Tuesday, 21 June 2011

Mahe Rajab Aur Hum - Online Books

:::: ماہِ رجب اور ہم :::::

ماہِ رواں ماہِ رجب ہے ، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِنَّ الزَّمَانَ قَد استدَارَ کَھیئتِہِ یَومَ خَلَقَ اللَّہُ السَّمَوَاتِ وَ الارضَ السَّنَۃُ اثنا عَشَرَ شَھراً مِنھَا اربعَۃَ حُرُمٌ ، ثَلاثٌ مُتَوالیاتٌ ، ذو القعدہ ذوالحجۃِ و المُحرَّم و رجبُ مُضر الَّذِی بین جُمادی و شَعبان ) ( سا ل اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُس دِن تھا جب اللہ نے زمین اور آسمان بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میں سے چار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے ) صحیح البُخاری حدیث ٧٩١٣ ، ٢٦٦٤ ۔
دو جہانوں کے سردار مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس حدیث میں اِس مہنیے کی فضیلت یہ بیان فرمائی کہ یہ حرمت والا میہنہ ہے یعنی اِس میں لڑائی اور قتال نہیں کرنا چاہئیے اِس کے عِلاوہ اِس ماہ کی کوئی اور خصوصیت بیان نہیں ہوئی نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ، بلکہ اِس مہینے میں لڑائی اور قتال سے ممانعت بھی بعد میں اللہ کر طرف سے منسوخ کر دی گئی ، سورت البقرہ / آیت ٢١٧ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے !!!! حیرانگی کی بات ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے باوجود اِس مہینے کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت رسموں اور عِبادت کےلیئے خاص کیا جاتا ہے !!!! جِنکو کرنے کا اِسلام میں کوئی جواز نہیں بلکہ ممعانت ہے ، اِن رسموں اور عبادات کو مسلمانوں میں داخل کرنے کےلیے جھوٹی حدیثیںبنائی گئیں ، تا کہ مُسلمان ان کو اپنے دِین اِسلام کا حصہ سمجھ کر اپنا لیں ، یہ تو اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر خاص کرم ہے کہ ہمیشہ اُس نے ایسے عالِم رکھے جو اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر پھیلائے جانے والے جھوٹ کواُمت پر ظاہر کرتے ہیں تا کہ اُمت دھوکے کا شکار نہ ہو یہ الگ بات ہے اپنی نالائقی، ضد ، ہٹ دھرمی اور اندھی تقلید کی وجہ سے اُمت کی اکثریت اللہ کی اِس خاص مہربانی کا فائدہ نہیں اُٹھا پاتی یہاں ہم ماہِ رجب کے بارے میں گھڑی ہوئی جھوٹی احادیث کا مختصراً ذِکر کر رہے ہیں ،

::::: رجب کے بارے میں جھوٹی او کمزور حدیثیں :::::
( ١) اِن فی الجنۃ نھراً یقال لہُ رجب ، ماؤہ اشد بیاضاً مِن اللبنِ و احلیٰ مِن العَسلِ مَن صام یوماً مَن رجب سقاہُ اللہ مَن ذَلکَ النھر ::: جنت میں ایک دریا ہے جِس کا نام رجب ہے اُس کا پانی دودھ سے زیادہ سُفید ، شہد سے زیادہ میٹھا ہے ، جو کوئی رجب کے مہینے میں ایک دِن بھی روزہ رکھے گا اُسے اللہ اِس دریا کا پانی پلائے گا ۔ حدیث باطل /سلسلہ الاحادیث الضعیفہ و الموضوعہ /حدیث ١٨٩٨
( ٢ ) اللھُم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان ::: اللہ ہمیں ر جب و شعبان میں برکت دے اور رمضان تک پہنچا دے۔ حدیث ناقابلِ حُجت ،ضعیف الجامع الصغیر /٤٣٩٥
(٣) رجب شھر اللہ و شعبان شھری و رمضان شھر اُمتی ::: رجب اللہ کا مہینہ ، اور شعبان میرا مہینہ، اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے ۔ ضعیف الجامع الصغیر /حدیث٣٠٩٤
(٤) فضل رجب علیٰ سائر الشھورِ کفضل القُرانِ علیٰ سائز الاذکار ::: تمام مہینوں پر رجب کی فضیلت اُس طرح ہے جِس طرح تمام تر اذکار پر قُران کی فضیلت ہے ۔ الفردوس بماثور الخطاب ۔
(٥) مَن صلی لیلۃ سبعۃ و عشرین مِن رجب اثنتی عشرۃ رکعۃ ،، حط اللہ عنہُ ذنوبہ ستین سنۃ::: جِسنے رجب کی ستائیسویں رات میں بارہ رکعت نماز پڑھی اللہ اُسکے ساٹھ سال کے گناہ مِٹا دیتا ہے۔ تنزیۃ الشریعۃ / حدیث ٤٩
(٦) اِن فی رجب یوم و لیلۃ مَن صام ذلک الیوم و قام تلک اللیلۃ کان کمن صام الدھر مائۃ سنۃ و قام مائۃ سنۃ ::: بے شک رجب میں ایک دِن اور ایک رات ایسے ہیں کہ جو اُس دِن روزہ رکھے گا اور اُس رات نماز پڑھے گا تو گویا اُس نے سو سال مسلسل روزے رکھے اور سو سال مسلسل رات بھر نماز پڑھی ۔ تبین العجب مما ورد فی فضل رجب /اِمام ابن حَجر
رجب کے بارے میں جھوٹی اور کمزور احادیث اور بھی ہیں ، اِن سب کی بُنیاد پر ، یا ، قبل از اِسلام رجب کے عِزت و توقیر کے باطل عقیدے در پردہ زندہ رکھنے کے لیے جو رسمیں اور بدعات اُمت میں داخل کی گئیں اُن میں سے کُچھ وہ مندرجہ ذیل ہیں ،

::: قربانی کرنا ::: اِسلام سے پہلے عرب رجب کو بڑی عِزت، برکت و رحمت والا مانتے تھے اور اِس مہینے میں قُربانی بھی کیا کرتے تھے جِسے ''' عِتیرۃ ''' کہتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اِس عقیدے اور عمل کو باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا ( لا فرع ولا عَتیرۃ) ( نہ کوئی فرع ہے اور نہ ہی عَتیرہ ) صحیح البخاری / کتاب العقیقہ/باب ٣ ، مشرکین عرب ہر سال میں جب اُن کے جانور پہلی دفعہ بچے دیتے تو اُس پہلی کھیپ میں سے ایک جانور وہ اپنے جھوٹے معبودوں کے نام پر ذبح کرتے تھے اور اُس کو فرع کہا کرتے تھے

::: صلاۃ الرغائب ، نمازِ رغائب :::
رجب کی پہلی جمعرات کی رات ، یا درمیانی رات ، یا آخری رات میں خاص مقرر شدہ طریقے سے رغائب نامی نماز پڑھنا ، ایسا کام ہے جِسکی سُنّت میں کوئی دلیل نہیں۔

::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج :::
پندرہ یا ستائیس رجب کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج والی رات سمجھنا اور اِس رات کو کِسی بھی عِبادت یا جشن یا کام کےلیے خاص کرنا ،

::: رجب کے مہینے میں خاص طور پر روزہ رکھنا :::
یہ بھی ایک ایسا کام ہے جِس کی سُنّت میں کوئی دلیل نہیں ملتی ، اِمام محمد بن اسحاق الفاکھی نے اپنی کتاب '' اخبار مکہ '' میں نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین ''' عُمر رضی اللہ عنہُ ایسے لوگوں کے ہاتھ پر مارا کرتے تھے جو رجب روزہ رکھتے تھے ''' اور اِمام الالبانی نے کہا کہ یہ روایت اِمام بُخاری اور اِمام مُسلم کی شرائط کے مُطابق صحیح ہے ،

::: زکوۃ ادا کرنے کے لیے رجب کے مہینے کو خاص کرنا :::
یہ بھی ایسا کام ہے جِس کی سُنّت میں کوئی دلیل نہیں ملتی ، اور اِسی طرح : عمرہ کرنے کے لیے اِس مہینے کو اِختیار کرنا بھی بلا دلیل ہے ،

''' رجب کے کونڈے ''' یا ''' اِمام جعفر کے کونڈے '''
اب ہم آتے ہیں ایسے کام کی طرف جورجب کے مہینے میں خاص طور پر پاکستان ، ہند ، ایران ، بنگلہ دیش وغیرہ میں عِبادت اور ثواب والا کام سمجھ کر کِیا جاتا ہے ، اور اُس کی بُنیاد بھی سراسر جھوٹ ہے ، ایک جھوٹے اِفسانے ــ'' لکڑ ہارے کی کہانی '' کو بنیاد بنا کر جعفر ( صادق ) رحمہُ اللہ سے مشکل کشائی کروانے کے لیئے ٢٢ رجب کو میٹھی چیز بنا کر کھائی ، کھلائی ، اور بانٹی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا دِن ہے لہذا اُن کی پیدائش کی خوشی میںیہ جشن کیا جاتا ہے ،اور اِسے ''' رجب کے کونڈے ''' یا ''' اِمام جعفر کے کونڈے ''' کا نام دِیا جاتا ہے ۔
::: کِسی کی پیدائش کی خوشی منانا یا کِسی کے موت کے دِن پر غمی کرنا ایسے کام ہیں جِن کا نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں اور نہ ہی تابعین ، تبع تابعین ائمہ کرام فقہا ، محدثین کی زندگیوں یا کتابوں میں کوئی ذِکر ملتا ہے ، یہ کام یقیناً دین میں سے نہیں ہیں ، کافروں کی نقالی ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِشادِ گرامی ہے کہ ( مَن تَشبَھَہ بِقَومٍ فَھُوَ مِنھُم ) ( جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُسی قوم میں سے ہے ) سنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٠٢٤ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اور کِسی کا یومِ پیدائش منانا مسلمانوں کی رسم نہیں ، اور اگر وہ تاریخ پیدائش جِس پر کِسی کی پیدائش کا جشن منایا جا ئے جھوٹی ہو تو پھر ''' یک نہ شُد ، دو شُد ''' ،
بات ہو رہی تھی جھوٹ پر مبنی جشنِ ولادت یا سالگرہ جِسے ''' رجب کے کونڈے ''' یا ''' اِمام جعفر کے کونڈے ''' کہا جاتا ہے ، اور یہ کونڈے کرنے ، کروانے والوں میں سے شاید ایک فیصد بھی یہ نہیں جانتے کہ ، جِس سبب کو بُنیاد بنا کر وہ یااپنے اِیمان کا کونڈا کر رہے ہیں وہ سب ایک تاریخی جھوٹ ہے ، جی ہاں ثواب کی نیّت سے کیے جانے والے اِس کام یعنی عِبادت کا سبب جناب جعفر صادق رحمۃُ اللہ علیہ کی پیدائش کو بنایا جاتا ہے ، جبکہ یہ تاریخی جھوٹ ہے ، اِمام ابنِ کثیر علیہ رحمۃ اللہ نے '' البدایہ والنہایہ '' میں بیان کیا ہے کہ جناب جعفر صادق رحمۃُ اللہ علیہ کی تاریخ پیدائش ٨ رمضان ٨٠ ہجری اور تاریخ وفات شوّال ١٤٨ ہجری ہے، تو پھر یہ ٢٢ رجب کیا ہے ؟ کہاں سے ہے ؟ آئیے اِس کا جواب بھی تاریخ میں ڈھونڈتے ہیں
راہِ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ایک گروہ نے اِس رسم کو ہند و پاک کے مسلمانوں میں داخل کیا اور اِس کا سبب اُن کا صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بُغض اور نفرت کے عِلاوہ اور کُچھ نہیں ، آئیے ذرا دیکھیئے تو کہ کب اور کہاں یہ بد عقیدگی اور بد عملی ہمارے معاشرے میں داخل کی گئی ،
::: پیر جماعت علی شاہ کے ایک مرید مصطفیٰ علی خاں نے اپنے کتابچے '' جواہر المناقب '' میں احمد حسین قادری کا بیان درج کیا ''' ٢٢ رجب کی پوریوں والی کہانی اور نیاز سب سے پہلے ١٩٠٦ء میں رامپور میں امیر مینائی لکھنوئی کے خاندان میں نکلی ، میں اُس زمانے میں امیر مینائی صاحب کے مکان کے متصل رہتا تھا،،،'''
::: مولوی مظہر علی سندیلوی اپنے ١٩١١ کے ایک روزنامچے میں لکھتے ہیں ''' آج مجھے ایک نئی رسم دریافت ہوئی ، جو میرے اور میرے گھر والوں میں رائج ہوئی اور اِس سے پہلے میری جماعت میں نہیں آئی تھی ، وہ یہ کہ ٢١ رجب کو بوقتِ شام میدہ شکر اور گھی دودھ ملا کر ٹکیاں پکائی جاتی ہیں اور اُن پر اِمام جعفر صادق کا فاتحہ ہوتا ہے ٢٢ کی صبح کو عزیز و اقارب کو بلا کر کھلائی جاتی ہیں یہ ٹکیاں باہر نہیں نکلنے پاتیں جہاں تک مُجھے عِلم ہوا ہے اِسکا رواج ہر مقام پر ہوتا ہے ، میری یاد میں کبھی اِسکا تذکرہ بھی سماعت میں نہیں آیا ، یہ فاتحہ اب ہر ایک گھر میں بڑی عقیدت مندی سے ہوا کرتا ہے اور یہ رسم برابربڑہتی جا رہی ہے '''


::: عبدالشکور لکھنوئی رحمہُ اللہ نے رسالہ ــ'' النجم '' کی اشاعت جمادی الاؤل ١٣٤٨ ھ میں لکھا ''' ایک بدعت ابھی تھوڑے دِنوں سے ہمارے اطراف میں شروع ہوئی ہے اور تین چار سال سے اِسکا رواج فیوماً بڑہتا جا رہا ہے ، یہ بدعت کونڈوں کے نام سے مشہور ہے ،،،،،،، ''' ::: اُسی دور کے شعیہ عالم محمد باقر شمسی کا کہنا ہے ''' لکھنؤ کے شیعوں میں ٢٢ رجب کونڈوں کا رواج بیس پچیس سال پہلے شروع ہوا تھا ''' رسالہ النجم لکھنؤ ۔


::: کہنے اور بتانے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر صاحب اِیمان کے لئیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ رسم بدعت ہے اور منافقین ، دشمنانِ صحابہ کی طرف سے مسلمانوں میں داخل کی گئی ہے ، اور اگرسالگرہ کے طور پر میں منائی جائے تو کافروں کی نقالی ہے اور حرام کام ہے ،


::: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ بھی یہ کام کرنے والوں میں سے ہیں تو یہ کونڈے بھر کر اپنے اِیمان اور عمل کا کونڈا کرتے ہیں ؟

::: کیا آپ جانتے ہیں کہ اِس دِن آپ کو جناب جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا دھوکہ دے کر منافق رافضی آپکو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی موت کے جشن میں شامل کرتے ہیں ، کیونکہ ٢٢ رجب ٦٠ ھ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہُما کی موت کا دِن ہے ، جناب جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا نہیں ،

::: کیا آپ جانتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کون تھے ؟ اور اِن منافقین کو اُن پر کیوںغُصہ ہے ؟؟؟
امیر المؤمنین معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ہدایت پائے ہوئے ، ہدایت پھیلانے والے ، جِنکے ہاتھ اور قلم کو اللہ نے اپنی وحی لکھنے کا شرف بخشا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی ، جِنکا دورِ خلافت اسلام کے کھلے اور چُھپے ہوئے دشمنوں کے لیئے بڑا ہی بھاری تھا ، اور جنہوں نے اِن منافق رافضیوں اور اِن کی شر انگیزیوں کا ناطقہ بند کئیے رکھا ، رضی اللہ عنہُ و ارضاہُ ۔

::::: جی ہاں ، ٢٢ رجب ٦٠ھ اِس عظیم المرتبہ صحابی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی وفات کا دِن ہے ، منافقین کے لئیے خوشی اور جشن کا دِن ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ ، امیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہُ پر حملہ کرنے والے بد بخت ابو لؤلؤ فیروز مجوسی کا جشن '' جشن باباشجاع '' کے نام پر منایا جاتا ہے ، اور آخری چہار شنبہ کے دِن کو اِس حملے کی خوشی میں عید بنا دِیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت یابی کی کہانی میں اِس عید کی حقیقت چھپائی گئی ، اور ،،،، اور ،،،،،
::: مسلمانو ، اپنی اصلیت کو چھوڑ کر کافروں اور منافقوں کے ہاتھوں میں کھلونا کیوں بنتے ہو؟

::: اِیمان والو ، اللہ کے عِلاوہ کِسی اور کے نام پر نذر و نیاز اور چڑھاوے شرک نہیں تو اور کیا ہے ؟

::: مسلمانو ، سالگرہ منانا کِس کی نقالی ہے ؟

::: اِیمان والو ، کونڈے بھرنے سے پہلے ذرا سوچناتو کہ، ٢٢ رجب کِس کی موت کا دِن ہے ؟
اے میرے مسلمان بھائیو اور بہنوں ، کہیں سے ڈھونڈ نکالئیے ، اپنی اِسلامی حمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے اہلِ بیت یعنی اُمہات المؤمنین اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت جو منافق رافضیوں نے آپ کو دہوکہ دہی کا شکار بنا کر چھین لی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کو پہچاننے اور اُسے قبول کر کے اُس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔

No comments:

Post a Comment