غیرمُسلم اقوام سے مشابہت
ڈاکٹر خالد ظفر اللہ
امریکہ کی موجودہ جنگ طالبان کی بجائے اسلام سے جنگ ہے، بعض اہل دانش اسے تہذیبوں کی جنگ بھی قرار دے رہے ہیں، جیسا کہ صدر بش نے ۱۱/ستمبر کے حملوں کو امریکی تہذیب کے خلاف حملہ قرار دیا۔اسلام اپنی تہذیب میں کیا خصوصیات رکھتا ہے اور غیر مسلم تہذیبوں کے بارے میں اس کا رویہ کیا ہے ؟ زیر نظر مضمون اسی موضوع کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے ۔ محدث، جولائی ۲۰۰۱ء کا شمارہ بھی اسلام اور مغرب کی اسی تہذیبی کشمکش سے مخصوص تھا، جس کا مطالعہ بھی اس سلسلے میں مفید ہوگا۔علامہ ابن تیمیہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں اسی موضوع پر وقیع بحث کی گئی ہے۔
امریکہ کی موجودہ جنگ طالبان کی بجائے اسلام سے جنگ ہے، بعض اہل دانش اسے تہذیبوں کی جنگ بھی قرار دے رہے ہیں، جیسا کہ صدر بش نے ۱۱/ستمبر کے حملوں کو امریکی تہذیب کے خلاف حملہ قرار دیا۔اسلام اپنی تہذیب میں کیا خصوصیات رکھتا ہے اور غیر مسلم تہذیبوں کے بارے میں اس کا رویہ کیا ہے ؟ زیر نظر مضمون اسی موضوع کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے ۔ محدث، جولائی ۲۰۰۱ء کا شمارہ بھی اسلام اور مغرب کی اسی تہذیبی کشمکش سے مخصوص تھا، جس کا مطالعہ بھی اس سلسلے میں مفید ہوگا۔علامہ ابن تیمیہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں اسی موضوع پر وقیع بحث کی گئی ہے۔
اسلامی تہذیب کے تقاضےدورِ حاضر تہذیبی تصادم (Clash of Civilizations)کا دور کہلاتا ہے۔ سات براعظموں پر پھیلا ہوا کرئہ ارضی سائنسی ایجادات اور الیکٹرانک میڈیا کے سامنے سمٹ کر گلوبل ولیج بن چکا ہے۔ اس بڑے گاؤں پر مغربی ثقافتی یلغار سیل رواں کی طرح چھائی جارہی ہے اور غالب یورپی اقوام عسکری چڑھائی اور ایک بالشت کی بھی دیوار پھاندے بغیر بیڈرومز تک تہذیبی غلبہ پاچکی ہیں۔ سونیا گاندھی بھی طعنے دے رہی ہے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ ثقافتی جنگ جیت لی ہے۔
عصر حاضر کی اس ثقافتی جنگ (Culture War) میں بحیثیت ِمسلم قوم ہمارے تین طرح کے رویے سامنے آتے ہیں۔ بعض لوگ تو وہ ہیں جو مغربی ثقافت کی برتری تسلیم کرکے اس سے مرعوبیت کا شکار ہیں، بے شمار خرابیوں کے باوجو د اب وہ دنیاوی ترقی کو اسی سے مشروط سمجھتے ہیں۔چنانچہ اپنے وجود ، طور اطوار اور قول وعمل سے اسی کی نمائندگی کررہے ہیں۔یہ ترقی پسند اور تجدد پسند گروہ ہے۔
دوسرے گروہ کا رویہ قدامت پسندانہ ہے۔ انہوں نے مغرب کے تہذیبی مظاہر کی مخالفت کو اپنا رکھا ہے اور وہ اپنے بودوباش ، روزمرہ لباس اوربول چال کے طور طریقوں میں بھی باہتمام پرانے طریقوں کو سختی سے پکڑے نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ایسی باتیں جو اسلامی تہذیب کا حصہ تو نہ تھیں لیکن ماضی میں دین دار طبقے کی عکاسی کرتی تھیں مثلاً کالر والا قمیص نہ پہننا، وہ اس کی پابندی بھی کرتے ہیں۔
مسلمانوں کا تیسرا گروہ توازن واعتدال کی پالیسی پر کارفرما ہے۔ وہ باتیں جو شرعاً معیوب نہیں، اور ان کو اپنانا جائز ہے، یہ لوگ ان کی پابندی پر اصرار نہیں کرتے۔ الکلمة الحکمة ضالة المؤمن کی حکیمانہ روش اور خذ ما صفا ودع ما کدر کی موٴمنانہ فراست کے ساتھ باعث خیر کو قبول کرنااور باعث ِشر کو ردّ کرنا ان کا طریقہ ہے۔
یہاں پر چند سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا مسلمان ایک بہروپیا کا کردار اپنانے والا ہوتا ہے کہ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لے اور تہذیب ِاغیار کا نمائندہ بن جانا گوارا کرلے۔کیا اسلامی تہذیب پرکاربند رہنا اس کے لئے لازم نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی مسلمان صرف اپنی تہذیب کا علمبردار ہوتا ہے، بہروپیا نہیں کہ تہذیب ِاغیار کو وردِ زبان اور حرزِ جان بنا لے، لیکن ثقافتی جنگ میں باعث خیر کو بھی ردّ کرتے چلے جانا کیا اسلامی سوچ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ باعث ِخیر کو ردّ کرنا اسلامی طرزِ فکر نہیں بلکہ مشرکین مکہ کا وطیرہ ہے۔ وہ کہتے تھے اے اللہ! اگر یہ حق تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کا مینہ برسا یا ہم پر دردناک عذاب لے آ۔
مسلمانوں کے اس قسم کے رویوں کے بالمقابل اگر ہم پیغمبر انقلاب حضرت محمد ﷺ کی انقلابی سیرت کا مطالعہ کریں کہ آپ نے مشرکین مکہ، جزیرة العرب کے اہل کتاب اور مجوسِ عجم کے تہذیبی طور اطوار کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ تو اس سے ایک متوازن راہ عمل اپنائی جا سکتی ہے۔
محمد بن حبیب (۲۴۵ھ) کی کتاب المُحَبّرجیسی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد تہذیب ِاغیار کے بارے میں آپ کے رویے کا خلاصہ یوں سامنے آتا ہے
۱۔ باطل اور شر کی نمائندہ روایات کو تمام تر مخالفت کرتے ہوئے ردّ کرنا۔
۲۔ خیر و شر کی جامع ثقافتی رسومات کو ردّوبدل کے بعد اپنانا۔
۳۔ عمدہ اخلاقی و تمدنی عادات کو بعینہ قبول کرلینا۔
۴۔ کلیتاً نئی تہذیبی تعلیمات سامنے لانا۔
سیرتِ نبوی کا تہذیبی کشمکش کے حوالے سے جائزہ لینے سے پہلے تہذیب و تمدن یا ثقافت و کلچر کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔ یہ چاروں لفظ معمولی اصطلاحی فرق کے باوجود باہم مترادف معنوں میں مستعمل ہیں۔ ان کے مفہوم میں کسی قوم کے عقائد و نظریات کی بنیاد پراختیار کردہ مذہبی، اخلاقی، سماجی رویے اور معاشرتی، معاشی و سیاسی طرزِ زندگی شامل ہے۔ سماجی علوم کے نامور ماہرین کی تعریفوں میں الفاظ کا معمولی فرق تو پایا جاتاہے لیکن تہذیب و تمدن یاثقافت و کلچر کی مشترک روح سب کے ہاں یہی ہے کہ افکار و نظریات اور ان کی بنیاد پر اختیار کردہ انسانی زندگی (بالفاظِ دیگر عقیدہ و عمل کے مجموعے) کا نام تہذیب و تمدن ہے۔ نامور مسلم تاریخ دان اور ماہر عمرانیات ابن خلدون (۸۰۸ھ/۱۴۰۶ء) کے ہاں لفظ حضارة اسی مفہوم کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ بات واضح ہونے کے بعد کہ تہذیب و تمدن میں اصل بنیاد عقائد ونظریات ہیں اور انداز بود وباش، طرزِ معاشرت، طرزِ معیشت، طرزِ سیاست، علوم و فنون، عبادات و معاملات یہ سب ظاہری رویے ہیں، اس بات کو دہرانا بھی مفید ہوگا کہ ہر آدمی اپنے اپنائے ہوئے نظریہٴ حیات کی بنیاد پر خطوطِ زندگی استوار کرتا ہے۔کسی فرد یا قوم پر تہذیبی غلبہ پانے کے لئے 'غزوِ فکری' کی مدد سے اس کے نظریات کی بنیادیں متزلزل کرنا شرطِ اوّلین ہے۔
اب ہم تہذیبی کشمکش کے حوالے سے سیرتِ نبوی کا جائزہ لیتے ہیں تو سب سے پہلے نبی ﷺ خود تصادم کا آغاز کرتے نظر آتے ہیں۔ جب آپ نے یہ نعرہ لگایالااله الا الله... جس نے ان کے عقائد اور نظام کی نفی کی، ان کے رسم و رواج اور رذائل اخلاق کی نفی کی، ان کے معاشرتی نظام اور اس میں پائی جانے والی اونچ نیچ کی نفی کی، نسل پرستی وآبا پرستی کی نفی کی، ہوائے نفس کی نفی کردی، گویاآپ نے تہذیب و تمدن کے جملہ رویوں اور مظاہر کی نفی کرکے تہذیبی ٹکراؤ کا آغاز کردیا۔
آپ نے مشرکین عرب اور اہل کتاب کے عقائد کو بیت ِعنکبوت ٹھہرایا۔ ان پر واضح کیا کہ یہ صنم، پتھر کی خراش تراش کے باوجود پتھر ہی رہتا ہے، نفع و نقصان کا مالک نہیں بن جاتا۔ یہ بے چارا تو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی سے کچھ واپس نہیں لے سکتا۔اسی طرح اہل کتاب کے انبیاء اللہ کو ابن اللہ قرار دینے کے غیر معقول عقیدے کی گرہ کشائی کی۔چنانچہ مظلوم بدنام مصلح محمد بن عبدالوہاب (۱۲۰۶ھ/۱۷۹۲ء)نے اپنی کتاب میں ایک سو جاہلانہ نظریاتی مسائل پر اسلامی تنقید کو جمع کردیا ہے
پیغمبر ﷺ نے مسلسل ۱۳/ سالہ مکی دور میں ان کی تہذیبی بنیادیں منہدم کیں اور اپنی نظریاتی بنیادیں مضبوط کیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکی دورِ رسالت درحقیقت اسلامی تہذیب کی جڑیں مضبوط کرنے اور بالمقابل تہذیبوں کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا دور ہے۔
ا س کے بعد مدنی دور اسلامی تمدن و ثقافت کو پروان چڑھانے کا دور ہے۔ اس میں آپ نے اپنے ارد گرد موجود اَقوام کے تہذیبی رویوں کی زیادہ تر مخالفت کی کیونکہ وہ تمدن برائی کے علمبردار بن چکے تھے۔ یہ مخالفت اس قدر شدید تھی کہ بالآخر آپ کے بارے میں یہود چلا اُٹھے کہ "ما يريد هذا الرجل أن يدع من أمرنا شيئا إلاخالفنا فيه"اس شخص نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ ہر بات میں ہماری مخالفت کرے گا "
آپ کا رویہ بھی اس بارے میں کچھ یوں تھا "هدينا مخالف لهديهم" ہماری ثقافت اغیار کی ثقافت سے الگ تھلگ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا اس شدت سے مخالفت کرنا بالکل فطری تھا، کیونکہ انسانی وجود میں ظاہر و باطن کا گہرا تعلق ہے۔ ظاہر باطن کا پابند ہے اور باطن ظاہر سے متاثر۔اگر ظاہری یعنی خارجی طور پر ہم غیر اسلامی تہذیب کو اختیار کریں گے تو اس کے اثرات دل و دماغ پر ضرور مرتب ہوں گے۔ اور پھر آہستہ آہستہ اس غیر اسلامی تہذیب کے گمراہ کن افکار و نظریات بھی قلب ِمسلم پر قبضہ کرلیں گے۔ اس تباہ کن خدشہ کے پیش نظر پیغمبر حکمت و دانش علیہ الصلوٰة والسلام نے مسلمانوں کو غیر مسلم اقوام کے تہذیبی طور اطوار سے بالکل کاٹ دیا اور اس بارے میں نرمی دکھانے والوں کو بارہا آگاہ کیا کہ اگرمیری پیش کردہ اسلامی تہذیب کی بجائے دوسروں کی طرف رخ کرو گے تو پھر انہیں میں گردانے جاؤ گے:
"من تشبه بقوم فهو منهم "جو جس قوم سے مشابہت اپنائے گا وہ انہی سے ہوگا " مسلم قوم کی اعلیٰ ایمانی، اخلاقی و تمدنی تعلیمات سے تربیت کے بعد آپ کو غیر اسلامی تہذیب کی طرف ذرا سا میلان گوارا نہ تھا۔ حضرت عمر (۲۳ھ/۶۴۴ء) نے یہودِ مدینہ کے پاس سے گذرتے ہوئے تورات سے ان کی صرف ایک دعا نوٹ کی اور آکر نبی ﷺکے پاس پڑھنی شروع کردی تو آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔
آپ نے شرفِ انسانی کے منافی انداز کو ردّ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب میں وہ طور طریقے شامل کئے جو ہر لحاظ سے انسانی وقار کے شایانِ شان تھے۔مثلاً قبل از اسلام عرب مردوں میں کھڑے ہوکر بھی پیشاب کرنے کا رواج تھا جبکہ عورتیں بیٹھ کر ہی پیشاب کرتیں۔ آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا نامناسب انداز پسند نہیں فرمایا اور بیٹھ کر پیشاب کرنے کو رواج دیا تو عرب پکار اٹھے کہ انہوں نے تو عورتوں کا سا انداز اپنا لیا ہے۔إنه بال جالسا مخالفا لعادة العرب فقالوا متعجبين انظروا إليه يبول کما تبول المرأة "آپﷺ نے اہل عرب کی عادت کے برعکس بیٹھ کرپیشاب (کرنے کا رواج عام) کیا تو وہ تعجب اور حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ دیکھو :ایسے پیشاب کرتا ہے جیسے عورتیں..."
ماہانہ ایام میں عورت سے روا رکھے جانے والے غیر انسانی اور غیر اخلاقی یہودی رویے کے برعکس آپ نے جنسی تعلقات سے ہٹ کر دیگر تمام تعلقات باقی رکھنے کی اجازت دے دی۔ تو اس پر بھی یہودی چلائے تھے کہ مايريد هذا الرجل أن يدع من أمرنا شيئا إلا خالفنا فيه ہر تہذیب کا نمائندہ بنیادی یونٹ گھر ہوتا ہے۔ یہود کے گھر گندگی کے ڈھیر ہوتے تھے۔ آپ نے اس حوالے سے ان کی مشابہت سے منع فرمایا: لا تشبهوا باليهود اور ایک حدیث میں اپنے گھر بار کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کی، ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہودی صاف ستھرا نہیں رکھتے۔
طهروا أفنيتکم فإن اليهود لا تطهر أفنيتها "تم اپنے گھر بار کو صاف ستھرارکھا کرو۔ یہود اپنے گھروں کوصاف ستھرا نہیں رکھتے۔"
آپ نے گھر بار کے حوالے سے یہودیوں کے گندے کلچر کے مقابلے میں انتہائی صاف ستھرا کلچر پیش کیا بلکہ اسلامی کلچر میں الطهور شطر الايمان فرما کر ہر طرح سے صفائی کو نصف ایمان ٹھہرایاگیا۔ دورِ حاضر کے مسلم مفکرعالیجاہ عزت بیگوویچ کے الفاظ میں "یہ اسلام کا اعزاز ہے کہ اس نے جسمانی صفائی کو بھی ایمان وعقیدے کا جزو بنایا۔ دیگر تمام مذاہب میں جسم اور اس کی نظافت 'خارج از بحث' ہے۔ مثال کے طور پر مسیحیت کے پھلنے پھولنے کے ساتھ رومی تہذیب کے بنائے ہوئے غسل خانے غائب ہونے لگے۔ کلیسا نے غسل خانے، گرجا گھروں اور معبدخانوں میں تبدیل کردیئے۔ اس کے برعکس اسلام نے مساجد کے ساتھ غسل خانے اور طہارت خانے قائم کروائے۔ دنیا میں کوئی ایسی مسجد نہیں ہے جس میں فوارہ (یا موجودہ دور میں وضو خانہ) نہ ہو۔ یہ سب اتفاقی طور پرنہیں ہوا"۔
دورِ جاہلیت میں عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ بچے کی پیدائش پرعقیقہ کے جانور کے خون میں روئی رنگتے اور پھر بچے کی حجامت کے بعد یہ روئی سر پر رکھتے۔ آپ نے ان کی اس جاہلانہ رسم کی مخالفت کی اور ا س کی جگہ اس کے سر پر خوشبو لگانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اجعلوا مکان الدم خلوقا "خون کے مقامات پر خوشبو لگاؤ" کیونکہ آپ ایسا کلچر پروان چڑھا رہے تھے جو ہر طرف خوشبوئیں بکھیرنے والا تھا۔
اہل کتاب کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کم کرنے کی تلقین کی۔ تاکہ اسلامی تہذیب کی شناخت ہو اور مسلمان ہر جگہ اپنی ثقافت کا علمبردار ہو۔ آپﷺ نے فرمایا:
"وفّروا عثانينکم وقصروا سبالکم وخالفوا أهل الکتاب" "اپنی داڑھیوں کو بڑھاؤ، مونچھوں کو کاٹو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔"
سر پرغیر مہذبانہ اور مضحکہ خیز انداز میں کچھ بال کٹوانے اور کچھ چھوڑنے والی طرزِحجامت کو ترک کرنے کا حکم دیا : نہی عن القزع قال وما القزع؟ قال: أن يحلق من رأس الصبی مکان ويترک مکان
"رسول اللہﷺ نے 'قزع' سے منع کیا، صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسولﷺ! 'قزع' کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا: بچے کے سر کے کچھ بال کٹوا لئے جائیں اور سر کا کچھ حصہ ایسے ہی چھوڑ دیا جائے۔"
سر اور داڑھی کے سفید بالوں کویہود و نصاریٰ کی مخالفت میں مہندی سے رنگنے کا حکم دے کر آپﷺ نے اپنی ثقافتی جنگ جاری رکھی اور فرمایا: "إن اليهود والنصاریٰ لا يصبغون فخالفوهم"
"بے شک یہود ونصاریٰ (سر اور داڑھی) کے بالوں کو رنگتے نہیں، تم ان کی مخالفت کرو" وضع قطع کے علاوہ لباس تک میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ آپﷺ نے جب حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص پر زرد رنگ میں رنگا ہوا کپڑا دیکھا تو فرمایا: "أ أمک أمرتک بهذا؟ کیا تیری ماں نے تجھے یہ پہننے کا حکم دیا ہے؟ حضرت عبداللہ آپ کی ناراضگی جان گئے اور پوچھا کیا اس کو دھو ڈالوں؟ آپﷺ نے فرمایا: بل أحرقهما إن هذه من ثياب الکفار فلا تلبسها" "بلکہ انہیں جلا دو۔یہ کفار کے کپڑے ہیں، انہیں مت پہنو"۔
مشہور عربی مقولہ ہے کہ الناس باللباس" لباس لوگوں کی پہچان ہوتا ہے"۔ پیغمبر اسلامﷺ کو یہ قطعاً پسند نہیں تھا کہ ایک مسلمان غیر اسلامی تہذیب کا مظہرمخصوص لباس پہن کر ان کی تہذیب کا چلتا پھرتا نمائندہ نظر آئے۔ بلکہ غیر اسلامی تہذیب کا کوئی رنگ ڈھنگ وجودِ مسلم پر عیاں ہونا اسلامی غیرت کے منافی ہے۔اسی لئے آپﷺ نے لباسِ رہبان پہننے والے کے بارے میں اپنے غصے کا اظہار فرمایا۔ اور اسے صحیح معنوں میں اپنے ماننے والوں میں ہی تسلیم نہیں کیا۔ جیسا کہ حضرت علی ؒ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "إياکم ولبوس الرهبان، فإنه من تزيا بهم أوتشبه فليس منی"
"راہبوں کا لباس پہننے سے بچو، جس نے ان کا سالباس پہنا، یا ان سے مشابہت اختیار کی وہ میرے طریقہ پر نہیں۔"
مسلمانوں کو آپ نے اپنی معاشرت میں یہود و نصاریٰ کے طرزِ ملاقات اور اندازِ دعا و سلام کے اپنانے سے بھی روکا تاکہ ان کی تہذیبی روایات مسلمانوں میں در نہ آئیں۔ آپ نے فرمایا: "لاتسلموا تسليم اليهود والنصاریٰ فإن تسليمهم بالأکف والرء وس والإشارة" "یہود اور نصاریٰ کا طرزِ سلام اختیار نہ کرو۔ وہ ہاتھ، سر اور اشارہ سے سلام کرتے ہیں۔"
یہود و نصاریٰ کے سر اور ہاتھ کے مخصوص اشارے والے سلام کے علاوہ آپ نے مشرکین عرب کے اندازِ سلام و کلام کو بھی پسند نہیں فرمایا۔ جب غزوئہ بدر میں مشرکین مکہ شکست کھا کر غم وغصہ میں تلملا رہے تھے تو صفوان بن امیہ نے عمیر بن وہب جمحی کو آپ کے قتل کے لئے بھیجا۔ عمیر نے مدینہ پہنچ کر مسجد ِنبوی میں آپﷺ سے ملاقات پر صبح بخیرکہا تو نبیﷺنے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمہارے اس تحیہ سے بہتر ہے یعنی سلام سے ، جو اہل جنت کا تحیہ ہے"۔
آپ نے مسلمانوں کو السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ' جیسا سلامتی والا سلام سکھایا ہے اور ساتھ یہ بھی تلقین کی ہے کہ یہ تمہارا مخصوص ثقافتی شعار ہے، تم نے اپنے اس ثقافتی شعار (Symbol) کو یہود ونصاریٰ کے لئے قطعاً پیش نہیں کرنا ہے: لاتبدؤا اليهود ولا النصاریٰ بالسلام "یہود ونصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو"۔آپﷺ کو اپنے پاکیزہ کلچر کی کسی درجے میں بھی اِہانت گوارا نہ تھی؛ بایں سبب غیر مسلم کے لئے السلام علیکم کہہ کر ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ کیونکہ یہ اغیار کی ثقافت کا حصہ نہیں ہے بلکہ خاص مسلم ثقافت کی پہچان ہے۔
بوقت ِملاقات ایک انسان کا دوسرے کی بڑائی کے لئے اس کے آگے جھکنا انسانیت کی تذلیل ہے کیونکہ بندہ خالق کی بجائے اپنے جیسے ایک دوسرے بندے کے آگے جھک رہا ہے۔ آپ نے اپنی ثقافت میں اس ذلت سے انسانیت کو نکال کر برابری کے درجے میں ملنے کو رواج دیا اور فرمایا: لا ينحی الرجل للرجل...
اسی طرح عجمی طرزِ استقبال کو بھی؛جس میں کسی بڑے کی آمد پر کھڑے ہونے کا رواج تھا؛ آپﷺ نے یہ کہہ کر ردّ کردیا : "لا تقوموا کما يقوم الأعاجم"اس استقبال میں بھی شرفِ انسانی پامال ہوتا تھا۔ آپﷺ نے ایسے کلچر کو قطعاً فروغ دینا مناسب نہیں سمجھا، اس لئے عجمی کلچر کی نفی کی۔ غیر اسلامی تہذیبیں اپنے علمبرداروں میں تکبر و غرور کو خوب پروان چڑھاتی ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور لباس فاخرانہ انداز کے عکاس ہوتے ہیں، درحقیقت یہ کبرو نخوت کا وطیرہ اخلاقیات کی دنیا میں اخلاقِ رذیلہ میں شمار ہوتا ہے جب کہ آپﷺ اخلاقِ فاضلہ کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوئے تھے: "إنما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق""میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں" یہی وجہ ہے کہ آپ نے لباس اور چال ڈھال میں متکبرانہ رویے کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی اور فرمایا:
"إن الله لا ينظر إلی من جرثوبه خيلاء" "اللہ اس شخص کی طرف نظر تک نہیں اٹھاتے جو تکبر سے اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر چلتا ہے"
نیز قرآن نے بھی نصیحت ِلقمان نقل کی ہے:
﴿لاَ تَمْشِ فِیْ الأرْضَ مَرَحًا، إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الاْٴَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً﴾ "زمین پر اکڑ کر مت چل، اس سے نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔"
آدابِ خوردونوش کسی کلچر کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ آدمی کی پہچان کھانے کی میز پر ہوتی ہے۔ آپ نے مسلم دسترخواں پر حلال اور طیب اشیا سجانے کی اجاز ت دی ہے۔ اس کے برعکس حرام اور خبیث اشیا کی طرف ہاتھ بڑھانے کی قطعاً اجازت نہیں دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلی یا چوہے، کتے یا خنزیر کے غلیظ گوشت کبھی بھی مسلمانوں کے دستر خوان کی زینت نہیں بنے۔
علاوہ ازیں فرداً فرداً کھانے کی عربی ثقافت میں تکبر کی بو اور باہمی پیار محبت کا فقدان نظر آتا تھا۔اس لئے آپﷺ نے مل کر کھانے کو باعث برکت قرار دیتے ہوئے اس کلچر کو رواج دیا۔ نیزمیلے کچیلے ہاتھ منہ کے ساتھ کھانے پر جھپٹ پڑنے کی بجائے ہاتھ دھوکر، بسم اللہ پڑھ کر، اپنے سامنے سے اطمینان اور سکون کے ساتھ کھانے کا انتہائی مہذبانہ کلچر پروان چڑھایا۔ کوئی بھی غیراسلامی تہذیب آج تک اس مسلم ثقافت کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
حضرت عبداللہ بن سلام کی طرح کچھ لوگ ترکِ یہودیت کے بعد اسلام میں داخل ہوئے۔ سابقہ مذہبی اثرات کے تحت ہفتے کے دن کو متبرک گردانتے ہوئے اس دن کی تعظیم، رات کی عبادتی رسم کی ادائیگی اور تورات کی چند آیتوں کے موافق عمل کرنے کی آپ سے اجازت چاہی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَافَّةً﴾ مسلمانو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، یعنی اسلام اپنے ساتھ تہذیب ِاغیار کی ذرا سی آلائش بھی گوارا نہیں کرتا بلکہ دو ٹوک ثقافتی جنگ کا اعلان کرتا ہے۔
آپﷺ نے یہودیوں کے متبرک دن ہفتے اور عیسائیوں کے متبرک دن اِتوار کو چھوڑ کر اپنے لئے جمعہ کے دن کو پسند فرمایا۔یعنی ہفتہ وار مذہبی عبادت کے لئے دوسرے مذاہب کے طور اطوار اپنانا تو دور کی بات ہے، آپ نے دن کی مماثلت بھی گوارا نہیں کی بلکہ جگہ جگہ ثقافتی ٹکر مول لی۔ اغیار کی اجارہ داری کے سامنے یا اپنی رواداری کے نام پر ثقافتی جنگ میں قطعاً نرم رویہ نہیں دکھایا۔ بلکہ معاشرتی روایات ہوں خواہ مذہبی رسومات، ہر جگہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر سلامتی پر مبنی روایات اور خالص عبادات پر مبنی ثقافت کو ترویج دی۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں 'امام الجاہلیہ' کا باب باندھ کر اس ٹکراؤ کی نشاندہی کی ہے۔نماز کے لئے اعلان یا بلاوے کے حوالے سے جب آپ کے سامنے نرسنگا کی تجویز رکھی گئی تو آپ نے اس کو ناپسند فرمایا کہ یہ یہود کا کام ہے، اس کے بعد ناقوس کی تجویز سامنے آئی تو آپﷺ نے اسے بھی نصاریٰ کا کام کہہ کر ناپسند قرار دیا۔ثقافتی جنگ یہاں بھی جاری تھی اور آپ اہل کتاب سے عبادت میں کسی طور مشابہت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ اہل کتاب کا قبلہ پسند نہیں رہا بلکہ یہاں بھی تبدیلی ضروری جانی۔باربار اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے بیت اللہ کو قبلہ ٹھہرائے جانے کی التجا میں ثقافتی جنگ کی روح کارفرما نظر آتی ہے۔ بالآخر یہود و نصاریٰ کے قبلے کی بجائے اپنی پسند کے قبلے کی طرف رخ کرنے کی اجازت مل گئی۔
غیر اسلامی تہذیبوں سے مذہبی مشابہت پیغمبر انقلاب علیہ الصلوٰة والسلام کے مزاج کے خلاف تھی، اس لئے اوقاتِ عبادات بھی الگ مقرر کئے اور اغیار کے اوقاتِ عبادت مثلاً طلوعِ آفتاب ، غروبِ آفتاب کے وقت عبادت ممنوع قرا ردی۔
طریق عبادت میں بھی ثقافتی ٹکراؤ جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ایک آدمی کوبائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ کر آپﷺنے منع فرماتے ہوئے کہا: إنها صلاة اليهود یہ یہودیوں کی سی نماز ہے ۔ اسی طرح یہود کی مخالفت کا حکم دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: خالفوا اليهود فإنهم لايصلون فی نعالهم ولاخفافهم" "یہودجوتے اور موزے میں نماز ادا نہیں کرتے ، تم اس میں ان سے مخالفت کرو"
نماز کے بہت سے مسائل کی طرح روزے کے بارے میں بھی مخالفت والا رویہ ظاہر و باہر ہے۔ سحری کو اپنے اور اہل کتاب کے روزہ کے درمیان فرق قرار دے کر روزے کے آغاز سے ہی مخالفت کی بنیاد رکھی اور فرمایا: "فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الکتاب: أکلة السحور" "ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان بنیادی فرق سحری کھانا ہے۔"
آپﷺ نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے لئے روزے کی افطاری میں تعجیل کو اظہارِ دین کا سبب قرار دیا ہے۔ یعنی جب تک مخالفت برقرار رہے گی، افطاری بلاتاخیر ہوگی، مسلمان غالب رہیں گے؛ اس کے برعکس اگر مخالفت ترک کردیں ، افطار میں تعجیل کی بجائے احتیاط کے نام پر تاخیر در کر آئے گی تو غلبہ دین باقی نہیں رہے گا۔ حدیث ِنبوی کے الفاظ کچھ یوں ہیں: "لايزال الدين ظاهرا ماعجل الناس الفطر لأن اليهود والنصاریٰ يؤخرون" "دین اسلام اس وقت تک غالب رہے گا جب تک مسلمان افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاریٰ اس میں تاخیر کرتے ہیں۔"
حضرت اُمّ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہفتے اور اتوار کے دن اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور فرماتے کہ إنهما يوما عيد للمشرکين وأنا أريد أن أخالفهم" "یہ مشرکوں کی عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا پسند کرتا ہوں۔"
یہودی عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے، آپﷺ نے ان کی مخالفت کے لئے صحابہ کو حکم دیا صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود
نماز اور روزے کی طرح حج میں بھی اَغیار کی مخالفت کا رجحان جاری ہے۔ مشرکین عرب حج کے دوران غروبِ آفتاب سے قبل عرفات سے چل پڑتے تھے اور مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب کے بعد روانہ ہوتے۔ آپﷺ نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے عرفات سے غروبِ آفتاب کے بعد اور مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب سے قبل کا اسلامی طریقہ جاری کیا
سیرتِ نبویﷺ کا تفصیلی مطالعہ ایسے بہت سے اُمور سامنے لاتا ہے۔ جن میں آپﷺ نے ثقافتی جنگ لڑی۔ چند روایات کی نشان دہی کی جاچکی ہے۔کیا یہ ساری مخالفت، مخالفت برائے مخالفت کی سوچ کے تحت تھی یا اعلیٰ اخلاقی اقدار اور بہترین تہذیبی روایات کو فروغ دینیکی خاطر تھی؟حقیقت یہ ہے کہ اس مخالفت کا سبب غیرمسلم تہذیبی روایات کا شر تھا یا پھر ان روایات کا کفر کا نمائندہ ہونا تھا۔ ورنہ اسلام کا یہ مزاج قطعاً نہیں ہے کہ مخالفت کے نام پر برائی کے ساتھ ہر اچھائی کی بھی مخالفت کرتا چلا جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ تہذیب ِاسلامی کے بالمقابل اس دور کی دیگر تہذیبیں اعلیٰ تعلیمات اور بہترین تہذیبی روایات میں مقابلہ کرنے سے قاصر تھیں۔ علاوہ ازیں اسلامی تہذیب میں زندگی کے ہر میدان میں جدت (Modernization) اور ترقی کی گنجائش موجود ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں تہذیب ِانسانی کے ارتقا میں اسلامی تہذیب نے بھرپور کردار ادا کیا۔حتیٰ کہ مغربی دانشور وں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ آج بھی اسلامی تہذیب میں یہ صلاحیت باقی ہے۔ صرف اس تہذیب کے ماننے والوں میں حضرت عمر جیسے پختہ فکر حاملین کی ضرورت ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بیت المقدس کی فتح پر چابیاں پیش کرنے کے لئے اہل کتاب نے یاد کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ کپڑے پیوند زدہ تھے۔ سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے اعلیٰ لباس پہننے کی گذارش کی تو فرمایا کہ ہمیں عزت اسلام کی بدولت نصیب ہوئی ہے لباس کی بدولت نہیں۔
اسلام اور اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی اسلامی تہذیب کل بھی عزت بخشنے والی تھی اور آج بھی ہے، کل بھی ہوگی۔ اور صرف اور صرف یہی تہذیب انسانیت کے لئے سلامتی کا پیغام اور بہترین طرزِ زندگی کا نمونہ پیش کرسکتی ہے؛ جس میں ہر علاقے، موسم اور افراد کے مطابق لچک موجود ہے اور اسی لچک کی بدولت اسلامی تہذیب دنیا میں ہرجگہ چل سکی۔ یہ تہذیب بنیادی ٹھوس فکری راہنمائی میں تو لچک نہیں دیتی لیکن ظاہری رویوں میں کفر و شرک کی نمائندہ نہ ٹھہرنے والی تمام روایات کے ساتھ نبھا کا سبق دیتی ہے۔ فطرتِ انسانی کی ہر خواہش پر پہرے بٹھانے یا شتر بے مہار کی طرح آزاد چھوڑنے کی بجائے اسے اعتدال کی راہ دکھاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں پھر سے اپنی اسلامی تہذیب کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ذہنی طور پر مرعوب ہونے کی وجہ سے ہمیں اسلا م تو پسند ہے لیکن اسلامی تہذیب پسند نہیں جبکہ سیرت النبی کی تعلیمات اس کے برعکس ہے۔
آپﷺاپنے ہر خطبے میں فرمایا کرتے تھے: خير الهدی هدی محمدﷺ یعنی "محمد ﷺ کا تہذیبی رویہ ہی سب سے بہتر تہذیبی رویہ ہے"۔اس تہذیب کے دامن پر کوئی سیاہ دھبہ نہیں ہے؛ بلکہ ليلها کنهارهاکہ اس کی توراتیں بھی دن جیسی روشن ہیں اور اس تہذیب کا معاشرتی و سماجی رویہ اپنے اندر بڑی کشادگی رکھتا ہے۔ ایک دفعہ عید کے موقع پر حبشی اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ ا نے انہیں دیکھ کر فرمایا: ليعلم اليهود أن فی ديننا فسحة "یہودیوں کو خبر ہونی چاہئے کہ ہمارا دین یعنی ہماری ثقافت بڑی وسعت رکھتی ہے۔"
اس روایت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلامی تہذیب تنگ نظر یا گھٹن والے رویے کی آئینہ دار نہیں ہے البتہ نام نہاد آزادی کے نام پر آوارگی پھیلانے والے، انسانیت کے لئے تباہ کن تہذیبی رویوں کی ضرور مخالف ہے۔ آج ہمیں مغرب کی بڑھتی ہوئی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں اپنے کردار اوررویے کا سیرت النبی کی روشنی میں جائزہ لینا چاہئے۔ ان کے 'تھنک ٹینک' انہیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ عسکری چڑھائی کے ذریعے کوئی ملک فتح کرنا مشکل ہے اور اس پر قبضہ رکھنا دنیا بھر سے بدنامی کاباعث ہے۔ اس کی بجائے تہذیبی تصادم کی راہ اپناتے ہوئے تہذیبی غلبہ پائیں اور پھر تہذیبی لوازمات فروخت کرکے خوب دولت کمائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج مسلمان علمی دنیا میں یتیم، سیاسی طور پر غیر مستحکم اورمالی طور پر بدحال ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہاورڈیونیورسٹی کے مشہور سکالر پروفیسر سموئیل ہنٹنگٹنThe Clash of Civilizations جیسے معروفِ زمانہ مقالے لکھ کر اہل یورپ کو تہذیب ِاسلامی سے تصادم کی راہ دکھا رہے ہیں اور مغرب نے موجودہ عالمی غلبہ کے زعم میں اپنی ثقافت کے پرچار میں سب کچھ روا سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ یہ کلچر انسانیت کے لئے تباہی کا پیغام لا رہا ہے۔ خود ان کے ہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ خاندانی نظام بالکل نیست و نابود کردیا گیا ہے۔ عزت و آبرو اور غیرت و حمیت نامی الفاظ ان کی ڈکشنریوں سے غائب ہونے کو ہیں۔ منافقت اور خود غرضی کو چالاکی اور دانش مندی سمجھا جاتاہے۔ دورُخی زندگی اور دوغلا پن کو سیاست اور ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اپنے استعماری غلبے کے دوام کی خاطر جگہ جگہ خاص طور پر خونِ مسلم کی ارزانی ان کے لئے تفریح طبع کا درجہ رکھتی ہے۔ جبکہ برصغیر کے نامور سیرت نگار قاضی محمد سلیمان منصورپوری کی تحقیق کے مطابق محمدی انقلاب کے ۲۳ سالہ دور میں کل ۹۱۸/افراد مسلم و غیر مسلم کام آئے تھے۔ وہاں تہذیبی غلبہ کے پیچھے یہ روح کارفرما تھی کہ پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا ہوجائے: ﴿هُوَالَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَه بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلٰی الدِّيْنِ کُلِّه﴾"وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کربھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔"
اور یہاں سرتاپا استعماری ذہنیت کارفرما ہے۔ وہاں پہلے 'غزوِفکری'پھر اعلیٰ تہذیبی روایات کے مظہر معاشرے کا قیام اور آخرمیں اس کے علانیہ مخالفین سے مسلح ٹکراؤ (Armed Confilict) تھا۔یہاں پر صرف سپر پاورکہلانے کا شوق ہے لیکن اس شوق کی تکمیل کے لئے اعلیٰ فکری تعلیمات اور بے مثال تمدنی روایات کی تہذیبی تائید موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں موجودہ مرعوبانہ ذہنیت سے چھٹکارا پانا ہوگا، جس میں یورپ سے آمدہ ہر روایت سونے کی طرح چمکدار نظر آتی ہے، حالانکہ"ہر چمک دار چیز سونا نہیں ہوتی!"
اسی طرح وہاں سے آمدہ ہر روایت کو ردّ کرنے کا رویہ اپنانے کی بجائے آپ کی سنت کے مطابق ایمان و عمل کے لئے غیر مضر کو قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں سمجھنا چاہئے۔ آج ہمیں اپنے آپ کو توازن واعتدال کی راہ پرگامزن ہو کر اس ثقافتی یلغار کا بغور جائزہ لینا ہوگا اور ہر روایت کو خذ ما صفا ودع ما کدر کی چھلنی سے گذار کر جرأت مندانہ پالیسی اپنانا ہوگی۔جیسا کہ آپ نے غیلة (حاملہ کا دودھ پلانا)کے بارے میں روم وفارس کے رویے کو قبول کرلیا۔ نکاح کے بارے میں عرب روایات میں سے شرف ِانسانی کے لائق روایات کو قبول کیا اور باعث ِعار کو ردّ کردیا۔زنا کی لعنتی رسم اور اس سے پیدا شدہ بچے پردعویٰ کی رسم جاہلیت کے خاتمے کا اعلان فرمایا: ذهب أمر الجاهلية...الخ اور زانی کے لئے رجم کی سزا مقرر فرمائی۔
آج بھی آپ جیسی مدبرانہ فراست کی ضرورت ہے۔ اپنی ثقافتی بنیادوں پر تعصب کی حد تک ایمان پختہ کرنا ہوگا۔ آج کھوکھلی مغربی ثقافت کی ظاہری چمک دمک کے سامنے ذ ہنی مرعوبیت کا شکار ہونے کی بجائے اس کی تباہ کاریوں کو طشت از بام کرنے کی ضرورت ہے۔انسانیت کے لئے انتہائی مہلک رویوں کی علمبردار ہونے کی بنا پر اس مغربی ثقافت سے نفرت کی روش اختیار کرنی چاہئے۔نیز اسلامی تہذیبی روایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے احساسِ ندامت و شرمندگی کی بجائے اس نمائندگی کو باعث ِعزو شرف گرداننا چاہئے کہ ہمیں انسانیت کے لئے اعلیٰ و اکمل تہذیب کے امین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آج کی فکری درماندگی اور تہذیبی طور پر درندگی کا شکار انسانیت اعلیٰ علمی، فکری و ثقافتی قدروں کی متلاشی ہے۔ سیاسی و ثقافتی استعمار کی یہ خواہش ہے کہ ہر طرح سے ا س کا ہی بول بالا ہو یا کم از کم دو متضاد فکری نظام یعنی حق و باطل پہلو بہ پہلو چلتے رہیں تاکہ اس باطل کے وجود اور بقا کی ضمانت (Lease of Existance) رہے۔ لیکن حق و باطل کے مابین پرامن بقائے باہمی (Peaceful Co-existan) خود باطل ہے کیونکہ حق کے بعد سراسر گمراہی ہے﴿ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلاَلِ﴾ اور یہ باطل اور ضلالت ختم ہونے والی ہے ﴿إِنَّ الْبَاطِلِ کَانَ زَهُوْقًا﴾ لہٰذا نظریاتی ٹکراؤ اور تہذیبی تصادم کے سوا چارہ نہیں۔ غالب نظریہ اور اس بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی تہذیب کا لامحالہ دوسرے نظریات اور تہذیبوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اگر تصادم کے سوا کوئی راستہ ہوتا تو انبیاء ہرگز اس تصادم کی راہ پر نہ نکلتے۔
آج اگر دنیا بھر کے سیاسی و ثقافتی میدانوں میں امریکی بالا دستی (Pax-Americana) ہے تو کل تک برطانوی بالادستی(Pax-Britainica) تھی۔ وہ بھی نہ رہی، یہ بھی نہ رہے گی۔ بہت جلد یہ تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرکے اپنا وجود کھونے والی ہے۔ اس کی جگہ لینے کے لئے مسلم کلچر کو تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں یہ تبدیلی نہ صرف ممکن بلکہ یقینی جان کر بھرپور تیاری کرنی چاہئے۔ تہذیبی ٹکراؤ اور اس کے بعد اسلامی ثقافتی یلغار کے لئے بڑی دانش مندی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ تیاری کھوکھلے نعروں کی بجائے ٹھوس علمی فکری بنیادوں پر ہمہ جہتی ہونی چاہئے۔
نیز یہ حقیقت بھی ذہن نشین ر ہنی چاہئے کہ اسلامی تہذیب میں وحدت ہے، یکسانیت نہیں یعنی فکری اساس ایک ہے عملی مظاہر میں اَحوال و ظروف کی مناسبت سے فرق کی گنجائش ہی اس کی کامیابی کا راز ہے۔
آج کل دنیا کو یک قطبی (Uni-Polar) بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ لیکن غالب اقوام کے پاس وہ ٹھوس علمی و فکری راہنمائی اور بہترین عملی نمونہ موجود نہیں ہے جو ہر جگہ قابل قبول بھی ہو۔ جبکہ ہم اسلامی تہذیب کی صدیوں پر محیط تاریخ شاہد ِعدل کے طور پر پیش کرسکتے ہیں جس میں اسلامی تہذیب نے چار دانگ عالم میں آدابِ ملاقات، طرزِ لباس، آدابِ خوردونوش، طرزِ تحریر،اندازِ تعمیر سے لے کر دستورِ حکمرانی تک ہر ایک میں نمایاں لیکن کامیاب تبدیلیاں کیں۔ اس تہذیبی غلبے نے اپنے سائے میں صدیوں انسانیت کو پرامن، پرسکون اور باوقار زندگی گزارنے کے لئے سنہری ایام مہیا کئے۔تاریخ اپنے آپ کو دہرانے والی ہے۔ یہ سنہری دن پھر سے لوٹنے والے ہیں۔ اے کاش! امت ِمسلمہ بروقت ہوشیار ہو جائے۔
آج مکالمے(Dialogue) کا دور ہے۔ مغربی اقوام سے برابری کی سطح (Equal Footing) پر بات کرنے والے مسلم سکالرز کو ثقافتی جنگ میں اپنے رول سے آغاز کرنا چاہئے۔ مغربی ثقافت کے علمبرداروں کے سامنے اس کے عیوب و نقائص اور لائی ہوئی انسانی تباہی کی حقیقی تصویر پیش کرنی چاہئے جوکہ استعماری الیکٹرانک میڈیا نے چھپا اور دبا رکھی ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی تہذیب کی طویل تاریخی شہادت، ٹھوس علمی فکری راہنمائی اور عملی انطباقات کو کھل کر پیش کرنا چاہئے۔ ڈائیلاگ کے علاوہ زندگی کے ہر میدان میں تہذیبی لوازمات کے حوالے سے ضروری تیاری بھی جاری رہنی چاہئے تاکہ آمدہ تہذیبی تصادم میں کسی موڑ پر پسپائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ * "نو اور دس محرم دونوں کا روزہ رکھواور یہود کی مخالفت کرو"
دوسرے گروہ کا رویہ قدامت پسندانہ ہے۔ انہوں نے مغرب کے تہذیبی مظاہر کی مخالفت کو اپنا رکھا ہے اور وہ اپنے بودوباش ، روزمرہ لباس اوربول چال کے طور طریقوں میں بھی باہتمام پرانے طریقوں کو سختی سے پکڑے نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ایسی باتیں جو اسلامی تہذیب کا حصہ تو نہ تھیں لیکن ماضی میں دین دار طبقے کی عکاسی کرتی تھیں مثلاً کالر والا قمیص نہ پہننا، وہ اس کی پابندی بھی کرتے ہیں۔
مسلمانوں کا تیسرا گروہ توازن واعتدال کی پالیسی پر کارفرما ہے۔ وہ باتیں جو شرعاً معیوب نہیں، اور ان کو اپنانا جائز ہے، یہ لوگ ان کی پابندی پر اصرار نہیں کرتے۔ الکلمة الحکمة ضالة المؤمن کی حکیمانہ روش اور خذ ما صفا ودع ما کدر کی موٴمنانہ فراست کے ساتھ باعث خیر کو قبول کرنااور باعث ِشر کو ردّ کرنا ان کا طریقہ ہے۔
یہاں پر چند سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا مسلمان ایک بہروپیا کا کردار اپنانے والا ہوتا ہے کہ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لے اور تہذیب ِاغیار کا نمائندہ بن جانا گوارا کرلے۔کیا اسلامی تہذیب پرکاربند رہنا اس کے لئے لازم نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی مسلمان صرف اپنی تہذیب کا علمبردار ہوتا ہے، بہروپیا نہیں کہ تہذیب ِاغیار کو وردِ زبان اور حرزِ جان بنا لے، لیکن ثقافتی جنگ میں باعث خیر کو بھی ردّ کرتے چلے جانا کیا اسلامی سوچ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ باعث ِخیر کو ردّ کرنا اسلامی طرزِ فکر نہیں بلکہ مشرکین مکہ کا وطیرہ ہے۔ وہ کہتے تھے اے اللہ! اگر یہ حق تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کا مینہ برسا یا ہم پر دردناک عذاب لے آ۔
مسلمانوں کے اس قسم کے رویوں کے بالمقابل اگر ہم پیغمبر انقلاب حضرت محمد ﷺ کی انقلابی سیرت کا مطالعہ کریں کہ آپ نے مشرکین مکہ، جزیرة العرب کے اہل کتاب اور مجوسِ عجم کے تہذیبی طور اطوار کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ تو اس سے ایک متوازن راہ عمل اپنائی جا سکتی ہے۔
محمد بن حبیب (۲۴۵ھ) کی کتاب المُحَبّرجیسی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد تہذیب ِاغیار کے بارے میں آپ کے رویے کا خلاصہ یوں سامنے آتا ہے
۱۔ باطل اور شر کی نمائندہ روایات کو تمام تر مخالفت کرتے ہوئے ردّ کرنا۔
۲۔ خیر و شر کی جامع ثقافتی رسومات کو ردّوبدل کے بعد اپنانا۔
۳۔ عمدہ اخلاقی و تمدنی عادات کو بعینہ قبول کرلینا۔
۴۔ کلیتاً نئی تہذیبی تعلیمات سامنے لانا۔
سیرتِ نبوی کا تہذیبی کشمکش کے حوالے سے جائزہ لینے سے پہلے تہذیب و تمدن یا ثقافت و کلچر کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔ یہ چاروں لفظ معمولی اصطلاحی فرق کے باوجود باہم مترادف معنوں میں مستعمل ہیں۔ ان کے مفہوم میں کسی قوم کے عقائد و نظریات کی بنیاد پراختیار کردہ مذہبی، اخلاقی، سماجی رویے اور معاشرتی، معاشی و سیاسی طرزِ زندگی شامل ہے۔ سماجی علوم کے نامور ماہرین کی تعریفوں میں الفاظ کا معمولی فرق تو پایا جاتاہے لیکن تہذیب و تمدن یاثقافت و کلچر کی مشترک روح سب کے ہاں یہی ہے کہ افکار و نظریات اور ان کی بنیاد پر اختیار کردہ انسانی زندگی (بالفاظِ دیگر عقیدہ و عمل کے مجموعے) کا نام تہذیب و تمدن ہے۔ نامور مسلم تاریخ دان اور ماہر عمرانیات ابن خلدون (۸۰۸ھ/۱۴۰۶ء) کے ہاں لفظ حضارة اسی مفہوم کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ بات واضح ہونے کے بعد کہ تہذیب و تمدن میں اصل بنیاد عقائد ونظریات ہیں اور انداز بود وباش، طرزِ معاشرت، طرزِ معیشت، طرزِ سیاست، علوم و فنون، عبادات و معاملات یہ سب ظاہری رویے ہیں، اس بات کو دہرانا بھی مفید ہوگا کہ ہر آدمی اپنے اپنائے ہوئے نظریہٴ حیات کی بنیاد پر خطوطِ زندگی استوار کرتا ہے۔کسی فرد یا قوم پر تہذیبی غلبہ پانے کے لئے 'غزوِ فکری' کی مدد سے اس کے نظریات کی بنیادیں متزلزل کرنا شرطِ اوّلین ہے۔
اب ہم تہذیبی کشمکش کے حوالے سے سیرتِ نبوی کا جائزہ لیتے ہیں تو سب سے پہلے نبی ﷺ خود تصادم کا آغاز کرتے نظر آتے ہیں۔ جب آپ نے یہ نعرہ لگایالااله الا الله... جس نے ان کے عقائد اور نظام کی نفی کی، ان کے رسم و رواج اور رذائل اخلاق کی نفی کی، ان کے معاشرتی نظام اور اس میں پائی جانے والی اونچ نیچ کی نفی کی، نسل پرستی وآبا پرستی کی نفی کی، ہوائے نفس کی نفی کردی، گویاآپ نے تہذیب و تمدن کے جملہ رویوں اور مظاہر کی نفی کرکے تہذیبی ٹکراؤ کا آغاز کردیا۔
آپ نے مشرکین عرب اور اہل کتاب کے عقائد کو بیت ِعنکبوت ٹھہرایا۔ ان پر واضح کیا کہ یہ صنم، پتھر کی خراش تراش کے باوجود پتھر ہی رہتا ہے، نفع و نقصان کا مالک نہیں بن جاتا۔ یہ بے چارا تو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی سے کچھ واپس نہیں لے سکتا۔اسی طرح اہل کتاب کے انبیاء اللہ کو ابن اللہ قرار دینے کے غیر معقول عقیدے کی گرہ کشائی کی۔چنانچہ مظلوم بدنام مصلح محمد بن عبدالوہاب (۱۲۰۶ھ/۱۷۹۲ء)نے اپنی کتاب میں ایک سو جاہلانہ نظریاتی مسائل پر اسلامی تنقید کو جمع کردیا ہے
پیغمبر ﷺ نے مسلسل ۱۳/ سالہ مکی دور میں ان کی تہذیبی بنیادیں منہدم کیں اور اپنی نظریاتی بنیادیں مضبوط کیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکی دورِ رسالت درحقیقت اسلامی تہذیب کی جڑیں مضبوط کرنے اور بالمقابل تہذیبوں کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا دور ہے۔
ا س کے بعد مدنی دور اسلامی تمدن و ثقافت کو پروان چڑھانے کا دور ہے۔ اس میں آپ نے اپنے ارد گرد موجود اَقوام کے تہذیبی رویوں کی زیادہ تر مخالفت کی کیونکہ وہ تمدن برائی کے علمبردار بن چکے تھے۔ یہ مخالفت اس قدر شدید تھی کہ بالآخر آپ کے بارے میں یہود چلا اُٹھے کہ "ما يريد هذا الرجل أن يدع من أمرنا شيئا إلاخالفنا فيه"اس شخص نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ ہر بات میں ہماری مخالفت کرے گا "
آپ کا رویہ بھی اس بارے میں کچھ یوں تھا "هدينا مخالف لهديهم" ہماری ثقافت اغیار کی ثقافت سے الگ تھلگ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا اس شدت سے مخالفت کرنا بالکل فطری تھا، کیونکہ انسانی وجود میں ظاہر و باطن کا گہرا تعلق ہے۔ ظاہر باطن کا پابند ہے اور باطن ظاہر سے متاثر۔اگر ظاہری یعنی خارجی طور پر ہم غیر اسلامی تہذیب کو اختیار کریں گے تو اس کے اثرات دل و دماغ پر ضرور مرتب ہوں گے۔ اور پھر آہستہ آہستہ اس غیر اسلامی تہذیب کے گمراہ کن افکار و نظریات بھی قلب ِمسلم پر قبضہ کرلیں گے۔ اس تباہ کن خدشہ کے پیش نظر پیغمبر حکمت و دانش علیہ الصلوٰة والسلام نے مسلمانوں کو غیر مسلم اقوام کے تہذیبی طور اطوار سے بالکل کاٹ دیا اور اس بارے میں نرمی دکھانے والوں کو بارہا آگاہ کیا کہ اگرمیری پیش کردہ اسلامی تہذیب کی بجائے دوسروں کی طرف رخ کرو گے تو پھر انہیں میں گردانے جاؤ گے:
"من تشبه بقوم فهو منهم "جو جس قوم سے مشابہت اپنائے گا وہ انہی سے ہوگا " مسلم قوم کی اعلیٰ ایمانی، اخلاقی و تمدنی تعلیمات سے تربیت کے بعد آپ کو غیر اسلامی تہذیب کی طرف ذرا سا میلان گوارا نہ تھا۔ حضرت عمر (۲۳ھ/۶۴۴ء) نے یہودِ مدینہ کے پاس سے گذرتے ہوئے تورات سے ان کی صرف ایک دعا نوٹ کی اور آکر نبی ﷺکے پاس پڑھنی شروع کردی تو آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔
آپ نے شرفِ انسانی کے منافی انداز کو ردّ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب میں وہ طور طریقے شامل کئے جو ہر لحاظ سے انسانی وقار کے شایانِ شان تھے۔مثلاً قبل از اسلام عرب مردوں میں کھڑے ہوکر بھی پیشاب کرنے کا رواج تھا جبکہ عورتیں بیٹھ کر ہی پیشاب کرتیں۔ آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا نامناسب انداز پسند نہیں فرمایا اور بیٹھ کر پیشاب کرنے کو رواج دیا تو عرب پکار اٹھے کہ انہوں نے تو عورتوں کا سا انداز اپنا لیا ہے۔إنه بال جالسا مخالفا لعادة العرب فقالوا متعجبين انظروا إليه يبول کما تبول المرأة "آپﷺ نے اہل عرب کی عادت کے برعکس بیٹھ کرپیشاب (کرنے کا رواج عام) کیا تو وہ تعجب اور حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ دیکھو :ایسے پیشاب کرتا ہے جیسے عورتیں..."
ماہانہ ایام میں عورت سے روا رکھے جانے والے غیر انسانی اور غیر اخلاقی یہودی رویے کے برعکس آپ نے جنسی تعلقات سے ہٹ کر دیگر تمام تعلقات باقی رکھنے کی اجازت دے دی۔ تو اس پر بھی یہودی چلائے تھے کہ مايريد هذا الرجل أن يدع من أمرنا شيئا إلا خالفنا فيه ہر تہذیب کا نمائندہ بنیادی یونٹ گھر ہوتا ہے۔ یہود کے گھر گندگی کے ڈھیر ہوتے تھے۔ آپ نے اس حوالے سے ان کی مشابہت سے منع فرمایا: لا تشبهوا باليهود اور ایک حدیث میں اپنے گھر بار کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کی، ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہودی صاف ستھرا نہیں رکھتے۔
طهروا أفنيتکم فإن اليهود لا تطهر أفنيتها "تم اپنے گھر بار کو صاف ستھرارکھا کرو۔ یہود اپنے گھروں کوصاف ستھرا نہیں رکھتے۔"
آپ نے گھر بار کے حوالے سے یہودیوں کے گندے کلچر کے مقابلے میں انتہائی صاف ستھرا کلچر پیش کیا بلکہ اسلامی کلچر میں الطهور شطر الايمان فرما کر ہر طرح سے صفائی کو نصف ایمان ٹھہرایاگیا۔ دورِ حاضر کے مسلم مفکرعالیجاہ عزت بیگوویچ کے الفاظ میں "یہ اسلام کا اعزاز ہے کہ اس نے جسمانی صفائی کو بھی ایمان وعقیدے کا جزو بنایا۔ دیگر تمام مذاہب میں جسم اور اس کی نظافت 'خارج از بحث' ہے۔ مثال کے طور پر مسیحیت کے پھلنے پھولنے کے ساتھ رومی تہذیب کے بنائے ہوئے غسل خانے غائب ہونے لگے۔ کلیسا نے غسل خانے، گرجا گھروں اور معبدخانوں میں تبدیل کردیئے۔ اس کے برعکس اسلام نے مساجد کے ساتھ غسل خانے اور طہارت خانے قائم کروائے۔ دنیا میں کوئی ایسی مسجد نہیں ہے جس میں فوارہ (یا موجودہ دور میں وضو خانہ) نہ ہو۔ یہ سب اتفاقی طور پرنہیں ہوا"۔
دورِ جاہلیت میں عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ بچے کی پیدائش پرعقیقہ کے جانور کے خون میں روئی رنگتے اور پھر بچے کی حجامت کے بعد یہ روئی سر پر رکھتے۔ آپ نے ان کی اس جاہلانہ رسم کی مخالفت کی اور ا س کی جگہ اس کے سر پر خوشبو لگانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اجعلوا مکان الدم خلوقا "خون کے مقامات پر خوشبو لگاؤ" کیونکہ آپ ایسا کلچر پروان چڑھا رہے تھے جو ہر طرف خوشبوئیں بکھیرنے والا تھا۔
اہل کتاب کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کم کرنے کی تلقین کی۔ تاکہ اسلامی تہذیب کی شناخت ہو اور مسلمان ہر جگہ اپنی ثقافت کا علمبردار ہو۔ آپﷺ نے فرمایا:
"وفّروا عثانينکم وقصروا سبالکم وخالفوا أهل الکتاب" "اپنی داڑھیوں کو بڑھاؤ، مونچھوں کو کاٹو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔"
سر پرغیر مہذبانہ اور مضحکہ خیز انداز میں کچھ بال کٹوانے اور کچھ چھوڑنے والی طرزِحجامت کو ترک کرنے کا حکم دیا : نہی عن القزع قال وما القزع؟ قال: أن يحلق من رأس الصبی مکان ويترک مکان
"رسول اللہﷺ نے 'قزع' سے منع کیا، صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسولﷺ! 'قزع' کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا: بچے کے سر کے کچھ بال کٹوا لئے جائیں اور سر کا کچھ حصہ ایسے ہی چھوڑ دیا جائے۔"
سر اور داڑھی کے سفید بالوں کویہود و نصاریٰ کی مخالفت میں مہندی سے رنگنے کا حکم دے کر آپﷺ نے اپنی ثقافتی جنگ جاری رکھی اور فرمایا: "إن اليهود والنصاریٰ لا يصبغون فخالفوهم"
"بے شک یہود ونصاریٰ (سر اور داڑھی) کے بالوں کو رنگتے نہیں، تم ان کی مخالفت کرو" وضع قطع کے علاوہ لباس تک میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ آپﷺ نے جب حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص پر زرد رنگ میں رنگا ہوا کپڑا دیکھا تو فرمایا: "أ أمک أمرتک بهذا؟ کیا تیری ماں نے تجھے یہ پہننے کا حکم دیا ہے؟ حضرت عبداللہ آپ کی ناراضگی جان گئے اور پوچھا کیا اس کو دھو ڈالوں؟ آپﷺ نے فرمایا: بل أحرقهما إن هذه من ثياب الکفار فلا تلبسها" "بلکہ انہیں جلا دو۔یہ کفار کے کپڑے ہیں، انہیں مت پہنو"۔
مشہور عربی مقولہ ہے کہ الناس باللباس" لباس لوگوں کی پہچان ہوتا ہے"۔ پیغمبر اسلامﷺ کو یہ قطعاً پسند نہیں تھا کہ ایک مسلمان غیر اسلامی تہذیب کا مظہرمخصوص لباس پہن کر ان کی تہذیب کا چلتا پھرتا نمائندہ نظر آئے۔ بلکہ غیر اسلامی تہذیب کا کوئی رنگ ڈھنگ وجودِ مسلم پر عیاں ہونا اسلامی غیرت کے منافی ہے۔اسی لئے آپﷺ نے لباسِ رہبان پہننے والے کے بارے میں اپنے غصے کا اظہار فرمایا۔ اور اسے صحیح معنوں میں اپنے ماننے والوں میں ہی تسلیم نہیں کیا۔ جیسا کہ حضرت علی ؒ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "إياکم ولبوس الرهبان، فإنه من تزيا بهم أوتشبه فليس منی"
"راہبوں کا لباس پہننے سے بچو، جس نے ان کا سالباس پہنا، یا ان سے مشابہت اختیار کی وہ میرے طریقہ پر نہیں۔"
مسلمانوں کو آپ نے اپنی معاشرت میں یہود و نصاریٰ کے طرزِ ملاقات اور اندازِ دعا و سلام کے اپنانے سے بھی روکا تاکہ ان کی تہذیبی روایات مسلمانوں میں در نہ آئیں۔ آپ نے فرمایا: "لاتسلموا تسليم اليهود والنصاریٰ فإن تسليمهم بالأکف والرء وس والإشارة" "یہود اور نصاریٰ کا طرزِ سلام اختیار نہ کرو۔ وہ ہاتھ، سر اور اشارہ سے سلام کرتے ہیں۔"
یہود و نصاریٰ کے سر اور ہاتھ کے مخصوص اشارے والے سلام کے علاوہ آپ نے مشرکین عرب کے اندازِ سلام و کلام کو بھی پسند نہیں فرمایا۔ جب غزوئہ بدر میں مشرکین مکہ شکست کھا کر غم وغصہ میں تلملا رہے تھے تو صفوان بن امیہ نے عمیر بن وہب جمحی کو آپ کے قتل کے لئے بھیجا۔ عمیر نے مدینہ پہنچ کر مسجد ِنبوی میں آپﷺ سے ملاقات پر صبح بخیرکہا تو نبیﷺنے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمہارے اس تحیہ سے بہتر ہے یعنی سلام سے ، جو اہل جنت کا تحیہ ہے"۔
آپ نے مسلمانوں کو السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ' جیسا سلامتی والا سلام سکھایا ہے اور ساتھ یہ بھی تلقین کی ہے کہ یہ تمہارا مخصوص ثقافتی شعار ہے، تم نے اپنے اس ثقافتی شعار (Symbol) کو یہود ونصاریٰ کے لئے قطعاً پیش نہیں کرنا ہے: لاتبدؤا اليهود ولا النصاریٰ بالسلام "یہود ونصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو"۔آپﷺ کو اپنے پاکیزہ کلچر کی کسی درجے میں بھی اِہانت گوارا نہ تھی؛ بایں سبب غیر مسلم کے لئے السلام علیکم کہہ کر ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ کیونکہ یہ اغیار کی ثقافت کا حصہ نہیں ہے بلکہ خاص مسلم ثقافت کی پہچان ہے۔
بوقت ِملاقات ایک انسان کا دوسرے کی بڑائی کے لئے اس کے آگے جھکنا انسانیت کی تذلیل ہے کیونکہ بندہ خالق کی بجائے اپنے جیسے ایک دوسرے بندے کے آگے جھک رہا ہے۔ آپ نے اپنی ثقافت میں اس ذلت سے انسانیت کو نکال کر برابری کے درجے میں ملنے کو رواج دیا اور فرمایا: لا ينحی الرجل للرجل...
اسی طرح عجمی طرزِ استقبال کو بھی؛جس میں کسی بڑے کی آمد پر کھڑے ہونے کا رواج تھا؛ آپﷺ نے یہ کہہ کر ردّ کردیا : "لا تقوموا کما يقوم الأعاجم"اس استقبال میں بھی شرفِ انسانی پامال ہوتا تھا۔ آپﷺ نے ایسے کلچر کو قطعاً فروغ دینا مناسب نہیں سمجھا، اس لئے عجمی کلچر کی نفی کی۔ غیر اسلامی تہذیبیں اپنے علمبرداروں میں تکبر و غرور کو خوب پروان چڑھاتی ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور لباس فاخرانہ انداز کے عکاس ہوتے ہیں، درحقیقت یہ کبرو نخوت کا وطیرہ اخلاقیات کی دنیا میں اخلاقِ رذیلہ میں شمار ہوتا ہے جب کہ آپﷺ اخلاقِ فاضلہ کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوئے تھے: "إنما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق""میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں" یہی وجہ ہے کہ آپ نے لباس اور چال ڈھال میں متکبرانہ رویے کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی اور فرمایا:
"إن الله لا ينظر إلی من جرثوبه خيلاء" "اللہ اس شخص کی طرف نظر تک نہیں اٹھاتے جو تکبر سے اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر چلتا ہے"
نیز قرآن نے بھی نصیحت ِلقمان نقل کی ہے:
﴿لاَ تَمْشِ فِیْ الأرْضَ مَرَحًا، إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الاْٴَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً﴾ "زمین پر اکڑ کر مت چل، اس سے نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔"
آدابِ خوردونوش کسی کلچر کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ آدمی کی پہچان کھانے کی میز پر ہوتی ہے۔ آپ نے مسلم دسترخواں پر حلال اور طیب اشیا سجانے کی اجاز ت دی ہے۔ اس کے برعکس حرام اور خبیث اشیا کی طرف ہاتھ بڑھانے کی قطعاً اجازت نہیں دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلی یا چوہے، کتے یا خنزیر کے غلیظ گوشت کبھی بھی مسلمانوں کے دستر خوان کی زینت نہیں بنے۔
علاوہ ازیں فرداً فرداً کھانے کی عربی ثقافت میں تکبر کی بو اور باہمی پیار محبت کا فقدان نظر آتا تھا۔اس لئے آپﷺ نے مل کر کھانے کو باعث برکت قرار دیتے ہوئے اس کلچر کو رواج دیا۔ نیزمیلے کچیلے ہاتھ منہ کے ساتھ کھانے پر جھپٹ پڑنے کی بجائے ہاتھ دھوکر، بسم اللہ پڑھ کر، اپنے سامنے سے اطمینان اور سکون کے ساتھ کھانے کا انتہائی مہذبانہ کلچر پروان چڑھایا۔ کوئی بھی غیراسلامی تہذیب آج تک اس مسلم ثقافت کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
حضرت عبداللہ بن سلام کی طرح کچھ لوگ ترکِ یہودیت کے بعد اسلام میں داخل ہوئے۔ سابقہ مذہبی اثرات کے تحت ہفتے کے دن کو متبرک گردانتے ہوئے اس دن کی تعظیم، رات کی عبادتی رسم کی ادائیگی اور تورات کی چند آیتوں کے موافق عمل کرنے کی آپ سے اجازت چاہی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَافَّةً﴾ مسلمانو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، یعنی اسلام اپنے ساتھ تہذیب ِاغیار کی ذرا سی آلائش بھی گوارا نہیں کرتا بلکہ دو ٹوک ثقافتی جنگ کا اعلان کرتا ہے۔
آپﷺ نے یہودیوں کے متبرک دن ہفتے اور عیسائیوں کے متبرک دن اِتوار کو چھوڑ کر اپنے لئے جمعہ کے دن کو پسند فرمایا۔یعنی ہفتہ وار مذہبی عبادت کے لئے دوسرے مذاہب کے طور اطوار اپنانا تو دور کی بات ہے، آپ نے دن کی مماثلت بھی گوارا نہیں کی بلکہ جگہ جگہ ثقافتی ٹکر مول لی۔ اغیار کی اجارہ داری کے سامنے یا اپنی رواداری کے نام پر ثقافتی جنگ میں قطعاً نرم رویہ نہیں دکھایا۔ بلکہ معاشرتی روایات ہوں خواہ مذہبی رسومات، ہر جگہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر سلامتی پر مبنی روایات اور خالص عبادات پر مبنی ثقافت کو ترویج دی۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں 'امام الجاہلیہ' کا باب باندھ کر اس ٹکراؤ کی نشاندہی کی ہے۔نماز کے لئے اعلان یا بلاوے کے حوالے سے جب آپ کے سامنے نرسنگا کی تجویز رکھی گئی تو آپ نے اس کو ناپسند فرمایا کہ یہ یہود کا کام ہے، اس کے بعد ناقوس کی تجویز سامنے آئی تو آپﷺ نے اسے بھی نصاریٰ کا کام کہہ کر ناپسند قرار دیا۔ثقافتی جنگ یہاں بھی جاری تھی اور آپ اہل کتاب سے عبادت میں کسی طور مشابہت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ اہل کتاب کا قبلہ پسند نہیں رہا بلکہ یہاں بھی تبدیلی ضروری جانی۔باربار اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے بیت اللہ کو قبلہ ٹھہرائے جانے کی التجا میں ثقافتی جنگ کی روح کارفرما نظر آتی ہے۔ بالآخر یہود و نصاریٰ کے قبلے کی بجائے اپنی پسند کے قبلے کی طرف رخ کرنے کی اجازت مل گئی۔
غیر اسلامی تہذیبوں سے مذہبی مشابہت پیغمبر انقلاب علیہ الصلوٰة والسلام کے مزاج کے خلاف تھی، اس لئے اوقاتِ عبادات بھی الگ مقرر کئے اور اغیار کے اوقاتِ عبادت مثلاً طلوعِ آفتاب ، غروبِ آفتاب کے وقت عبادت ممنوع قرا ردی۔
طریق عبادت میں بھی ثقافتی ٹکراؤ جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ایک آدمی کوبائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ کر آپﷺنے منع فرماتے ہوئے کہا: إنها صلاة اليهود یہ یہودیوں کی سی نماز ہے ۔ اسی طرح یہود کی مخالفت کا حکم دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: خالفوا اليهود فإنهم لايصلون فی نعالهم ولاخفافهم" "یہودجوتے اور موزے میں نماز ادا نہیں کرتے ، تم اس میں ان سے مخالفت کرو"
نماز کے بہت سے مسائل کی طرح روزے کے بارے میں بھی مخالفت والا رویہ ظاہر و باہر ہے۔ سحری کو اپنے اور اہل کتاب کے روزہ کے درمیان فرق قرار دے کر روزے کے آغاز سے ہی مخالفت کی بنیاد رکھی اور فرمایا: "فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الکتاب: أکلة السحور" "ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان بنیادی فرق سحری کھانا ہے۔"
آپﷺ نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے لئے روزے کی افطاری میں تعجیل کو اظہارِ دین کا سبب قرار دیا ہے۔ یعنی جب تک مخالفت برقرار رہے گی، افطاری بلاتاخیر ہوگی، مسلمان غالب رہیں گے؛ اس کے برعکس اگر مخالفت ترک کردیں ، افطار میں تعجیل کی بجائے احتیاط کے نام پر تاخیر در کر آئے گی تو غلبہ دین باقی نہیں رہے گا۔ حدیث ِنبوی کے الفاظ کچھ یوں ہیں: "لايزال الدين ظاهرا ماعجل الناس الفطر لأن اليهود والنصاریٰ يؤخرون" "دین اسلام اس وقت تک غالب رہے گا جب تک مسلمان افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاریٰ اس میں تاخیر کرتے ہیں۔"
حضرت اُمّ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہفتے اور اتوار کے دن اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور فرماتے کہ إنهما يوما عيد للمشرکين وأنا أريد أن أخالفهم" "یہ مشرکوں کی عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا پسند کرتا ہوں۔"
یہودی عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے، آپﷺ نے ان کی مخالفت کے لئے صحابہ کو حکم دیا صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود
نماز اور روزے کی طرح حج میں بھی اَغیار کی مخالفت کا رجحان جاری ہے۔ مشرکین عرب حج کے دوران غروبِ آفتاب سے قبل عرفات سے چل پڑتے تھے اور مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب کے بعد روانہ ہوتے۔ آپﷺ نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے عرفات سے غروبِ آفتاب کے بعد اور مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب سے قبل کا اسلامی طریقہ جاری کیا
سیرتِ نبویﷺ کا تفصیلی مطالعہ ایسے بہت سے اُمور سامنے لاتا ہے۔ جن میں آپﷺ نے ثقافتی جنگ لڑی۔ چند روایات کی نشان دہی کی جاچکی ہے۔کیا یہ ساری مخالفت، مخالفت برائے مخالفت کی سوچ کے تحت تھی یا اعلیٰ اخلاقی اقدار اور بہترین تہذیبی روایات کو فروغ دینیکی خاطر تھی؟حقیقت یہ ہے کہ اس مخالفت کا سبب غیرمسلم تہذیبی روایات کا شر تھا یا پھر ان روایات کا کفر کا نمائندہ ہونا تھا۔ ورنہ اسلام کا یہ مزاج قطعاً نہیں ہے کہ مخالفت کے نام پر برائی کے ساتھ ہر اچھائی کی بھی مخالفت کرتا چلا جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ تہذیب ِاسلامی کے بالمقابل اس دور کی دیگر تہذیبیں اعلیٰ تعلیمات اور بہترین تہذیبی روایات میں مقابلہ کرنے سے قاصر تھیں۔ علاوہ ازیں اسلامی تہذیب میں زندگی کے ہر میدان میں جدت (Modernization) اور ترقی کی گنجائش موجود ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں تہذیب ِانسانی کے ارتقا میں اسلامی تہذیب نے بھرپور کردار ادا کیا۔حتیٰ کہ مغربی دانشور وں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ آج بھی اسلامی تہذیب میں یہ صلاحیت باقی ہے۔ صرف اس تہذیب کے ماننے والوں میں حضرت عمر جیسے پختہ فکر حاملین کی ضرورت ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بیت المقدس کی فتح پر چابیاں پیش کرنے کے لئے اہل کتاب نے یاد کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ کپڑے پیوند زدہ تھے۔ سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے اعلیٰ لباس پہننے کی گذارش کی تو فرمایا کہ ہمیں عزت اسلام کی بدولت نصیب ہوئی ہے لباس کی بدولت نہیں۔
اسلام اور اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی اسلامی تہذیب کل بھی عزت بخشنے والی تھی اور آج بھی ہے، کل بھی ہوگی۔ اور صرف اور صرف یہی تہذیب انسانیت کے لئے سلامتی کا پیغام اور بہترین طرزِ زندگی کا نمونہ پیش کرسکتی ہے؛ جس میں ہر علاقے، موسم اور افراد کے مطابق لچک موجود ہے اور اسی لچک کی بدولت اسلامی تہذیب دنیا میں ہرجگہ چل سکی۔ یہ تہذیب بنیادی ٹھوس فکری راہنمائی میں تو لچک نہیں دیتی لیکن ظاہری رویوں میں کفر و شرک کی نمائندہ نہ ٹھہرنے والی تمام روایات کے ساتھ نبھا کا سبق دیتی ہے۔ فطرتِ انسانی کی ہر خواہش پر پہرے بٹھانے یا شتر بے مہار کی طرح آزاد چھوڑنے کی بجائے اسے اعتدال کی راہ دکھاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں پھر سے اپنی اسلامی تہذیب کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ذہنی طور پر مرعوب ہونے کی وجہ سے ہمیں اسلا م تو پسند ہے لیکن اسلامی تہذیب پسند نہیں جبکہ سیرت النبی کی تعلیمات اس کے برعکس ہے۔
آپﷺاپنے ہر خطبے میں فرمایا کرتے تھے: خير الهدی هدی محمدﷺ یعنی "محمد ﷺ کا تہذیبی رویہ ہی سب سے بہتر تہذیبی رویہ ہے"۔اس تہذیب کے دامن پر کوئی سیاہ دھبہ نہیں ہے؛ بلکہ ليلها کنهارهاکہ اس کی توراتیں بھی دن جیسی روشن ہیں اور اس تہذیب کا معاشرتی و سماجی رویہ اپنے اندر بڑی کشادگی رکھتا ہے۔ ایک دفعہ عید کے موقع پر حبشی اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ ا نے انہیں دیکھ کر فرمایا: ليعلم اليهود أن فی ديننا فسحة "یہودیوں کو خبر ہونی چاہئے کہ ہمارا دین یعنی ہماری ثقافت بڑی وسعت رکھتی ہے۔"
اس روایت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلامی تہذیب تنگ نظر یا گھٹن والے رویے کی آئینہ دار نہیں ہے البتہ نام نہاد آزادی کے نام پر آوارگی پھیلانے والے، انسانیت کے لئے تباہ کن تہذیبی رویوں کی ضرور مخالف ہے۔ آج ہمیں مغرب کی بڑھتی ہوئی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں اپنے کردار اوررویے کا سیرت النبی کی روشنی میں جائزہ لینا چاہئے۔ ان کے 'تھنک ٹینک' انہیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ عسکری چڑھائی کے ذریعے کوئی ملک فتح کرنا مشکل ہے اور اس پر قبضہ رکھنا دنیا بھر سے بدنامی کاباعث ہے۔ اس کی بجائے تہذیبی تصادم کی راہ اپناتے ہوئے تہذیبی غلبہ پائیں اور پھر تہذیبی لوازمات فروخت کرکے خوب دولت کمائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج مسلمان علمی دنیا میں یتیم، سیاسی طور پر غیر مستحکم اورمالی طور پر بدحال ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہاورڈیونیورسٹی کے مشہور سکالر پروفیسر سموئیل ہنٹنگٹنThe Clash of Civilizations جیسے معروفِ زمانہ مقالے لکھ کر اہل یورپ کو تہذیب ِاسلامی سے تصادم کی راہ دکھا رہے ہیں اور مغرب نے موجودہ عالمی غلبہ کے زعم میں اپنی ثقافت کے پرچار میں سب کچھ روا سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ یہ کلچر انسانیت کے لئے تباہی کا پیغام لا رہا ہے۔ خود ان کے ہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ خاندانی نظام بالکل نیست و نابود کردیا گیا ہے۔ عزت و آبرو اور غیرت و حمیت نامی الفاظ ان کی ڈکشنریوں سے غائب ہونے کو ہیں۔ منافقت اور خود غرضی کو چالاکی اور دانش مندی سمجھا جاتاہے۔ دورُخی زندگی اور دوغلا پن کو سیاست اور ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اپنے استعماری غلبے کے دوام کی خاطر جگہ جگہ خاص طور پر خونِ مسلم کی ارزانی ان کے لئے تفریح طبع کا درجہ رکھتی ہے۔ جبکہ برصغیر کے نامور سیرت نگار قاضی محمد سلیمان منصورپوری کی تحقیق کے مطابق محمدی انقلاب کے ۲۳ سالہ دور میں کل ۹۱۸/افراد مسلم و غیر مسلم کام آئے تھے۔ وہاں تہذیبی غلبہ کے پیچھے یہ روح کارفرما تھی کہ پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا ہوجائے: ﴿هُوَالَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَه بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلٰی الدِّيْنِ کُلِّه﴾"وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کربھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔"
اور یہاں سرتاپا استعماری ذہنیت کارفرما ہے۔ وہاں پہلے 'غزوِفکری'پھر اعلیٰ تہذیبی روایات کے مظہر معاشرے کا قیام اور آخرمیں اس کے علانیہ مخالفین سے مسلح ٹکراؤ (Armed Confilict) تھا۔یہاں پر صرف سپر پاورکہلانے کا شوق ہے لیکن اس شوق کی تکمیل کے لئے اعلیٰ فکری تعلیمات اور بے مثال تمدنی روایات کی تہذیبی تائید موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں موجودہ مرعوبانہ ذہنیت سے چھٹکارا پانا ہوگا، جس میں یورپ سے آمدہ ہر روایت سونے کی طرح چمکدار نظر آتی ہے، حالانکہ"ہر چمک دار چیز سونا نہیں ہوتی!"
اسی طرح وہاں سے آمدہ ہر روایت کو ردّ کرنے کا رویہ اپنانے کی بجائے آپ کی سنت کے مطابق ایمان و عمل کے لئے غیر مضر کو قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں سمجھنا چاہئے۔ آج ہمیں اپنے آپ کو توازن واعتدال کی راہ پرگامزن ہو کر اس ثقافتی یلغار کا بغور جائزہ لینا ہوگا اور ہر روایت کو خذ ما صفا ودع ما کدر کی چھلنی سے گذار کر جرأت مندانہ پالیسی اپنانا ہوگی۔جیسا کہ آپ نے غیلة (حاملہ کا دودھ پلانا)کے بارے میں روم وفارس کے رویے کو قبول کرلیا۔ نکاح کے بارے میں عرب روایات میں سے شرف ِانسانی کے لائق روایات کو قبول کیا اور باعث ِعار کو ردّ کردیا۔زنا کی لعنتی رسم اور اس سے پیدا شدہ بچے پردعویٰ کی رسم جاہلیت کے خاتمے کا اعلان فرمایا: ذهب أمر الجاهلية...الخ اور زانی کے لئے رجم کی سزا مقرر فرمائی۔
آج بھی آپ جیسی مدبرانہ فراست کی ضرورت ہے۔ اپنی ثقافتی بنیادوں پر تعصب کی حد تک ایمان پختہ کرنا ہوگا۔ آج کھوکھلی مغربی ثقافت کی ظاہری چمک دمک کے سامنے ذ ہنی مرعوبیت کا شکار ہونے کی بجائے اس کی تباہ کاریوں کو طشت از بام کرنے کی ضرورت ہے۔انسانیت کے لئے انتہائی مہلک رویوں کی علمبردار ہونے کی بنا پر اس مغربی ثقافت سے نفرت کی روش اختیار کرنی چاہئے۔نیز اسلامی تہذیبی روایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے احساسِ ندامت و شرمندگی کی بجائے اس نمائندگی کو باعث ِعزو شرف گرداننا چاہئے کہ ہمیں انسانیت کے لئے اعلیٰ و اکمل تہذیب کے امین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آج کی فکری درماندگی اور تہذیبی طور پر درندگی کا شکار انسانیت اعلیٰ علمی، فکری و ثقافتی قدروں کی متلاشی ہے۔ سیاسی و ثقافتی استعمار کی یہ خواہش ہے کہ ہر طرح سے ا س کا ہی بول بالا ہو یا کم از کم دو متضاد فکری نظام یعنی حق و باطل پہلو بہ پہلو چلتے رہیں تاکہ اس باطل کے وجود اور بقا کی ضمانت (Lease of Existance) رہے۔ لیکن حق و باطل کے مابین پرامن بقائے باہمی (Peaceful Co-existan) خود باطل ہے کیونکہ حق کے بعد سراسر گمراہی ہے﴿ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلاَلِ﴾ اور یہ باطل اور ضلالت ختم ہونے والی ہے ﴿إِنَّ الْبَاطِلِ کَانَ زَهُوْقًا﴾ لہٰذا نظریاتی ٹکراؤ اور تہذیبی تصادم کے سوا چارہ نہیں۔ غالب نظریہ اور اس بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی تہذیب کا لامحالہ دوسرے نظریات اور تہذیبوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اگر تصادم کے سوا کوئی راستہ ہوتا تو انبیاء ہرگز اس تصادم کی راہ پر نہ نکلتے۔
آج اگر دنیا بھر کے سیاسی و ثقافتی میدانوں میں امریکی بالا دستی (Pax-Americana) ہے تو کل تک برطانوی بالادستی(Pax-Britainica) تھی۔ وہ بھی نہ رہی، یہ بھی نہ رہے گی۔ بہت جلد یہ تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرکے اپنا وجود کھونے والی ہے۔ اس کی جگہ لینے کے لئے مسلم کلچر کو تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں یہ تبدیلی نہ صرف ممکن بلکہ یقینی جان کر بھرپور تیاری کرنی چاہئے۔ تہذیبی ٹکراؤ اور اس کے بعد اسلامی ثقافتی یلغار کے لئے بڑی دانش مندی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ تیاری کھوکھلے نعروں کی بجائے ٹھوس علمی فکری بنیادوں پر ہمہ جہتی ہونی چاہئے۔
نیز یہ حقیقت بھی ذہن نشین ر ہنی چاہئے کہ اسلامی تہذیب میں وحدت ہے، یکسانیت نہیں یعنی فکری اساس ایک ہے عملی مظاہر میں اَحوال و ظروف کی مناسبت سے فرق کی گنجائش ہی اس کی کامیابی کا راز ہے۔
آج کل دنیا کو یک قطبی (Uni-Polar) بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ لیکن غالب اقوام کے پاس وہ ٹھوس علمی و فکری راہنمائی اور بہترین عملی نمونہ موجود نہیں ہے جو ہر جگہ قابل قبول بھی ہو۔ جبکہ ہم اسلامی تہذیب کی صدیوں پر محیط تاریخ شاہد ِعدل کے طور پر پیش کرسکتے ہیں جس میں اسلامی تہذیب نے چار دانگ عالم میں آدابِ ملاقات، طرزِ لباس، آدابِ خوردونوش، طرزِ تحریر،اندازِ تعمیر سے لے کر دستورِ حکمرانی تک ہر ایک میں نمایاں لیکن کامیاب تبدیلیاں کیں۔ اس تہذیبی غلبے نے اپنے سائے میں صدیوں انسانیت کو پرامن، پرسکون اور باوقار زندگی گزارنے کے لئے سنہری ایام مہیا کئے۔تاریخ اپنے آپ کو دہرانے والی ہے۔ یہ سنہری دن پھر سے لوٹنے والے ہیں۔ اے کاش! امت ِمسلمہ بروقت ہوشیار ہو جائے۔
آج مکالمے(Dialogue) کا دور ہے۔ مغربی اقوام سے برابری کی سطح (Equal Footing) پر بات کرنے والے مسلم سکالرز کو ثقافتی جنگ میں اپنے رول سے آغاز کرنا چاہئے۔ مغربی ثقافت کے علمبرداروں کے سامنے اس کے عیوب و نقائص اور لائی ہوئی انسانی تباہی کی حقیقی تصویر پیش کرنی چاہئے جوکہ استعماری الیکٹرانک میڈیا نے چھپا اور دبا رکھی ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی تہذیب کی طویل تاریخی شہادت، ٹھوس علمی فکری راہنمائی اور عملی انطباقات کو کھل کر پیش کرنا چاہئے۔ ڈائیلاگ کے علاوہ زندگی کے ہر میدان میں تہذیبی لوازمات کے حوالے سے ضروری تیاری بھی جاری رہنی چاہئے تاکہ آمدہ تہذیبی تصادم میں کسی موڑ پر پسپائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ * "نو اور دس محرم دونوں کا روزہ رکھواور یہود کی مخالفت کرو"
No comments:
Post a Comment