اس کی سائنس، ٹیکنالوجی او راس کے بطن سے پھوٹنے والے مسائل گلزڈلیوز کی خودکشی کا سبب ہیں۔
سوئٹزرلینڈ، ناروے، سویڈن، جرمنی اس وقت عصری تاریخ کے ترقی یافتہ، امیر، سہولتوں سے آراستہ اور جدید فتوحات سے مزین بہت محدود آبادی کے حامل معاشرے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ خودکشی کی شرح انہی خطوں میں ہے تو آخر کیوں؟ مادی ترقی کی معراج پر پہنچنے کے بعد بھی کیا کسی شے کی ضرورت باقی رہ گئی؟
انسان خود کشی کیوں کرتا ہے؟ کیااسے خود کشی کرنی چاہیے؟ خود کشی کیوں کی جاتی ہے؟ فلاسفہ کے یہاں اس پر دلچسپ بحث ملتی ہے۔ کانٹ کے خیال میں انسانی ذہن بارہ حصوں میں منقسم ہے۔ ہیگل کے خیال میں ان کی تعداد 105 ہے۔کانٹ کے خیال میں کوئی عقل مند خودکشی نہیں کرسکتا۔ ہیگل کے خیال میں خودکشی انسان ہی کرتے ہیں، جانور کبھی خود کشی نہیں کرتے۔کیا عہدِ حاضر کا انسان جانور سے بھی گیا گزرا ہے یا خودکشی کوئی قابل فخر کام ہے۔ عہد ِحاضر میں زندگی اتنی اذیت ناک کیوں ہوگئی ہے؟!
زندگی یقیناً اذیت ناک ہے، اس لیے کہ عہد حاضر کے انسان کی آرزوئیں اور تمنائیں میڈیا اور اشتہارات کی صنعت نے بہت بڑھا دی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان Scarcityکے جدید مادی و روحانی بحران کا شکار ہوگیاہے جس کا آخری حل خودکشی ہے۔ جزیرۃ العرب کی سخت ترین زندگی میں شب و روز بسر کرنے والے مشرکین نےکبھی خودکشی نہیں کی مگر عہد ِحاضر کے عیش و عشرت اور سہولتوں میں آنکھ کھولنے والے وحشی اپنی جان پرکیوں کھیل رہے ہیں؟ کیا بنیادی تغیر واقع ہوگیا ہے کہ اونٹ کی جلتی ہوئی پیٹھ پر بیٹھ کر تپتے ہوئے صحراؤں میں کوک پیپسی اورٹیٹرا پیک کے دودھ کے بغیر سفر کرنے والا فرد کبھی زندگی سے بیزار نہیں ہوتا تھا،جب کہ عہد ِحاضر کا عیاش فرد یہ تمام سہولتیں، مراعات، تعیشات، مل جانے کے باوجود مرجانا چاہتا ہے تو کیوں؟ اگر عہدِجدید کے مسلم مفکرین ان باریکیوں ، نزاکتوں سے واقف نہیں تو وہ خطبہ جمعہ سننا ترک کردیں اور اپنے لیے ہیگل کے جدلیاتی افکار پر مبنی دَجل سےنیا خطبہ جمعہ تیار کریں۔ [خود کشی کی تفصیلات کے لیے انٹرنیٹ پربے شمار معلومات میسر ہیں]
سائنس وٹیکنالوجی کے مدح خواں
حسین نصر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر تہذیب کو سائنسی ترقی اس قوم کے دورِ زوال میں ملی، لیکن اس تاریخی تجزیے کو تسلیم کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کی سائنسی ترقی کے دورِ عروج کو ہی اصلا ًدور ِعروج سمجھتے ہیں، اسے زوال کی علامت کے طور پر قبول نہیں کرتے او راس امر پر تعجب کرتے ہیں کہ اس عروج پر زوال کیوں آگیا؟ اور اس زوال سے عروج کے سفر کا راستہ کیسے نکالا جائے؟ یعنی دنیا کی تاریخ میں تمام تہذیبوں اور اقوام میں مسلمان وہ واحد تہذیب ، قوم یا اُمت ہےجس کو سائنسی ترقی دورِ زوال میں نہیں مسلمانوں کے دورِ عروج میں ملی۔ ایک جانب وہ عہدِ عباسی کو عہد ِملوکیت بھی قرار دیتے ہیں، ملوکیت کو تمام گناہوں کی جڑ کہتے ہیں تو دوسری جانب اس ملوکیت سےنکلنے والی سائنس کو عظیم اسلامی سرمایہ تسلیم کرتے ہیں اور اس سرمایے کے دوام کے لیےکوشاں رہنے کو مقصود ِقرآن اور مطلوب رسالت ِمحمدیﷺ قرار دیتے ہیں۔
ملوکیت کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دینا تاریخی طور پر خالص سیاسی مادی اور دور جدید میں خالص مغربی نقطہ نظر سے ہم آہنگ فکر ہے جو جمہوریت اور جدید مغربی تصورِ تاریخ سے برآمد ہوا ہے جس کی عمر تین سو سال سے زیادہ نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کو ملوکیت کی تاریخ سمجھنا ردّعمل کی نفسیات سے برآمد ہونے والا نتیجہ ہے جو جمہوریت کے کفر سے خاص تعلق رکھتا ہے اور حاکمیت ِجمہور کے ذریعے حاکمیتِ الٰہ کے تصور کو جڑ/ بنیاد سے ختم کردیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ نقطہ نظر اپنی تاریخ کا انکار ہے۔ جو ملت اپنی تاریخ کو بالکلیہ ردّ کردے، وہ صحرا میں تنہا کھڑی ہوگی اور سراب کی تلاش میں رہے گی۔
اُمت ِمحمدیہ نے سائنسی علوم کی ترویج کو اپنا مطمح نظر کیوں نہ بنایا!
حسین نصر کے ان تضادات کی تشریح و توجیہ کے لیے ہمیں کچھ او رلکھنے کی ضرورت نہیں، حسین نصر اور مکتبہ روایت سے وابستہ مفکرین اسلامی سائنس کی نہایت عالمانہ اور پرجوش وکالت کے باوجود یہ نہیں بتا سکے کہ مسلمان کا دور ِعروج تو عہد ِرسالت مآبﷺ اور عہدِ خلافتِ راشدہ ہے اور بلا شبہ خیرالقرون ہے،لیکن اس عظیم عہد اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے زرّیں ادوار میں سائنس کی ترقی کے لیے کیا لائحۂ عمل مرتب کیا گیا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ خیرالقرون سائنس کی عظیم ترقی سے کیوں خالی رہا؟ کیا علومِ نقلیہ، روحانیت اور شعورِ ایمانی کے مقابلے میں علوم عقلیہ کی ذرہ برابر بھی وقعت نہیں تھی۔ کبار صحابہ کرامؓ میں کتنے سائنس داں تھے، سائنس کے بغیر ہی مسلمانوں نے تین برّاعظموں کو کیسے فتح کیا؟
اُمت ِمسلمہ کا اصل کردار وہ ہے جب وہ مادی طور پر نہایت ہلکی اور اخلاقی و روحانی طور سے سب پر فضیلت کی حامل تھی یا وہ دور جب اسے دنیا میں مادی طور پر برتری حاصل ہوگئی تھی۔ اگر مادی دور بہتر تھا تو اسی دور میں تاتاریوں جیسی کمزور قوم نے اُنہیں کیسے شکست دے دی؟ او راندلس عظیم سائنسی ایجادات کے باوجود اپنا تحفظ کیوں نہ کرسکا کہ وہاں کوئی مسلمان باقی نہ بچا؟
یہ سوال اہم ہے کہ ہمسایہ اقوام کی مادّی ترقی ،تہذیب، سائنس اورتعمیرات سے اُمّ القریٰ کے مسلمان کیوں مرعوب و متاثر نہ ہوئے؟ اور مدینۃ النبیؐ میں ان فنون اور علوم ِعقلیہ کی درآمد میں کیا امر مانع رہا؟ اس سوال پربھی غور کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہمسایہ اقوام کے علومِ عقلیہ اور محیر العقول فلسفہ و سائنس سے اگر مرعوب ہوجاتے تو کیاوہ روم و ایران کو فتح کرسکتے تھے؟ رومی اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ایران کو فتح نہ کرسکے، لیکن مسلمانوں نے نہ صرف سرزمین ایران کو فتح کرلیا بلکہ اس خطے کے لوگوں کے قلب بھی تسخیر کرلیے اورعظیم الشان رومی سلطنت کا بھی خاتمہ کردیا۔ مسلمانوں کے پاس روم و ایران کی سائنس و ٹیکنالوجی کے مقابلے میں صرف ایمان کی قوت تھی۔ ان قوتوں کا خاتمہ کرنے والے ان ختم ہونے والی سلطنتوں کی مادی ترقی ، علومِ عقلیہ کے مقابلے میں کس حیثیت او رکس مقام کے حامل تھے، اس کے لیے تمام مروّجہ تاریخوں کا مطالعہ کرلیا جائے۔
قرآن اور صاحبِ قرآن پر اعتراضات کی روش
کفارِ مکہ جب ایک اُمّی رسولﷺ کے معجزانہ کلام کے سامنے عاجز رہ گئے تو اُنہوں نے یہ اعتراض کیا تھا:
﴿ وَ قَالُوْۤا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا (الفرقان:5)
''یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں۔''
صرف یہی نہیں بلکہ کفار کو یہ اعتراض تھا کہ یہ کیسا پیغمبر ہے جس کے ساتھ فرشتوں کےلشکرنہیں، جو ہماری طرح بازاروں میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور ہم سے ہم کلام ہوتاہے۔ اسے علم، مال، دولت، شان و شوکت یعنی مادی طور پر کسی بھی شے میں ہم پربرتری حاصل نہیں۔ یہ مادہ پرست جس چیز کو علم سمجھتے ہیں اور جس منہاجِ علم میں کھڑے تھے، وہاں دنیا اور اُمورِ دنیا سے متعلق علوم یعنی علومِ عقلیہ اور مال و دولت ہی راس العلم تھا۔ وہ پیغمبر کو عام انسانوں کی طرح عام لوگوں کے ہم رکاب دیکھتے تھے تو اُنہیں حیرت ہوتی تھی۔
ان کا یہ اعتراض بظاہر درست تھا ،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو مافوق الفطرت تصور کرتے تھے۔ جنات کے ساتھ انکے تعلق کی نوعیت اور ان کے اکرام کے واقعات جو تاریخ عرب اور کلام عرب ملتے ہیں، اس نقطہ نظر کی تشریح میں معاون ہوسکتے ہیں:
﴿ وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًاۙ اَوْ يُلْقٰۤى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا (الفرقان:7، 8)
''یہ کیسا رسول ہے جوکھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں) کو دھمکاتا؟ یا اور کچھ نہیں تو اس کے لیے کوئی خزانہ ہی اُتار دیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی) روزی حاصل کرتا۔اور ان ظالموں نے کہا کہ تم ایسے آدمی کے پیچھے ہو لیے ہو جس پرجادو کر دیا گیاہے۔''
﴿ وَ قَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا (الفرقان:30)
''اے میرے ربّ !میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیا تھا۔''
یہ آیت صرف عہدِ رسالت ؐ کے کفار مشرکین کے لیے نہیں ہے، اس عہد کے جدیدیت پسند مسلمانوں کے لیے بھی ہے جنہوں نے اس قرآن کی تضحیک کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ قرآن کے معنیٰ Hermenetiesسے معین ہوں گے، کبھی کہتے ہیں کہ کلام عرب سے اخذ ہوں گے، کبھی کہتے ہیں کہ اس کے جو معنی عہد رسالت میں تھے، اب وہ نہیں ہیں۔
ان میں جوبہت زیادہ جری ہیں ان کو شکوہ ہے کہ اس قرآن کو لے کر ہم کیا کریں، اس میں نہ سائنس ہے، نہ سوشل سائنس، نہ منطق۔ اس کی آیات سے نہ ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں، نہ ہوائی جہاز، یہ قرآن عہدِ حاضر میں کسی کام کا نہیں ہے۔ نعوذباللہ، دوسری جانب معذرت خواہ سادہ لوح اور جاہل مفکرین اسی قرآن سے تمام مغربی، مادی، عقلی اور سائنسی علوم کو ثابت کررہے ہیں۔ مگر اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ عجیب بات ہے کہ قرآن تمہارے پاس تھا او رقرآن میں مستور و مخفی تمام علوم کافروں کو مل گئے جن میں سے کسی ایک سائنس دان نے کبھی بھول کر قرآن نہیں پڑھا او رنہ قرآن کے ذریعے کوئی سائنسی فارمولا دریافت کیا!!

No comments:

Post a Comment