Wednesday, 2 March 2011

Cloning taaruf wa tajziya (Online Books)

کلوننگ۔ تعارف وتجزیہ

                                                                                                                                                                               ڈاکٹر نثار اَحمد
عمل تخلیق (Reproduction) کے دو طریقے ہیں؛ ایک فطری اور دوسرا سائنسی (ٹیسٹ ٹیوب بے بی؍ سروگیٹ مدر اور کلوننگ):
فطری طریقہ تخلیق میں نرو مادّہ کے نطفوں کے ملاپ کے بعد تخلیق کا عمل شروع ہوجاتا ہے جبکہ سائنسی طریقہ تخلیق میں نرومادہ کے نطفوں کو رحم سے باہر مصنوعی طریقے سے ملا کر بعد میں رحم میں ڈال دیا جاتاہے زیر نظر مقالہ میں غیر فطری طریق تخلیق میں سے صرف کلوننگ (Cloning) کی وضاحت کی جائے گی لیکن اس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے فطری طریقہ تخلیق کی وضاحت کر دی جائے۔



فطری طریقۂ تخلیق
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو کسی نہ کسی شکل میں جوڑا پیدا کیا ہوا ہے اور یہی جوڑے کسی نوع کی نسل کو برقرار رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ نرومادّہ کی تخصیص بعض انواع میں توبالکل واضح ہوتی ہیں جبکہ بعض انواع کے ایک ہی جسم میں نرومادہ دونوں خصوصیات ہوتی ہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (وَمِنْ کُلِّ شَيْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ) ''اور ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے تاکہ تم غور کرو۔'' (سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لاَ يَعْلَمُوْنَ)''پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے بنائے جو زمین میں اُگتے ہیں اور خود ان کے نفسوں میں بھی کہ جن کی ان کو خبر نہیں۔''
انسانی تخلیق کے لئے بھی مرد و عورت کے نطفوں یعنی بیضہ (Ovum) اور منوی خلئے (Sperm Cells) کا ہونا ضروری ہے۔ مرد و عورت کے نطفے جب باہم ملاپ کر لیتے ہیں تو اسے قرآن کریم کی اصطلاح میں نطفۃ أمشاج اور سائنسی اصطلاح میں Zygote (بارآور بیضہ) کہتے ہیں۔ جدید طبی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ مردانہ نطفہ (منی) میں ۲۰ تا ۵۰ کروڑ سپرم خلئے ہوتے ہیں اور ان میں سے تقریباً اکثر منوی خلئے ایک مکمل انسان بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن کروڑوں تولیدی خلیات (Sperm Cells)میں سے صرف ایک خلیہ عورت کے بیضے (Ovum) کو بارآور بنا کر تخلیق (Reproduction) کا عمل شروع کردیتا ہے اور باقی تمام خلئے مرجاتے ہیں۔
خلیہ کی دریافت (Cell Discovery)
تولیدی خلئے کی بیضہ کو بارآور بنانے کی معلومات خلئے (Cell) کی دریافت کے بعد کی ہیں۔ خلیہ کی دریافت سے قبل انسانی تخلیق کے بارے میں انسانی معلومات صرف مفروضات پر مبنی تھیں۔ خلئے کی دریافت نے علم الأجنّۃ(Embryology) میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا، جب پہلی بار یہ پتہ چلا کہ خلیہ (Cell) ایک حیاتیاتی اِکائی ہے یعنی تمام حیوانات کی زندگی کی ابتدا ایک خلئے سے ہوتی ہے۔ خلئے کی دریافت سے یہ پتہ چلا کہ نباتی یا حیوانی جسم کا پودا خلیوں (Cells) سے بنا ہوا ہے۔ اگرچہ رابرٹ ہک (Robert Hooke) نے ۱۶۶۵ء میں پہلی بار خلئے کا مشاہدہ کیا تھا لیکن متھیاس شلیڈن (Mathias Schleiden) نے ۱۸۳۸ء میں نباتات کے خلئے کا پتہ چلایا۔ اس کے ایک سال بعد ۱۸۳۹ء میں تھیوڈر شوان(Theodor Schwann) نے حیوانات کے خلئے(Animal Cell) کا پتہ چلایا۔ ان دونوں کی دریافت سے علم الأجنۃ (Embryology) ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوئی اور اس سے علم کے دو نئے شعبوں علم الخلیات (Cytology)اور خوردبینی علم الاعضا (Histology) کی بنیاد پڑی۔
خلیہ (Cell)
خلیہ تمام حیوانات اور نباتات کے اجسام کی بنیادی اکائی ہوتی ہے اور زندگی کے تمام افعال خلیوں کے اندر سرانجام پاتے ہیں۔ خلئے اپنی جسامت اور شکل کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض اتنے چھوٹے کہ عام خوردبین سے بھی نظر نہیں آتے اور بعض اتنے بڑے کہ عام انسانی آنکھ سے بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔
کروموسوم (Chromosomes)
ہر خلئے کے اندر مرکزہ (Nucleus) میں دھاگے کے مانند چھوٹے اجسام ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹے اجسام کروموسوم کہلاتے ہیں۔ ان کروموسوم کو صرف خلئے کی تقسیم کے وقت دیکھا جاسکتا ہے اور جب خلیہ حالت ِاستقرار (Inter Phase) میں ہوتا ہے تو یہ کروموسوم مرکزہ (Nucleus) میں بہت باریک دھاگوں کی شکل میں پڑے رہتے ہیں۔
جین (Gene)
جینز (Genes) کروموسوم میں تسبیح کے دانوں کے مثل قطار میں پڑے ہوئے ننھی منھی مخلوق کا نام ہے جو خصوصیات کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ساخت کے اعتبار سے جینز ایک خاص قسم کے اُس 'مالکیول' کا حصہ ہوتے ہیں جسے DNA کہا جاتا ہے۔ ایک خلئے میں DNA کے اربوں یونٹ ہوتے ہیں۔ (۱۰) جین جو DNA کا حصہ ہوتا ہے، وہ ایک پیام رساں آر این اے (Messenger RNA) کے ذریعے پروٹین کے ایک پولی پپٹائیڈ(Polypeptid) کے سلسلے کے کیمیائی عمل (Synthesis) کو چلاتا ہے۔ یوں تو بہت سارے سائنسدانوں نے جین کی تعریفیں کی ہیں لیکن ان میں ولیم بوائڈ (William Boyd) کی تعریف بہت جامع ہے، وہ لکھتے ہیں:
"Genes are biochemical of biologicl information from one gereation to the next"  ''جین کیمیائی طور پر حیاتیات کی معلومات کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔''
گویا جینز امتیازی خصوصیات کی وراثت کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ... 'وراثت' کی بحیثیت ِمجموعی یوں تعریف کی جاسکتی ہے : "Heredity is the process of the perpetuation of the specics" یعنی ''وراثت کسی نوع کی بقا یعنی آگے چلنے کے عمل کا نام ہے۔''
مجامعت کے بعد مردانہ نطفہ میں سے چند سو منوی خلئے، زنانہ نطفہ (بیضہOvum) کی تلاش میں رحم سے ہوتے ہوئے قناۃ المبیض (Fallopian Tube) کے اندر بیضے کو پالیتے ہیں اور ان چند سو منوی خلیوں میں سے صرف ایک منوی خلیہ بیضہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس بیضے کو بار آور بنا دیتا ہے۔ اس بار آور بیضے (Fellopian Ovum) کو طبی اصطلاح میں زایگوٹ (نطفۂ أمشاج) کا نام دیا گیا ہے۔
زایگوٹ کے تقسیم در تقسیم کا عمل (Initiation of Cleavage)
جب بار آور بیضہ (زایگوٹ) قناۃ المبیض سے رحم کی طرف سفر شروع کردیتا ہے تو اس کی جفت تقسیم شروع ہوجاتی ہے۔ یعنی پہلے ایک سے دو، پھر دو سے چار پھر چار سے آٹھ ... خلیات کی تقسیم کے اس عمل کو مائی ٹوٹک ڈویژن (Mitotic Divesion)یا کلیویج (Cleavage) کہا جاتا ہے۔ جب اس زایگوٹ میں خلیوں کی تعداد ۱۶ ہوجاتی ہے تو اب اس کو مرولہ (Morula) کہا جاتا ہے۔ عام طور پر مرولہ بارآوری کے تین دن بعد بن جاتا ہے۔یہ بارآور بیضہ مزید دو دن تک رحم کے اندرونی حصہ یوٹرائن کیویٹی (Utrine Cavity) میں پڑا رہتا ہے۔ بارآوری کے پانچویں یا چھٹے دن یہ بارآور بیضہ جدارِ رحم (Endometrium) سے چپک جاتا ہے اور پھر رحم مادر میں نشوونما کے مزید مختلف مراحل سے گزر کر ایک خوبصورت بچے کی شکل میں اس دنیا میں نمودار ہوجاتا ہے (فَتَبَارَکَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ) 
رحم مادر میں انسانی جنین (Embryo) کے فطری طریقہ تخلیق کے مراحل کو بالاختصار سمجھنے کے بعد قارئین کے لئے اب سائنسی طریقہ تخلیق یعنی کلوننگ (Cloning) کو سمجھنا نسبتاً آسان ہوجائے گا۔
کلوننگ (Cloning) کیا ہے؟
کلون (Clone) کے لفظی معنی ہم شکل اور مماثل کے ہیں۔اور کلوننگ سے مراد تخلیق کا وہ غیر فطری طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک ہی طرح کے حیوانات یا ان کے اعضا جزوی یا مکمل طور پر کثیر تعداد میں بنائے جاسکتے ہیں ۔ گویا کلوننگ جینیاتی ٹیکنالوجی کی وہ قسم ہے جس میں سالمہ(Molecule) یا جانور یا پودوں کی بہت ساری نقول بنائی جاسکتی ہیں۔ کلون ہمیشہ ایک دوسرے کی ہوبہو کاپیاں ہوتی ہیں۔ عام طور پر ایسے انسانوں؍ جانوروں یا پودوں کو کلون کرنا مقصود ہوتا ہے جو غیر معمولی خصوصیات کے حامل ہوں۔
کلوننگ ایک سائنسی اصطلاح ہے جو گذشتہ پچاس سال سے سائنسدانوں کے ہاں استعمال ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس اصطلاح کو عوامی سطح پر اس وقت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی جب ۲۳؍ فروری ۱۹۹۷ء کو روزنامہ 'آبزرور' میں شہ سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی کہ سکاٹ لینڈ کے 'روزلن انسٹیٹیوٹ' کے سائنسدانوں نے ایک عام جسمانی خلئے (Somatic Cell) کی کلوننگ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور کلون اور کلوننگ کا لفظ سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے زبانوں پر بھی استعمال ہونے لگا۔
کلوننگ کا تاریخی پس منظر
1 ۱۹۵۰ئ: اس سال پہلی باربیل کے نطفہ کو 79c پر منجمد کرکے دوسری گائے میں منتقل کیا گیا۔
2 ۱۹۵۲ئ: رابرٹ برگز(Robert Briggs) اور تھامس کنگ (Thomas King) نے مینڈک کے لاروے کے خلیوں سے پہلا حیوانی کلون بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔
3 ۱۹۷۸ئ: پہلی ٹیسٹ ٹیوب بے بی لوئسی(Louise)پیدا ہوئی۔
4 ۱۹۸۳ئ: متبادل ماں (Surrogate) کے رحم میں پہلی بار انسانی جنین (Embryo) کو کامیابی سے منتقل کیا گیا۔
5 ۱۹۸۵ئ: ریلف برنسٹر (Ralph Brinster) لیبارٹری میں پہلا ٹرانس جنگ 'سور' پیدا کیا گیا جو انسانی نشوونما کے ہارمون بناتا تھا۔
6 ۱۹۹۳ء :جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی ایک ٹیم انسانی جنین کا کلون تیار کرنے میں کامیاب ہوئی
7 ۱۹۹۳ء : ہیل (Hall) اور سٹل مین (Still Man) نے پہلی دفعہ مصنوعی طریقے پر نمو کے مراحل طے کرنے والے جنین (Embryo) کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور ان سے جڑواں بچے پیدا کئے۔
8 ۱۹۹۶ئ: ایک ۶۰ سالہ عورت نے اپنے رحم میں اپنی بیٹی کے جنین (Embryo)کو رکھ کر اس کو جنم دیا۔
9 ۱۹۹۶ئ: روزلن انسٹیٹیوٹ سکاٹ لینڈ میں بھیڑ کے جنین کے خلیوں میں سے مرکزہ نکال کر دوسری مادہ بھیڑ کے بیضوں میں منتقل کیا گیا۔اس عمل کے نتیجے میں دو بھیڑیں بنام میگن (Megan) اور مورگن(Morgan) پیدا ہوئیں۔
10 ۱۹۹۷ئ: سکاٹ لینڈ کے اس انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے بھیڑ کے پستانوں کے خلیوں میں سے مرکزہ نکال کر اسی سے اس کی ہم شکل بھیڑ پیدا کی۔ جس کا نام 'ڈولی' (Dolly) رکھا گیا۔
(11) ۱۹۹۷ء : امریکہ کی ایک تحقیقی ٹیم نے ڈان وولف (Don Wolf) کی سربراہی میں بندروں کے جنین کے خلیوں میں سے مرکزہ نکال کر بندریا کے بیضوں میں منتقل کیا اور اس کے نتیجے میں دو ہم شکل (Clone) بندر پیدا ہوئے۔
کلوننگ کے مختلف طریقے
آج کل سائنسدان کلوننگ کیلئے تین مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں:
1 بالغ ڈی این اے کلوننگ (Adult DNA Cloning)
2 جنین کلوننگ(Embryo Cloning)
3 معالجاتی کلوننگ(Theraputic Cloning)
1 بالغ ڈی این اے کلوننگ (Adult DNA Cloning)
بالغ ڈی این اے کلوننگ سے مراد وہ عمل ہے جس میں ایک بیضہ یا جنین (Ovum/Embro) سے اس کا DNA الگ کردیا جاتا ہے اور ایک بالغ جانور؍انسان کے جسمانی خلیہ (Somatic Cell) کا DNA اس کی جگہ لگا دیا جاتا ہے اور پھر اس بیضے؍ جنین کو جسمانی خلئے کے DNA کے ساتھ نمو کے مراحل سے گزارا جاتا ہے ۔ ڈولی (Dolly) نامی بھیڑ کی کلوننگ کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔
اگرچہ عمل تخلیق(Reproduction)کے لئے نرومادّہ کے نطفے ہی استعمال ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر خلئے میں بالقوہ یہ استعداد رکھی ہوئی کہ مناسب ماحول ملنے پر اس جسمانی خلئے (Somatic Cell) سے بھی ایک مکمل انسان وجود میں آسکتا ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا ایک عجیب نظام ہے کہ صلاحیت کے باوجود جسمانی خلئے (Somatic Cell) ایک خاص کیمیاوی پروگرام کے تحت ایک مخصوص کام سرانجام دیتے ہیں اور باقی خصوصیات ان میں عملاً خاموش رہتی ہیں۔ اگرچہ کچھ عرصہ قبل تک اکثر سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ایسے مخصوص خلیات (Differentiated) کو پھر واپس (Un-Differentiated) والی حالت پر نہیں لایا جاسکتا تاکہ یہ ایک بار آور بیضہ کی طرح عمل تولید شروع کرسکیں۔
ڈولی (Dolly) کی کلوننگ بذریعہ بالغDNA
ڈولی کی کلوننگ کا عمل روزلن انسٹیٹیوٹ، سکاٹ لینڈ میں تیار کیا گیا ہے ۔ڈولی کے لئے کلوننگ کے تجربات ڈاکٹر آئن ولمٹ(Dr. Ian Wilmut) اور ڈاکٹر کیتھ کیمبل (Dr. Keith Campbell) کی زیر قیادت ایک ٹیم نے انجام دیے۔اگرچہ بظاہر کلون تیار کرنا آسان نظر آتا ہے مگر سائنسدانوں کی اس ٹیم کو بڑے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس کے لئے اس ٹیم نے ۲۷۷ دودھ (پستان) کے غدود کے خلئے بھیڑ کے بیضوں سے ملانے کی کوشش کی۔ ان ۲۷۷ دودھ کے غدود کے خلیات میں سے صرف ۲۹ خلیوں کی تقسیم کا عمل شروع ہوا۔۶ دن بعد یہ تمام بارآور بیضے  مختلف بھیڑوں کے رحموں میںمنتقل کئے گئے۔ ان ۲۹ بارآور بیضوں میں سے صرف ۱۳ سروگیٹ بھیڑیں حاملہ ہوگئیں۔ ۱۳ بھیڑوں میں سے بھی صرف ایک بھیڑ بچہ جننے کی قابل ہوئی، پیدا ہونے والی بھیڑ کے بچے کا نام ڈولی رکھا گیا۔ یہ نام ملک کی مشہور مغنیہ ڈولی پارٹن کے نام سے منسوب کیا گیا۔ ڈولی کی پیدائش کا اعلان ۲۳؍ فروری ۱۹۹۷ء کو کیا گیا جب کہ اس کی عمر سات ماہ کو پہنچ چکی تھی۔ اعلان کے مطابق ڈولی ۴؍ جولائی ۱۹۹۶ء کودن کے چار بجے پیدا ہوئی اور پیدائش کے وقت اس کا وزن ۶ئ۶ کلوگرام تھا۔
بعض نامور سائنسدانوں کو یہ خدشہ تھا کہ آیا ڈولی بچے پیدا کرنے کے قابل ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ بعض کلون شدہ مینڈک بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
ہرخلئے کی زندگی کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے اور اس دائرے کی تکمیل کے بعد وہ خلیہ خودبخود مرجاتا ہے۔ چونکہ ڈولی ایک چھ سالہ خلئے کی بالغ ڈی این اے سے پیدا کی گئی اور اس خلئے کو واپس زیروپوزیشن پر نہیں لایا گیا تھا۔ اس لئے یہ خطرہ ہے کہ ڈولی کی عمر اپنی طبعی عمر سے چھ سال کم ہوگی کیونکہ جس خلئے سے ڈولی کی تخلیق ہوئی ہے، وہ چھ سال کی عمر پہلے ہی مکمل کرچکا تھا ہے لیکن ان خطرات کا تسلی بخش جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔
کلوننگ کے مزید تجربات : ڈولی کی پیدائش کے بعد بعض سائنسدانوں کو کلون بنانے کا خبط ہوگیا اور وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں کلون بنانے پر صرف کرنے لگے۔
۲۲ جولائی ۱۹۹۸ء کو ہوائی یونیورسٹی کے ڈاکٹر یناگی مچی(Dr. Yanagi Machi) نے چوہوں کے ۲۲ کلون بنانے کی کامیابی کا اعلان کیا۔
۹ دسمبر ۱۹۹۸ء کو جاپان کے سائنس میگزین میں یہ خبر چھپی کہ (Kinki) یونیورسٹی، نارہ (جاپان) میں ایک گائے کی بالغ ڈی این اے سے آٹھ کلون گائے پیدا کئے گئے، جن میں سے چار تو پیدا ہوتے ہی مرگئے جبکہ باقی چار زندہ رہے۔
۲۰۰۰ء میں دودھ دینے والے حیوانات کی آٹھ اقسام کاکلون کیا جاچکا ہے جن کی تعداد ۲ سے ۵ ہزارکے درمیان ہے۔
2 جنین کلوننگ (Embryo Cloning)
جنین کلوننگ (Embryo Cloning)کو مصنوعی طریقے پر جڑواں بچے پیدا کرنے کا عمل بھی کہا جاتا ہے۔ جنین (Embryo) کی کلوننگ ایک معیاری ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریقہ کار سے شروع ہوتی ہے۔ کلوننگ اس طریقہ کار سے بہت مشابہ ہوتا ہے جس سے قدرتی طور پر جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں مینڈک اور چوہے شامل ہیں۔ تاہم انسانی جنین (Human Embryo) پر یہ تجربات بہت محدود ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ قدرتی طور پر کئی مرحلے32 Cell Stage)) تک کامیابی سے پہنچائے گئے ہیں لیکن اس کے بعد ان خلیات کی مزید تقسیم نامعلوم وجوہات کی بنا پررک گئی۔
رابرٹ سٹل مین اور اس کی ٹیم کے دوسرے سائنسدانوں نے اکتوبر ۱۹۹۴ء میں بارآور بیضہ کو کامیابی کی ساتھ الگ (Split) کرنے میں کامیاب ہونے کا اعلان کیا۔ اخلاقی اقدار کی پامالی سے بچنے کے لئے محققین نے صرف ان بار آور بیضوں کو اپنے تجربات کے لئے منتخب کیا جن کے مکمل جنین بننے اور پیدا ہونے کے امکانات بالکل نہ تھے۔
3 معالجاتی کلوننگ (Theraputic Cloning)
کلوننگ کی تیسری قسم معالجاتی کلوننگ کہلاتی ہے، معالجاتی کلوننگ کے ابتدائی مراحل وہی ہیں جو بالغ ڈی این اے (Adult DNA) کے ہیں اور جس کے نتیجے میں بننے والے جنین (Embryo) کو ۱۴ دنوں تک کے لئے بڑھنے دیا جاتا ہے۔ 'معالجاتی کلوننگ' کسی بیمار شخص کے جسم سے بالغ ڈی این اے لے کر مصنوعی طریقے پر اس سے مکمل عضو یا اعضا (دل، لبلبہ، جگر وغیرہ) بنا کر اس بیمار شخص کے جسم میں اس کی پیوندکاری کرنے کے عمل کا نام ہے۔معالجاتی کلوننگ اگرچہ ابھی تک تصوراتی ہے تاہم سائنسدان اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برابر تحقیق میںلگے ہوئے ہیں اور کسی حد تک اس کی ابتدائی مشکلات پر قابو بھی پالیا گیا ہے۔ معالجاتی کلوننگ میں وہ جنین استعمال ہوگا جس کے لئے جسمانی خلیہ Somatic Cell)) کا مرکزہ استعمال کیا گیا اور پھر اسی جنین کے ابتدائی خلیات (Stem Cells) حاصل کئے گئے ہوں۔اگرچہ ابھی تک کسی لیبارٹری یا کلینک میں معالجاتی کلوننگ کے ذریعے کوئی انسانی عضو نہیں بنایا جاسکا لیکن مستقبل میں اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ابتدائی تجربات اور ان تجربات کے بنیادی خدوخال لئے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں:
ممکنہ طریقہ کار
1 کسی بیمار شخص کے بدن کے خلیہ(Somatic Cell) سے DNA حاصل کرنا۔
2 یہ حاصل شدہ ڈی این اے جنین (Embryo) کی اپنی DNA کی جگہ ڈالا جانا اور جنین کا اپنا DNA الگ کرنا۔
3 دو ہفتے تک اس جنین کو ایک مخصوص ماحولمیں رکھنا تاکہ اس کی نشوونما شروع ہوسکے۔
4 اب جنین کے ابتدائی خلئے (Stem Cells) نکال دیئے جاتے ہیں ۔یہ مرحلہ نہایت خطرناک ہوتا ہے اور اس میں اکثر جنین مرجاتے ہیں۔
5 اس کے بعد حاصل شدہ خلیات (Stem Cells) سے مطلوبہ عضو بنانے کے لئے ان کوایک خاص میڈیم میں رکھا جاتا ہے۔ ۹۰ حمل میں سے ایک حمل کا بارآور بیضہ (Two Cell Stage) پر جدا ہوکر مشابہ جڑواں بچے (Mono Zygotic) پیدا کرتے ہیں۔ اس قسم کے بچوں کا جنسیاتی مادہ ایک دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے۔
خود اللہ تعالیٰ فطری طریقے پر کلون بنانے والی سب سے بڑی ذات ہے، جس سے گاہے بگاہے قدرتی طور پر مشابہ جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ جنین کلوننگ (Embryo Cloning) میں یہی طریقہ انسانی تدبیر کے ساتھ ارادتاً لیبارٹری میں دہرایا جاتا ہے۔
انسانی جنین کی کلوننگ کا طریقہ کار(Procedure for human embryo)
1 ایک نسوانی بیضہ اور مردانہ نطفہ (سپرم سیل) کو شیشے کی ایک مخصوص پلیٹ (Petri Desh)میں مصنوعی طریقہ پر ملا دیا جاتا ہے۔
2 دونوں کے ملنے کے بعد بارآور بیضہ (Fertilized Ovum) کو تقسیم کے آٹھ سیلز (Blastule Stage) کے مرحلے تک بڑھنے دیا جاتا ہے۔ خلیات کی یہ تقسیم جفت ہوتی ہے یعنی دو سے چار پھر چار سے آٹھ، پھر آٹھ سے سولہ ...
l بلاسٹولہ مرحلے پر اس شیشے کی پلیٹ میں ایسا کیمیائی مواد ڈالا جاتا ہے جس سے زونا پیلوسیڈا(Zona Peloseda) کی جھلی خلیہ سے الگ کرنے کے ساتھ خلیوں کو غذائیت بھی فراہم کرتی ہے۔
3 زونا پیلوسیڈا الگ ہونے کے بعد تمام خلیات الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ پھر ہر خلیہ کو الگ (Petri Desh) میں ڈال دیا جاتا ہے۔
4 ہرخلیہ (بارآور بیضہ) الگ (Petri Desh) میں ڈالنے کے بعدان پر ایک بار پھرزونا پیلوسیڈا کی جھلی مصنوعی طریقے سے چڑھائی جاتی ہے اور ایک بار پھر ان کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارنے کے لئے کیمیائی مواد ڈالا جاتا ہے۔
5 سٹل مین (Still Man) اور اس کی ٹیم کے تجربات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جنین کلوننگ کے بہترین نتائج اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب بارآور بیضہ (Zygote)کو دو خلیات کے مرحلے یعنی (Stage Two Cell) پر الگ کرکے کلوننگ کا عمل شروع کیا جائے۔
6 بارآور بیضہ (Fertilized Ovum) کے یہ بہت سارے جوڑوں کو تقسیم کے عمل کے ذریعہ ۳۲ خلیات میں یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ مناسب نشوونما پاسکے۔ (Stem Cells) خلیات کی ایک نادر قسم ہے جو کہ (Theoretically) انسانی اعضا اور بافت (Tissues) کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔
نتیجتاً بننے والا مطلوبہ عضو یا بافت مریض کے جسم میں پیوندکاری عمل کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔
رکاوٹیں
1 Stem Cell کا جنین سے کامیابی کے ساتھ حصول اور پھر لیبارٹری میںاس کی نشوونما۔(یہ مرحلہ لیبارٹری میں کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کوپہنچ چکا ہے)
2 Stem Cellکو مطلوبہ بافت کی شکل اختیار کرنے کے لئے مائل کرنا۔ اب تک انسانی بدن کے تقریباً ۲۲۰ قسم کے خلیات میں سے اکثر کو مائل کیا جاچکا ہے۔
3 بافت یا اعضا کے بننے کے بعد مریض کا جسم اس نئے عضو یا بافت کو قبول کرے۔کیونکہ مریض کا جسم اگر اس نئے عضو کو قبول کرنے سے انکار کردے تو پھر مریض کے لئے خطرے کا باعث ہوگا۔
ممکنہ فوائد
اگر معالجاتی کلوننگ کا طریقہ کار کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو جان بلب مریضوں کے لئے ہو بہو جینیاتی لحاظ سے مشابہ اعضا وافر مقدار میں مہیا ہوسکیں گے اور یوں بے شمار جان بلب مریضوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکے گا۔
1 ذیابیطس کے مریضوں کے لئے انسولین پیدا کرنے والے خلیات کی کلوننگ
2 فالج اور رعشہ کے مریضوں کے لئے اعصابی خلئے (Nerve Cells) کی کلوننگ
3 بیمار جگر کے مریضوں کے لئے جگر کے خلیوں کی کلوننگ
کیا اب تک کسی انسان کو کلون کیاجاچکا ہے؟
جارج واشنگٹن میڈیکل سنٹر کے رابرٹ جے سٹل مین (R.J.Still man) اور اس کی ٹیم نے انسانی کلون بنانے میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ اکتوبر ۱۹۹۴ء میں انہوں نے انسانی بیضے کو توڑنے (Split) میں کامیابی حاصل کرلی، تاہم انہوں نے اپنے تجربات کے لئے نقص والے انسانی جنین کا انتخاب کیا تھا۔ جس پر انہوں نے اپنے ابتدائی تجربات کئے، لیکن نقص کی بنا پر بارآوری کے چند دن بعد ان کو ضائع کردیا۔ اسی طرح کوریا کے (Kyeon Ghee) یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ۱۴؍ دسمبر ۱۹۹۸ء کو انسانی کلوننگ میں کامیابی کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایک خاتون کا بغیر مرکزے والا بیضہ (Ovum) لے کر اسی خاتون کے جسم کے ایک خلئے (Somatic Cell) کے ساتھ جوڑ لیا اور پھر اس بارآور بیضہ کو تقسیم در تقسیم کے چوتھے مرحلے (4th Cell Stage) تک کامیابی حاصل کرلی۔ لیکن عوامی ردّعمل کی بنا پر اس انسانی جنین کو رحم مادر میںرکھنے سے اجتناب کیا اور اسے ضائع کردیا۔
گذشتہ سال(جنوری ۲۰۰۳ئ)فرانس نے کلوننگ کے ذریعے پہلی بچی پیدا کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے، جس کی تحقیقات جاری ہیں کہ آیا یہ صرف دعویٰ ہے یا حقیقت؟
انسانی کلوننگ ... مضمرات
ڈولی کی پیدائش نے جہاں سائنس کی دنیا میں ہلچل مچا دی، تاکہ سائنسدان اپنی مرضی کے مطابق غیر معمولی خصوصیات رکھنے والے جانور پیدا کرسکیں، وہاں یہ خطرہ بھی پیدا ہوا کہ کہیں سائنسدانوں کی تحقیق کا رُخ انسانوں کی طرف نہمڑ جائے کیونکہ انسانوں کی کلوننگ کا تقریباً وہی طریقہ کار ہے جو ڈولی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اس ممکنہ انسانی کلوننگ کے مضمرات کو سمجھنے کے لئے اگر اس کے فوائد و نقصانات پر ایک نظر ڈالی جائے تو انسانی کلوننگ کے جواز اور عدم جواز کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔
فوائد
1 کلوننگ کے ذریعے مخصوص خصوصیات کے حامل افراد کی ہوبہو کاپیاں بنائی جاسکتی ہیں اور ان خصوصیات کو لازوال بنایا جاسکتا ہے۔
2 والدین اپنے بچوں میں اعلیٰ کارکردگی والے انسانوں کی خصوصیات منتقل کرکے اپنی نسل کو خوب سے خوب تر بنا سکتے ہیں۔
3 کلوننگ کے عمل سے اعضا کی منتقلی کے لئے (Compatible Donars) کلون کئے جاسکتے ہیں۔
4 اولاد سے محروم والدین کلوننگ کے عمل کے ذریعے جسمانی خلیہ (Somatic Cell) سے اپنی مرضی کے مطابق بچہ یا بچی حاصل کرسکتے ہیں۔
نقصانات
1 ڈولی کے کلوننگ کے دوران تقریباً ۷۰۰ بیضوں پر تجربات کے بعد صرف ایک تجربہ کامیاب ہوا۔ گویا کامیابی کی شرح نہایت ہی کم یعنی ایک اورسات سو (۱:۷۰۰) ہے۔
2 کلوننگ ایک مہنگا ترین سائنسی عمل ہے اور کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ لہٰذا یہ وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
3 بالغ DNAکے طریقے میں وہ خلیہ اپنی زندگی کا کچھ حصہ گزار چکا ہوتا ہے، لہٰذا اس سے بننے والے کلون کی عمر یقینااتنی کم ہوگی اور یوں انسان خود اپنی عمر کو گھٹانے والا بن جائے گا
4 اس عمل کے دوران DNA تباہ بھی ہوسکتا ہے جس سے متعددپیچیدہ مسائل جنم لیں گے۔
5 کئی انسانی جینز (Human Embryos)کو ضائع کرنے کے بعد انسانی کلوننگ ممکن ہوسکے گی کیا یہ دانشمندی ہوگی کہ ایک غیر موجود کیلئے موجود کو ضائع کردیا جائے۔
6 فرض کریں ہم انسانی کلون میں کامیابی حاصل کر بھی لیں جس میں ہماری مرضی کی خصوصیات ہوں لیکن کیا اس کو وہ ماحول میسر آسکے گا جس میں مرکزہ والے انسان نے پرورش پائی۔
7 کلوننگ سے آبادی میں بے تحاشا اضافے کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے آبادی پر قابو پانے کے تمام کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ بھوک و افلاس میں اضافہ ہوگا اور کلون کی شکل میں ہم زندہ روبوٹ بنانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔
8 کلون انسان ہمیشہ اپنے آپ کو نچلے درجے کا شہری سمجھے گا اور معاشرے میں ہر فرد کی انگلی کلون کی طرف اُٹھے گی اور یوں وہ کلون انسان ہمیشہ اپنے آپ کودوسروں کے لئے ایک تماشا ہی پائے گا۔ جس سے وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوگا۔
عوامی ردّ عمل:کلوننگ کے ذریعے ڈولی کی پیدائش نے پوری دنیا میں اضطراب کی کیفیت پیدا کردی چنانچہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اس قسم کی ریسرچ کے لئے سرکاری فنڈز کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔
!ڈولی کی کلوننگ کرنے والی ٹیم کے سربراہ آئن ولمٹ کا کہنا ہے : "It is absolutely criminal to try this in human" ''کلوننگ کے عمل کو انسانوں پر آزمانا یقینا ایک جرم ہے۔''
دنیا کے مختلف مذاہب کے اہل علم نے بھی کلوننگ کو انسانوں پر آزمانے کی مخالفت کی ہے۔
٭ ۲۹؍ اگست ۲۰۰۰ء کو پوپ نے ویٹی کن سٹی میں اعضا کی منتقلی کے ایک بین الاقوامی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''کلوننگ کے معالجاتی پہلو کے باوجود اخلاقیات کی کسی بھی قانون میں انسانوں پر کلوننگ کے تجربات کو قابل قبول عمل قرار نہیں دیاجاسکتا اوراس قسم کی تحقیق پرپابندی ہونی چاہئے ۔''
٭ عیسائی علما نے کلوننگ کے عمل کے دوران انسانی جنین (Human Embryo) کو ضائع کرنا قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔
٭ یہودی علماء نے بھی کلوننگ کو ایک بے مقصد کام میں قوت کا ضیاع قرار دیا ہے۔
٭ چند مسلمان علما نے انفرادی طور پر کلوننگ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن فتویٰ کی حد تک،مسلمانوں کا اجتماعی پلیٹ فارم نہ ہونے کی بنا پر کلوننگ کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں ابھی تک اجتماعی رائے سامنے نہیں آئی۔ انٹرنیٹ پرایک مضمون میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں کسی چیز کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں ایک مشترکہ دارالافتا نہ ہونے کی بنا پر ایک ہی چیز کے بارے میں مختلف قسم کے فتوے سامنے آجاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام کے سرکردہ علما اور محققین پر مشتمل 'دارالافتائ' قائم کیا جائے تاکہ اس جدید سائنسی ماحول کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل کے بارے میں امت مسلمہ کی طرف سے تقریباً متفقہ موقف جاری کیا جاسکے۔
کلوننگ سے متعلقہ فقہی سوالات
۱۔ جنین (Embryo) کی تعریف کیا ہے؟ کیا کلوننگ کے بعد اس کی تعریف از سرنو متعین کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی؟ علم الأجنۃکی رو سے (Implantation) کے بعد ۸ ویں مہینے تک کا مرحلہ جنین (Embryo) کہلاتا ہے۔
۲۔ کیا جنین صرف رحم مادر میں ہوتا ہے؟ اگر مصنوی طریقے سے رحم سے باہر جنین بنایا جائے تو کیا اس کو بھی جنین قرار دیا جاسکتا ہے؟
۳۔ اگر رحم سے باہر مصنوعی طریقے پر بننے والے جنین پر جنین کا اطلاق ہوگا تو اس کو ضائع کرنے کی صورت میںقتل جنین کے لئے فقہ میںمتعین سزا اور دِیت کا اطلاق کیسے اور کس پر ہوگا؟ بیضہ دینے والی عورت پر، جسمانی خلیہ دینے والے مرد یا عورت پر، یا اس سائنسدان پر جو مصنوعی طریقے سے ان خلیوں کو ملا کر جنین بنانے کے بعد اسے ضائع کردیتا ہے یا تجربات میں خود بخود سائنسدانوں کے ہاتھوں ضائع ہوجاتا ہے...؟
۴۔ کیا رحم سے باہر جنین کے بعض تجربات کیلئے اسے ضائع کرنا قتل کے زمرے میں آتا ہے؟
۵۔ بالغ ڈی این اے کے طریقے میں اگر عورت کے بیضے سے اسی عورت کے جسم کا خلیہ ملا کر اسی عورت کے رحم میںرکھ دیا جائے گا تو ایسے بچے کا اس عورت کے شوہر سے کیا رشتہ ہوگا؟
۶۔ کیا ایسا بچہ اپنی ماں کے شوہر کے مال میں حصہ دار ہوسکتا ہے؟
۷۔ ایسے بچے کا فطری طریقے سے پیدا ہونے والے اپنی ماں کے دوسرے بچوں سے کیارشتہ ہوگا؟ جبکہ وہ ان کے باپ سے نہیں؟
۸۔ اگر ایک عورت کے بیضے سے اسی عورت کے اپنے شوہر کے جسم کا خلیہ ملا کر بچہ کلون کیا جائے تو کیا وہ بچہ صحیح النسب ہوگا؟ جب کہ وہ اس شوہر کے نطفہ سے نہیں بنا؟
۹۔ ایسے بچے کا اس جوڑے کے فطری طریقے سے پیداہونے والے بچوں سے کیا رشتہ ہوگا؟
۱۰۔ اگر ایک عورت اپنے بیضے سے کسی غیر مرد کے جسم کا خلیہ (Somatic Cell) ملا کر کلون بنائے تو کیا یہ بچہ صحیح النسب ہوگا؟
۱۱۔ غیر مرد کے جسمانی خلیہ سے اپنے آپ کو حاملہ بنانے والی عورت پر حد لاگو ہوگی یا نہیں؟ اور اگر حد لاگو نہیں ہوگی توکیا تعزیر اً اس کو کوئی سزا دی جاسکتی ہے؟
۱۲۔ کیا تجربات کے لئے کسی عورت کے بیضہ دان سے بیضے حاصل کرنا شرعاً جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو ایسا کرنے والوں کے لئے کیا سزا ہونی چاہئے؟

No comments:

Post a Comment