Sunday, 29 May 2011

Aathwa Ajooba - Online Books

آٹھواں عجوبہ

محمّد اسد اللہ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چھٹی کلاس میں تھا اس سال ہمارا اسکول شروع ہوا تو ہماری کلاس میں ایک نئے لڑ کے کا داخلہ ہوا۔نام تھا اسکا جنید ۔ مجھے میرے دوست عامر نے بتایا کہ جنید کے والد ڈبلیو سی ایل میں ملازم ہیں اور ابھی ابھی ان کا بھوپال سے یہاں ٹرانسفر ہوا ہے ۔
ٍجنید بہت ہی دبلا پتلا تھا ۔لگتاتھا ذرا پھونک ماریں گے تو اڑ جا ئے گا۔ رنگ سانولا،آنکھیں نیپالی لوگوں جیسی چھوٹی چھوٹی سی ،بال گھنگرالے ،پتہ نہیں کیوں پہلی مرتبہ اسے دیکھ کر مجھے لگا جیسے میں کسی چوہے کو دیکھ رہاہوں ۔ وہ تمام طلبا ء سے ذرا الگ قسم کا تھا ۔ اسکے دبلے پن کے باوجود ایسا محسوس نہیں ہو تاتھاکہ وہ کمزور ہے۔ کسی حد تک گٹھا ہو ا بدن ،چوہے جیسی چستی پھرتی اس میں تھی۔ ایک تو وہ اجنبی اور حلیہ سب سے جدا لڑکوں نے اسے آ ڑے ہاتھوں لیا اور ستانا شروع کردیا۔
پہلے ہی دن جب وہ سیڑھوں کے پاس کھڑا تھا میری کلاس کے سارے لڑکے جو وہاں سے گذر رہے تھے، جاتے جاتے اس کے سر پر ٹپّو مارتے جا رہے تھے ۔ دوسرے دن چھٹّی کے دوران وہ باہر نکلا تو اس کی پیٹھ پر کا غذ کا پر زہ چپکا ہوا تھا جس پر لکھا تھا
’نیپالی چوہا ‘۔
سبھی جانتے تھے کہ یہ حرکت اسامہ کی تھی ۔ اسامہ ہماری کلاس کا سب سے زیادہ شریر بلکہ خطرناک طالبِ علم تھا۔ پو ری کلاس پر اپنی دھاک جمائے ہو ئے تھا۔ جہاں کسی نے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیا تووہ اس کا دشمن بن جاتاتھا۔ ہم سب گھبر اگئے کہ اب اس نے نہ جانے کیوں جنید کو اپنا نشانہ بنالیا تھا ۔ شایدنیاطالبِ علم دیکھ کر اسے نئی شرارت سوجھی تھی ۔ اسامہ خوب موٹا تازہ تھاا سے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے بڑے سے تکئے میں خوب ٹھونس ٹھونس کر روئی بھر دی ہو ۔البتّہ وقت پڑے تو تیزی سے بھاگنا اس کے بس کی بات نہ تھی ۔ سومو پہلوانوں جیسادکھائی دیتا تھا۔طاقت تو کچھ زیادہ نہ تھی ،بس اپنے مو ٹاپے اور شرارتوں کے بل پر سب کو ڈراتا رہتا تھا۔

دو چار دن گذرے ہوں گے کہ اسکول اسیمبلی میں پیش درس کے بعد اعلان کیا گیا کہ کل کسی لڑکے کا بیگ گم ہو گیا ہے ،کسی کو نظرآ ئے تو آفس میں اطلاع دے۔ اس دن چھٹّی کے دوران چند بچّوں نے چپراسی کو بتایا کہ اسکول کے کنارے ایک درخت کی شاخوں پر کسی کا بیگ لٹکا ہوا ہے ۔ چپراسی نے چڑھ کر اسے نکالا توپتہ چلا وہ جنید ہی کا کھویا ہو بستہ تھا۔دھیرے دھیرے جنید کے ساتھ شرارتوں کا سلسہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ جنید یہ سب چپ چاپ سہتا رہا، اس کی طرف سے اس سلسہ میں کو ئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب چھوٹے چھوٹے بچّے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے ۔
ان دنوں، اسامہ جو اب تک صرف اپنی کلاس کے لڑکوں سے لڑتا رہتا تھا ،بڑی کلا س کے طلباء سے بھی الجھنے لگا تھا۔اس کی شکایتیں بار بار اساتذہ تک پہنچتی تھیں ۔ اسے دیکھ کر دوسرے لڑکے بھی لڑائی جھگڑے کر نے لگے تھے ۔کئی ٹیچرس یہ سوچتے تھے کہ ایسی گندی مچھلی کو جو سارا تالاب گندہ کر سکتی ہے نکال باہر کر نا چاہئے لیکن اسامہ کے والد اس شہر کے نامی گرامی لو گوں میں تھے اسکول مینیجمنٹ سے ان کے بڑے اچّھے تعلّقات تھے اس لئے اس پر ہاتھ ڈالنا اتنا آ سان نہ تھا۔ ٹیچرس بھی امیر باپ کی اس بگڑی اولاد کے آ گے مجبور تھے پھر بھی سبھی چاہتے تھے کے اسکول کے ماحول میں رہ کر وہ سدھر جائے اسی لئے گاہے بگاہے اسے
سمجھاتے رہتے تھے ۔


کو لوٹ رہے تھے ،راستے میں کئی لڑکے کھڑے نظر آ ئے ۔ ان کے تیور کچھ اس قسم کے تھے گویا وہ کسی کا انتظار کر رہے تھے اور اس کی پٹائی کر نا چاہتے تھے ۔ہم لوگ تھوڑی دیر وہاں رکے اس کے بعد ساری گڑ بڑ شروع ہو گئی شاید ان بدمعاش لڑکوں کو ان کا شکار مل گیا تھا ۔ سب مل کر اسے پیٹنے لگے ان کے ہاتھوں میں ہا کی اسٹکس اور بیلٹ تھے۔ وہ سب مل کر اسکول کے کسی لڑکے کی پٹا ئی کر رہے تھے ۔یہ منظر اتنا بھانک تھا کہ طلبا کی وہاں رکنے کی ہمّت ہی نہ ہوئی ۔
دوسرے دن جب ہم اسکول پہنچے تو پتہ چلا اسامہ کی حرکتوں سے پریشان بڑی کلاس کے طلباء نے جب کئی بار ٹیچرس سے اس کی شکایت کی اور اسکول کی طرف سے کوئی کاروائی نہ ہوئی تو انھوں نے خود ہی اسے سبق سکھانے کا ارادہ کیا ۔اس شام اسے سب نے مل کر گھیرا اور بری طرح پیٹ دیا ۔ پٹائی کر کے بڑی کلاس کے لڑکے چلے گئے تو وہاں کو ئی بھی نہ تھا۔ مارے ڈر کے سارے لڑکے غائب ہو چکے تھے ۔ سوائے جنید کے جو یہ سارا تماشادیکھ رہا تھا۔اسامہ خون میں لت پت تھا اور اٹھنے کے قابل بھی نہ تھا ۔ سب کے جانے کے بعد جنید نے اسے کسی طرح اٹھا کراسکول پہنچایا ۔

دو تین دن بعد جب اسامہ اسکول آیا تو اس کے ہاتھ پاؤں پر پٹّیاں بندھی تھیں اور سرپر چوٹ کے نشانات تھے ۔اسکول کے پی۔ٹی۔ آ ئی انیس سر کا پیریڈ تھا ۔کو ئی اجنبی ،شاید کسی اسٹوڈنٹ کے والد ان سے ملنے آ ئے تھے ۔دیر تک کلاس سے باہر دروازے پر کھڑے ان سے باتیں کر تے رہے اور پھر انیس سر انھیں کلاس میں لے کر آ ئے اور طلبا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ،’یہ شیخ اکرام صاحب ہیں ،ہماری کلاس میں جو جنید ہیں ان کے والد ،یہ آپ لوگوں سے کچھ کہنا چاہتے ہیں‘۔اس کے بعد جنید کے والد نے نرم لہجے میں طلبا سے کہنا شروع کیا’ بچّو! میرا بیٹا جنید آ پ کے ساتھ پڑھتا ہے ہم لوگ اس شہر میں نئے آئے ہیں ۔مجھے کئی دنوں سے یہ شکایت مل رہی ہے کہ آپ لوگوں میں سے کچھ لڑکے اسے پریشان کر رہے ہیں اور وہ خاموشی کے ساتھ بر داشت کر رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ آپ سے ڈرتا ہے اور اسے بدمعاش لڑکوں سے نمٹنانہیں آتا ۔میں آ پ کو بتا دوں کہ وہ کراٹے کا ماہر ہے اور بچّوں کے کراٹے کے مقابلوں میں نیشنل چیمپین ہے اور کراٹے کے مقابلوں میں کئی انعامات حاصل کر چکا ہے ۔اس کی کراٹے کلاس میں اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کریں اور نہ بدلہ لیں ۔اسی لئے وہ خاموش ہے لیکن تمہاری زیادتیاں حد سے بڑھنے لگیں اور وہ شروع ہو گیا تو تم مشکل میں پڑ جاؤ گے ،اس لئے بہتر ہے اسے ستانا چھوڑ دو ‘۔یہ کہہ کر وہ چلے گئے ۔
اسامہ نے اپنے سر پر بندھی پٹّیوں کے نیچے سوجھی ہو ئی آنکھیں پھاڑ کر ڈری ڈری نظروں سے جنید کو دیکھا وہ اپنے ڈیسک پر اس طرح خاموش اور مطمئن بیٹھا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔

اسامہ کی نظروں میں ڈر بھی تھا شکر گذاری بھی اور حیرت بھی جیسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ اس کے سامنے ہو۔

No comments:

Post a Comment