بسم اللہ الرحمن الرحیم
كيا شراب اور خنزير كا گوشت پيش كرنے والے ہوٹلوں ميں كھانا تناول كرنا جائزہے؟
ھل یجوزالأکل فی مطاعم تقِّدم الخموروالخنازیر؟
محمد صالح المنجد/حفظہ اللہ
مراجعہ : شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
کیا ہمارے لئے ایسے ہوٹل میں داخل ہونا جائز ہے جوشراب اورخنزیر پیش کرتے ہیں؟معلوم ہوکہ ہم نہ توشراب دیکھتے ہیں اورنہ ہی ہمارے سامنے کوئی شراب پیتا ہوادکھائی دیتا ہے,ہم فلسطین میں بیت اللحم کے علاقہ میں رہتے ہیں,جہاں پرشہرکے اکثرہوٹل مسیحیوں کے ملکیت میں ہیں,اورخاص طورسے عید کے موقع پرمسیحیوں کے ہوٹل کھلے رہتے ہیں اورمسلمانوں کے ہوٹل بند ہوتے ہیں,اورمیری سہیلیاں کچھ ہوٹلوں کوپسند کرتی ہیں,لیکن بعد میں یہ معلوم ہواکہ یہ ہوٹل توشراب پیش کرتے ہیں,تواس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟-
الحمد للہ
اول:
بہتر تو يہ ہے كہ ان كفار كو جنہوں نے مسيح ابن مريم كو معبود يا اللہ كا بيٹا بنا ركھا ہے" نصارى " كا نام ديا جائے، جيسا اللہ سبحانہ و تعالى نے كتاب ميں بھى اسى نام سے ذكر كيا ہے، كيونكہ مسيحي وہ لوگ ہيں جنہوں نے مسيح عليہ السلام كے رسول ہونے كى گواہى دي اور ان كى اتباع و پيروى كى، اور اپنے پروردگار كو الہ اور معبود مانا اور اسے اپنا رب تسليم كيا.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كچھ وقت سے كلمہ " مسيحى " كا استعمال مشہور ہو چکا ہے، جناب شيخ كيا " مسيحى " كہا جائے يا " نصرانى " اس كے متعلق معلومات فراہم كر كے عند اللہ ماجور ہوں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" مسيحى كا معنى مسيح بن مريم عليہ السلام كى طرف نسبت ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ ان كى طرف منسوب ہيں، ليكن مسيح عليہ السلام ان سے برى ہيں، اور پھر يہ جھوٹے ہيں، كيونكہ مسيح عليہ السلام نے انہيں يہ نہيں كہا كہ وہ اللہ كے بيٹے ہيں، بلكہ انہوں نے تو يہ فرمايا: اللہ كا بندہ اور اس كے رسول ہيں.
لہذا اولى اور بہتر يہ ہے كہ انہيں " نصارى " كے نام سے موسوم كيا جائے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كا يہى نام بيان كيا ہے:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَىَ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ} ( البقرة:113)
" يہودى كہتے ہيں كہ نصرانى حق پر نہيں، اور نصرانى كہتے ہيں كہ يہودى حق پر نہيں، حالانكہ يہ سب لوگ تورات پڑھتے ہيں، اسى طرح ان ہى جيسى
بات بے علم بھى كہتے ہيں، قيامت كے دن اللہ ان كے اس اختلاف كا فيصلہ ان كے درميان كر ديگا "-
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 5 / 416 ).
دوم:
جو ہوٹل كھانے ميں حرام اشياء مثلا شراب يا خنزير كا گوشت وغيرہ پيش كرتے ہيں كئى ايك اسباب كى بنا پر آپ كا ان ميں داخل ہونا جائز نہيں:
1 ـ ان ہوٹلوں ميں ظاہرى برائى پائى جاتى ہے اور جہاں اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ كھانے اور پينے كى اشياء پيش كر كے اللہ كى معصيت كا ارتكاب ہو وہاں داخل ہونے كى كوئى ضرورت نہيں، اور ان اشياء كے حرام ہونے پر مسلمانوں كا اجماع بھى ہے.
2 - مسلمان كے ليے اصل يہى ہے كہ جہاں بھى وہ كوئى برائى ديكھے اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اور اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو اسے اپنى زبان سے
روكے اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو پھر اسے اپنے دل سے روكے، اور اگر تم اس برائى كو اپنے ہاتھ اور اپنى زبان كے ساتھ روكنے سے عاجز ہو تو پھر اسے اپنے دل كے ساتھ تو روكنے سے عاجز نہيں، اور دل كے ساتھ روكنے كا مطلب يہ ہے كہ جہاں معصيت و نافرمانى ہو رہى ہے آپ اس جگہ كو چھوڑ کرچلے جائیں، اور جب آپ معصيت و نافرمانى والى جگہ جائيں گے اور وہاں بيٹھيں گے تو دل سے انكار حاصل نہيں ہو سكتا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ( وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعاً ) (النساء:140) .
"اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيتوں كے ساتھ كفر كرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے " -
اور حديث ميں فرمان نبوى كچھ اس طرح ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو اسے اپنى زبان سے منع كرے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو اسے اپنے دل سے منع كرے، اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "
(صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).
3 - ہو سكتا ہے آپ لوگ وہاں جا كر ايسا كھانا تناول كريں جس كے حلال ہونے كے متعلق آپ كو يقين نہ ہو، اس كى دو وجہيں ہيں:
پہلى: شرعى طور پر غير مباح گوشت پيش كرنا، يا پھر ان كا اپنے كھانوں اور پينے كى اشياء ميں كوئى چيز آپ كے مباح اور جائز كھانے ميں ملا دينا.
دوسرى: جن برتنوں ميں وہ كفار كے ليے پكاتے ہيں بغير دھوئے انہيں برتنوں ميں آپ كو كھانا پيش كر ديں، كيونكہ ان برتنوں ميں حرام يا نجس اشياء ڈالى جانے كى بنا پر انہيں دھونا ضرورى تھا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كفار كے برتنوں ميں كھانا تناول كرنے كا كيا حکم ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ان كے برتنوں ميں مت كھاؤ، ليكن اگر تمہيں ان كے علاوہ دوسرے برتن نہ مليں تو انہيں دھو كر ان ميں كھا لو "
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ اس ليے فرمايا كہ مسلمان كفار كے ساتھ اختلاط سے دور رہے، وگرنہ اس ميں سے پاكيزہ طاہر ہے: يعنى اگر اس ميں كھانا پكايا جائے يا كوئى اور چيز تو وہ پاك ہے، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاہا كہ ہم ان كے ساتھ اختلاط نہ كريں، اور ان كے برتن ہمارے برتن نہ ہوں.
اس ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ان ميں مت كھاؤ ليكن اگر اس كے علاوہ تمہيں كوئى اور برتن نہ مليں تو انہيں دھو كر ان ميں كھا لو "
اور انسان كفار سے جتنا بھى دور رہے اتنا ہى اس كے ليے بہتر ہے، اس ميں كوئى شك نہيں.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 15 ) سوال نمبر ( 1181 ).
اس كى مكمل تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 65617 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
4 - ان ہوٹلوں ميں آپ كا كھانا تناول كرنا اس ہوٹل كے ليے باعث تزكيہ ہو گا اور اس بنا پر وہاں دوسرے مسلمان بھى آ كر كھانا تناول كرينگے، اور اس طرح مسلمانوں كے دل كمزور ہو جائينگے اور وہ حرام اشياء تناول كرنا شروع كر دينگے ـ يا پھر كم از كم ـ يہ خيال كرينگے كہ ان كفار كے برتنوں ميں كھانا پينا جائز ہے، يا كھانے ميں قليل سى حرام اشياء كا اضافہ كرنا جائز خيال كرينگے.
5 - ان ہوٹلوں ميں كھانا تناول كرنا كفار كے ساتھ اختلاط اور ان كى تعداد ميں اضافہ كا باعث شمار ہو گا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
بار يعنى كھانے اور پينے والى جگہ ميں داخل ہونے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے، بار روحى كھانے پينے والى اشياء پر مشتمل ہے، اور وہاں صرف كھانا تناول كرنے كے ليے جانا كيسا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ سوال دو شقوں پر مشتمل ہے:
پہلى شق:
يہ باطل نام خبيث شراب كے ليے استعمال كيا جاتا ہے جو شراب اور خمر ہے، كيونكہ اسے روحى شراب كا نام دينا باطل نام ہے، كيونكہ وہ روح كے ليے كيا ہے ؟
بلكہ وہ تو خبيث اور گندى شراب ہے، جو عقل كو خراب كرتى اور دين و جان كے ليے بھى خرابى كا باعث ہے، چنانچہ اس طرح كى چيز كو اس وصف سے متصف نہيں كرنا چاہيے جو جا ذ ب بھى اور پھر اسے مشروعيت كا لباس پہنا دے، بلكہ اس كى دعوت و ترغيب كا لباس اوڑھ دے.
لہذا ہميں اس كو خبيث اور گندى شراب كا نام دينا چاہيے، بلكہ يہ تو ام الخبائث يعنى ہر خرابى كى جڑ ہے، اور ہر برائى كى كنجى ہے.
دوسرى شق:
اس ہوٹل جس ميں شراب كے جام چل رہے ہوں وہاں داخل ہونا، جائز نہيں بلكہ يہ حرام ہے؛ كيونكہ جو انسان اس طرح كى جگہ آتا ہے جہاں اللہ عزوجل كى معصيت و نافرمانى ہو رہى ہو تو اسے بھى معصيت كرنے والے جتنا ہى گناہ ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ( وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعاً ) (النساء:140 ).
"اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيتوں كے ساتھ كفر كرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے "-
ليكن اگر آپ كو ـ ميرے اعتقاد كے مطابق آپ ضرورت ميں نہيں ہيں ـ اس جگہ سے جو خبائث اور گندى اشياء پر مشتمل ہے كھانا تناول كرنے كى ضرورت ہو، يعنى فى الواقع آپ كو ضرورت ہے تو آپ وہاں سے كھانا خريد كر دور جا كر تناول كريں.
ليكن اگر آپ اس كے علاوہ كہيں اور سے كھانا حاصل كر سكتى ہيں جو خبيث اشياء پر مشتمل نہ ہو تو آپ كے ليے وہاں سے كھانا لينا واجب اور ضرورى ہے.
ماخوذ از: نور على الدرب البيوع.
سوال كرنے والى كى نسبت سے ہميں تو يہ ظاہر نہيں ہوتا كہ وہ ضرورت كى حالت ميں ہے، بلكہ اسے تو ان ہوٹلوں كى بھى حاجت اور ضرورت ہى نہيں، جب انسان اپنے شہر اور علاقے ميں ہو تو اصل ميں اسے ہوٹلوں كى ضرورت ہى نہيں ہوتى ؟!
پھر اگر فرض كريں كہ انسان اپنے گھر سے باہر بھى ہو اور اسے كھانا كى ضرورت ہو تو وہ ہلكى پھلكى اشياء كھا كر گزارا كر سكتا ہے جو عام دوكانوں سے مل جاتى ہيں اور گھر آ كر كھانے كى ضرورت پورى كر سكتا ہے!!
مسلمان كے ليے تو سب سے عزيز اور قيمتى اور نفيس چيز تو اس كا دين ہے، جس كى حفاظت كے ليے وہ اپنا مال اور جان اور روح سب كچھ لٹا ديتا ہے، تو كيا اس كے لائق اور شايان شان ہے كہ وہ اسے ہر پيش آنے والى مشكل اور شہوت كے بدلے رہن ركھتا پھرے، اور اس كى بنا پر دين ميں رخصت تلاش كرتا پھرے يا دينى احكام سے كھيلنا شروع كر دے، چاہے وہ پيش آنے والى چيز سہيليوں كا انس و محبت ہو؟!
فرمان بارى تعالى ہے: { تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (سورۃ البقرۃ:229)
"يہ اللہ تعالى كى حديں ہيں تو تم ان حدود سے تجاوز مت كرو، اور جولوگ اللہ كى حدود سے تجاوز کرجائیں وہ ظالم ہیں "-
اور فرمان ربانى ہے: ( ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ) الحج/32 .
" يہ سن ليا اب اور سنو اللہ كى نشانيوں كى جو عزت و حرمت كرے تو يہ اس كے دل كى پرہيزگارى كى وجہ سے ہے "(الحج: 32 ).
واللہ اعلم .
الحمد للہ
اول:
بہتر تو يہ ہے كہ ان كفار كو جنہوں نے مسيح ابن مريم كو معبود يا اللہ كا بيٹا بنا ركھا ہے" نصارى " كا نام ديا جائے، جيسا اللہ سبحانہ و تعالى نے كتاب ميں بھى اسى نام سے ذكر كيا ہے، كيونكہ مسيحي وہ لوگ ہيں جنہوں نے مسيح عليہ السلام كے رسول ہونے كى گواہى دي اور ان كى اتباع و پيروى كى، اور اپنے پروردگار كو الہ اور معبود مانا اور اسے اپنا رب تسليم كيا.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كچھ وقت سے كلمہ " مسيحى " كا استعمال مشہور ہو چکا ہے، جناب شيخ كيا " مسيحى " كہا جائے يا " نصرانى " اس كے متعلق معلومات فراہم كر كے عند اللہ ماجور ہوں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" مسيحى كا معنى مسيح بن مريم عليہ السلام كى طرف نسبت ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ ان كى طرف منسوب ہيں، ليكن مسيح عليہ السلام ان سے برى ہيں، اور پھر يہ جھوٹے ہيں، كيونكہ مسيح عليہ السلام نے انہيں يہ نہيں كہا كہ وہ اللہ كے بيٹے ہيں، بلكہ انہوں نے تو يہ فرمايا: اللہ كا بندہ اور اس كے رسول ہيں.
لہذا اولى اور بہتر يہ ہے كہ انہيں " نصارى " كے نام سے موسوم كيا جائے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كا يہى نام بيان كيا ہے:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَىَ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ} ( البقرة:113)
" يہودى كہتے ہيں كہ نصرانى حق پر نہيں، اور نصرانى كہتے ہيں كہ يہودى حق پر نہيں، حالانكہ يہ سب لوگ تورات پڑھتے ہيں، اسى طرح ان ہى جيسى
بات بے علم بھى كہتے ہيں، قيامت كے دن اللہ ان كے اس اختلاف كا فيصلہ ان كے درميان كر ديگا "-
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 5 / 416 ).
دوم:
جو ہوٹل كھانے ميں حرام اشياء مثلا شراب يا خنزير كا گوشت وغيرہ پيش كرتے ہيں كئى ايك اسباب كى بنا پر آپ كا ان ميں داخل ہونا جائز نہيں:
1 ـ ان ہوٹلوں ميں ظاہرى برائى پائى جاتى ہے اور جہاں اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ كھانے اور پينے كى اشياء پيش كر كے اللہ كى معصيت كا ارتكاب ہو وہاں داخل ہونے كى كوئى ضرورت نہيں، اور ان اشياء كے حرام ہونے پر مسلمانوں كا اجماع بھى ہے.
2 - مسلمان كے ليے اصل يہى ہے كہ جہاں بھى وہ كوئى برائى ديكھے اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اور اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو اسے اپنى زبان سے
روكے اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو پھر اسے اپنے دل سے روكے، اور اگر تم اس برائى كو اپنے ہاتھ اور اپنى زبان كے ساتھ روكنے سے عاجز ہو تو پھر اسے اپنے دل كے ساتھ تو روكنے سے عاجز نہيں، اور دل كے ساتھ روكنے كا مطلب يہ ہے كہ جہاں معصيت و نافرمانى ہو رہى ہے آپ اس جگہ كو چھوڑ کرچلے جائیں، اور جب آپ معصيت و نافرمانى والى جگہ جائيں گے اور وہاں بيٹھيں گے تو دل سے انكار حاصل نہيں ہو سكتا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ( وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعاً ) (النساء:140) .
"اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيتوں كے ساتھ كفر كرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے " -
اور حديث ميں فرمان نبوى كچھ اس طرح ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو اسے اپنى زبان سے منع كرے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو اسے اپنے دل سے منع كرے، اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "
(صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).
3 - ہو سكتا ہے آپ لوگ وہاں جا كر ايسا كھانا تناول كريں جس كے حلال ہونے كے متعلق آپ كو يقين نہ ہو، اس كى دو وجہيں ہيں:
پہلى: شرعى طور پر غير مباح گوشت پيش كرنا، يا پھر ان كا اپنے كھانوں اور پينے كى اشياء ميں كوئى چيز آپ كے مباح اور جائز كھانے ميں ملا دينا.
دوسرى: جن برتنوں ميں وہ كفار كے ليے پكاتے ہيں بغير دھوئے انہيں برتنوں ميں آپ كو كھانا پيش كر ديں، كيونكہ ان برتنوں ميں حرام يا نجس اشياء ڈالى جانے كى بنا پر انہيں دھونا ضرورى تھا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كفار كے برتنوں ميں كھانا تناول كرنے كا كيا حکم ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ان كے برتنوں ميں مت كھاؤ، ليكن اگر تمہيں ان كے علاوہ دوسرے برتن نہ مليں تو انہيں دھو كر ان ميں كھا لو "
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ اس ليے فرمايا كہ مسلمان كفار كے ساتھ اختلاط سے دور رہے، وگرنہ اس ميں سے پاكيزہ طاہر ہے: يعنى اگر اس ميں كھانا پكايا جائے يا كوئى اور چيز تو وہ پاك ہے، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاہا كہ ہم ان كے ساتھ اختلاط نہ كريں، اور ان كے برتن ہمارے برتن نہ ہوں.
اس ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ان ميں مت كھاؤ ليكن اگر اس كے علاوہ تمہيں كوئى اور برتن نہ مليں تو انہيں دھو كر ان ميں كھا لو "
اور انسان كفار سے جتنا بھى دور رہے اتنا ہى اس كے ليے بہتر ہے، اس ميں كوئى شك نہيں.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 15 ) سوال نمبر ( 1181 ).
اس كى مكمل تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 65617 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
4 - ان ہوٹلوں ميں آپ كا كھانا تناول كرنا اس ہوٹل كے ليے باعث تزكيہ ہو گا اور اس بنا پر وہاں دوسرے مسلمان بھى آ كر كھانا تناول كرينگے، اور اس طرح مسلمانوں كے دل كمزور ہو جائينگے اور وہ حرام اشياء تناول كرنا شروع كر دينگے ـ يا پھر كم از كم ـ يہ خيال كرينگے كہ ان كفار كے برتنوں ميں كھانا پينا جائز ہے، يا كھانے ميں قليل سى حرام اشياء كا اضافہ كرنا جائز خيال كرينگے.
5 - ان ہوٹلوں ميں كھانا تناول كرنا كفار كے ساتھ اختلاط اور ان كى تعداد ميں اضافہ كا باعث شمار ہو گا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
بار يعنى كھانے اور پينے والى جگہ ميں داخل ہونے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے، بار روحى كھانے پينے والى اشياء پر مشتمل ہے، اور وہاں صرف كھانا تناول كرنے كے ليے جانا كيسا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ سوال دو شقوں پر مشتمل ہے:
پہلى شق:
يہ باطل نام خبيث شراب كے ليے استعمال كيا جاتا ہے جو شراب اور خمر ہے، كيونكہ اسے روحى شراب كا نام دينا باطل نام ہے، كيونكہ وہ روح كے ليے كيا ہے ؟
بلكہ وہ تو خبيث اور گندى شراب ہے، جو عقل كو خراب كرتى اور دين و جان كے ليے بھى خرابى كا باعث ہے، چنانچہ اس طرح كى چيز كو اس وصف سے متصف نہيں كرنا چاہيے جو جا ذ ب بھى اور پھر اسے مشروعيت كا لباس پہنا دے، بلكہ اس كى دعوت و ترغيب كا لباس اوڑھ دے.
لہذا ہميں اس كو خبيث اور گندى شراب كا نام دينا چاہيے، بلكہ يہ تو ام الخبائث يعنى ہر خرابى كى جڑ ہے، اور ہر برائى كى كنجى ہے.
دوسرى شق:
اس ہوٹل جس ميں شراب كے جام چل رہے ہوں وہاں داخل ہونا، جائز نہيں بلكہ يہ حرام ہے؛ كيونكہ جو انسان اس طرح كى جگہ آتا ہے جہاں اللہ عزوجل كى معصيت و نافرمانى ہو رہى ہو تو اسے بھى معصيت كرنے والے جتنا ہى گناہ ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ( وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعاً ) (النساء:140 ).
"اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيتوں كے ساتھ كفر كرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے "-
ليكن اگر آپ كو ـ ميرے اعتقاد كے مطابق آپ ضرورت ميں نہيں ہيں ـ اس جگہ سے جو خبائث اور گندى اشياء پر مشتمل ہے كھانا تناول كرنے كى ضرورت ہو، يعنى فى الواقع آپ كو ضرورت ہے تو آپ وہاں سے كھانا خريد كر دور جا كر تناول كريں.
ليكن اگر آپ اس كے علاوہ كہيں اور سے كھانا حاصل كر سكتى ہيں جو خبيث اشياء پر مشتمل نہ ہو تو آپ كے ليے وہاں سے كھانا لينا واجب اور ضرورى ہے.
ماخوذ از: نور على الدرب البيوع.
سوال كرنے والى كى نسبت سے ہميں تو يہ ظاہر نہيں ہوتا كہ وہ ضرورت كى حالت ميں ہے، بلكہ اسے تو ان ہوٹلوں كى بھى حاجت اور ضرورت ہى نہيں، جب انسان اپنے شہر اور علاقے ميں ہو تو اصل ميں اسے ہوٹلوں كى ضرورت ہى نہيں ہوتى ؟!
پھر اگر فرض كريں كہ انسان اپنے گھر سے باہر بھى ہو اور اسے كھانا كى ضرورت ہو تو وہ ہلكى پھلكى اشياء كھا كر گزارا كر سكتا ہے جو عام دوكانوں سے مل جاتى ہيں اور گھر آ كر كھانے كى ضرورت پورى كر سكتا ہے!!
مسلمان كے ليے تو سب سے عزيز اور قيمتى اور نفيس چيز تو اس كا دين ہے، جس كى حفاظت كے ليے وہ اپنا مال اور جان اور روح سب كچھ لٹا ديتا ہے، تو كيا اس كے لائق اور شايان شان ہے كہ وہ اسے ہر پيش آنے والى مشكل اور شہوت كے بدلے رہن ركھتا پھرے، اور اس كى بنا پر دين ميں رخصت تلاش كرتا پھرے يا دينى احكام سے كھيلنا شروع كر دے، چاہے وہ پيش آنے والى چيز سہيليوں كا انس و محبت ہو؟!
فرمان بارى تعالى ہے: { تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (سورۃ البقرۃ:229)
"يہ اللہ تعالى كى حديں ہيں تو تم ان حدود سے تجاوز مت كرو، اور جولوگ اللہ كى حدود سے تجاوز کرجائیں وہ ظالم ہیں "-
اور فرمان ربانى ہے: ( ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ) الحج/32 .
" يہ سن ليا اب اور سنو اللہ كى نشانيوں كى جو عزت و حرمت كرے تو يہ اس كے دل كى پرہيزگارى كى وجہ سے ہے "(الحج: 32 ).
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment