بسم الله الرحمن الرحيم
دوسرے رمضان كے بعد تك قضاء ميں تاخير كرنا اور قضاء سے قبل فديہ دينا
﴿ تأخير القضاء إلى ما بعد رمضان الثاني، وهل يفدي قبل أن يقضي؟﴾
فتوى : محمد صالح المنجد حفظہ اللہ مراجعہ : شفیق الرحمن ضیاء اللہ مد نی
دوسرے رمضان كے بعد تك قضاء ميں تاخير كرنا اور قضاء سے قبل فديہ دينا
رمضان المبارك شروع ہوا تو ايك مسلمان بہن كے پچھلے رمضان كے چھ روزے ابھى باقى تھے، دوسرا رمضان ختم ہونے كے بعد مجھ سے اس نے پوچھا كہ اس پر كيا لازم آتا ہے، ميں نے پوچھنےاور مطالعہ كرنے كے بعد اسے كہا كہ اس كے ذمہ قضاء اور ہر دن كے بدلے فديہ ہے، اور ہم نے ہر دن كے بدلے ڈ يڑھ كلو گندم ادا كر دى، اور مكمل چھ دن كا فديہ اپنے ايك يتيم ہمسائے كو دے ديا، يہ علم ميں رہے كہ اس نے اپنے ذمہ قضاء روزوں كو ابھى تك مكمل نہيں كيا، تو كيا فديہ كى يہ مقدار صحيح ہے ؟
اور كيا قضاء سے قبل ا سكا فديہ ادا كرنا صحيح شمار ہو گا ؟
الحمد للہ:
پہلى بات تو يہ ہے كہ:
فديہ صرف فقراء اور مساكين كو ہى ديا جا سكتا ہے، كسى اور كو نہيں، تواس بنا پر اگر يہ يتيم فقراء ہيں تو انہيں فديہ دينا جائز ہے، اور اگر وہ غنى اور مالدار ہوں تو پھر انہيں دينا جائز نہيں، بلكہ آپ اسے دوبارہ ادا كريں.
ہے اصل ميں وہ يہى ہے كہ غلہ ہى ديا جائے، اور نقدى كى شكل ميں فديہ كى ادائيگى جائز نہيں، اور قسم اور ظہار وغيرہ كے كفارہ، اور فطرانہ وغيرہ ميں بھى يہى قول ہے كہ جس ميں اللہ تعالى نے غلہ دينا فرض كيا ہے وہاں غلہ ہى ديا جائے.
دوم:
اصل مسئلہ كے متعلق گزارش يہ ہے كہ: پہلے رمضان كے روزوں كى قضاء ميں دوسرے رمضان كے بعد روزے ركھنے كے ساتھ فديہ و غلہ دينے ميں علماء كا اختلاف ہے۔
ليكن اگر بغير عذر ہو تو پھر قضاء ميں تاخيركرنے والے كو توبہ و استغفار كے ساتھ ـ جمہور علماء كے ہاں ـ قضاء كے ساتھ ہر دن كا فديہ بھى مسكين كو ادا كرنا ہو گا، ہم نے وہاں يہ بھى بيان كيا ہے كہ راجح يہى ہے كہ فديہ دينا واجب نہيں، ليكن اگر وہ احتياط كرتے ہوئے فديہ ادا كرتا ہے تو يہ بہتر اور اچھا ہے.
اور يہاں ہم ايك زائد امر بيان كرتے ہيں جو آپ كے سوال ميں آيا ہے وہ يہ كہ قضاء كے روزے ركھنے سے قبل فديہ دينا جائز ہے، كيونكہ فديہ تو قضاء ميں تاخير سے متعلق ہے، نہ كہ قضاء شروع كرنے سے متعلق.
اس بنا پر جس روزے كى قضاء ركھنا مقصود ہو اس دن سے قبل يا بعد ميں فديہ دينا جائز ہے. جاء في
" الموسوعة الفقهية " ( 28 / 76 ) ميں درج ہے:
" رمضان كى قضاء تاخير سے ہوگى، ليكن جمہور علماء نے اسے اس چیز کے ساتھ مقيد كيا ہے كہ اس كى قضاء كا وقت فوت نہ ہو جائے، وہ اس طرح كہ دوسرے رمضان كا چاند نظر آ جائے، كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:
" ميرے ذمہ رمضان كے روزے ہوتے تو ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مقام ومرتبہ كى وجہ سے شعبان میں ہی اسکی قضا کرپاتی تھی"-
جس طرح پہلى نماز دوسرى نماز تك مؤخر نہيں كى جا سكتى.
اور جمہور علماء كے ہاں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى اس حديث كى بنا پر بغير كسى عذر كے ايك رمضان كى قضاء كے روزے دوسرے رمضان تك مؤخر كرنا جائز نہيں، اور اگر وہ تاخير كرے تو اسے ہر روزے كے ساتھ ايك مسكين كو كھانا بھى كھلانا ہو گا.
كيونكہ ابن عباس اور ابن عمر اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ جس كے ذمہ رمضان كے روزے ہوں اور اس نے دوسرے رمضان تك نہ ركھے تو اس پر قضاء كے ساتھ ہر دن ايك مسكين كو كھانا بھى كھلانا ہو گا، اور يہ فديہ تاخير كى بنا پر ہے.... اور قضاء سے قبل يا قضاء كے ساتھ يا قضاء كے بعد فديہ دينا جائز ہے " انتہى. ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 76 ).
جن كے ہاں تاخير يا احتياط كى بنا پر فديہ دينا واجب ہے ان كے ہاں افضل يہ ہے كہ بھلائى كى جانب جلدى كرتے ہوئے، اور تاخير كى آفات اور نقصانات سے بچنے كے ليے فديہ قضاء سے قبل ادا كيا جائے، جس طرح بھول ميں ہوتا ہے.
المرداوى حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كھانے ميں وہ چيز دے جو كفارہ ميں كفائت كرتى ہے، اور قضاء سے قبل يا قضاء كے ساتھ يا بعد ميں كھانا كھلانا جائز ہے، المجد يعنى ابن تيميہ كے دادا كہتے ہيں: ہمارے نزديك تواسے مقدم كرنا افضل ہے، تا كہ خير و بھلائى ميں جلدى ہو، اور تاخير كى آفات اور نقصانات سے بچا جا سكے " انتہى. ديكھيں: الانصاف ( 3 / 333 ).
واللہ اعلم .
رمضان المبارك شروع ہوا تو ايك مسلمان بہن كے پچھلے رمضان كے چھ روزے ابھى باقى تھے، دوسرا رمضان ختم ہونے كے بعد مجھ سے اس نے پوچھا كہ اس پر كيا لازم آتا ہے، ميں نے پوچھنےاور مطالعہ كرنے كے بعد اسے كہا كہ اس كے ذمہ قضاء اور ہر دن كے بدلے فديہ ہے، اور ہم نے ہر دن كے بدلے ڈ يڑھ كلو گندم ادا كر دى، اور مكمل چھ دن كا فديہ اپنے ايك يتيم ہمسائے كو دے ديا، يہ علم ميں رہے كہ اس نے اپنے ذمہ قضاء روزوں كو ابھى تك مكمل نہيں كيا، تو كيا فديہ كى يہ مقدار صحيح ہے ؟
اور كيا قضاء سے قبل ا سكا فديہ ادا كرنا صحيح شمار ہو گا ؟
الحمد للہ:
پہلى بات تو يہ ہے كہ:
فديہ صرف فقراء اور مساكين كو ہى ديا جا سكتا ہے، كسى اور كو نہيں، تواس بنا پر اگر يہ يتيم فقراء ہيں تو انہيں فديہ دينا جائز ہے، اور اگر وہ غنى اور مالدار ہوں تو پھر انہيں دينا جائز نہيں، بلكہ آپ اسے دوبارہ ادا كريں.
ہے اصل ميں وہ يہى ہے كہ غلہ ہى ديا جائے، اور نقدى كى شكل ميں فديہ كى ادائيگى جائز نہيں، اور قسم اور ظہار وغيرہ كے كفارہ، اور فطرانہ وغيرہ ميں بھى يہى قول ہے كہ جس ميں اللہ تعالى نے غلہ دينا فرض كيا ہے وہاں غلہ ہى ديا جائے.
دوم:
اصل مسئلہ كے متعلق گزارش يہ ہے كہ: پہلے رمضان كے روزوں كى قضاء ميں دوسرے رمضان كے بعد روزے ركھنے كے ساتھ فديہ و غلہ دينے ميں علماء كا اختلاف ہے۔
ليكن اگر بغير عذر ہو تو پھر قضاء ميں تاخيركرنے والے كو توبہ و استغفار كے ساتھ ـ جمہور علماء كے ہاں ـ قضاء كے ساتھ ہر دن كا فديہ بھى مسكين كو ادا كرنا ہو گا، ہم نے وہاں يہ بھى بيان كيا ہے كہ راجح يہى ہے كہ فديہ دينا واجب نہيں، ليكن اگر وہ احتياط كرتے ہوئے فديہ ادا كرتا ہے تو يہ بہتر اور اچھا ہے.
اور يہاں ہم ايك زائد امر بيان كرتے ہيں جو آپ كے سوال ميں آيا ہے وہ يہ كہ قضاء كے روزے ركھنے سے قبل فديہ دينا جائز ہے، كيونكہ فديہ تو قضاء ميں تاخير سے متعلق ہے، نہ كہ قضاء شروع كرنے سے متعلق.
اس بنا پر جس روزے كى قضاء ركھنا مقصود ہو اس دن سے قبل يا بعد ميں فديہ دينا جائز ہے. جاء في
" الموسوعة الفقهية " ( 28 / 76 ) ميں درج ہے:
" رمضان كى قضاء تاخير سے ہوگى، ليكن جمہور علماء نے اسے اس چیز کے ساتھ مقيد كيا ہے كہ اس كى قضاء كا وقت فوت نہ ہو جائے، وہ اس طرح كہ دوسرے رمضان كا چاند نظر آ جائے، كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:
" ميرے ذمہ رمضان كے روزے ہوتے تو ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مقام ومرتبہ كى وجہ سے شعبان میں ہی اسکی قضا کرپاتی تھی"-
جس طرح پہلى نماز دوسرى نماز تك مؤخر نہيں كى جا سكتى.
اور جمہور علماء كے ہاں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى اس حديث كى بنا پر بغير كسى عذر كے ايك رمضان كى قضاء كے روزے دوسرے رمضان تك مؤخر كرنا جائز نہيں، اور اگر وہ تاخير كرے تو اسے ہر روزے كے ساتھ ايك مسكين كو كھانا بھى كھلانا ہو گا.
كيونكہ ابن عباس اور ابن عمر اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ جس كے ذمہ رمضان كے روزے ہوں اور اس نے دوسرے رمضان تك نہ ركھے تو اس پر قضاء كے ساتھ ہر دن ايك مسكين كو كھانا بھى كھلانا ہو گا، اور يہ فديہ تاخير كى بنا پر ہے.... اور قضاء سے قبل يا قضاء كے ساتھ يا قضاء كے بعد فديہ دينا جائز ہے " انتہى. ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 76 ).
جن كے ہاں تاخير يا احتياط كى بنا پر فديہ دينا واجب ہے ان كے ہاں افضل يہ ہے كہ بھلائى كى جانب جلدى كرتے ہوئے، اور تاخير كى آفات اور نقصانات سے بچنے كے ليے فديہ قضاء سے قبل ادا كيا جائے، جس طرح بھول ميں ہوتا ہے.
المرداوى حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كھانے ميں وہ چيز دے جو كفارہ ميں كفائت كرتى ہے، اور قضاء سے قبل يا قضاء كے ساتھ يا بعد ميں كھانا كھلانا جائز ہے، المجد يعنى ابن تيميہ كے دادا كہتے ہيں: ہمارے نزديك تواسے مقدم كرنا افضل ہے، تا كہ خير و بھلائى ميں جلدى ہو، اور تاخير كى آفات اور نقصانات سے بچا جا سكے " انتہى. ديكھيں: الانصاف ( 3 / 333 ).
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment