بسم اللہ الرحمن الرحیم
قَزَع سے مُمانعت
حدیث شریف: عَنِ عبد الله ابْنِ عُمَرَ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْقَزَعِ ".( صحيح البخاري :5921 ، اللباس – صحيح مسلم :2120 ، اللباس )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قَزَع سے منع فرمایا ۔ { صحیح بخاری وصحیح مسلم }
تشریح : اللہ تبارک وتعالٰی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے ، اسی لئے انسان کو اچھی اور خوبصورت شکل میں پیدا کیا ہے : ’’ لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ‘‘ " ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے "{التِّين : 4 }۔ نیز انسان سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے جسم کی خوبصورتی کی حفاظت کرے اور اس سے لاپرواہی نہ برتے ، جسم کی صفائی کا خیال رکھے ، صاف ستھرے اور
خوبصورت کپڑے پہنے ۔انسان کے سر کے بال بھی الہٰی عطیہ کا ایک نمونہ اور خوبصورتی و جمال کا ایک مظہر ہے ، اسی لئے اس کے اہتمام اور کاٹ چھانٹ سے متعلق اسلام نے ہدایات بھی دی ہیں :
[۱] بال کو صاف سُتھرا رکھا جائے : اسے بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے ، کیونکہ بکھرے ہوئے بال انسان کی خوبصورتی کو بدصورتی اور انسانی شکل کو حیوانی صورت دے دیتے ہیں لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے متعلق خصوصی ہدایات فرمائی اور اس میں لاپرواہی سے منع فرمایا : ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی کسی مجلس میں تشریف لے گئے ، ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس سے وہ اپنے بالوں کو درست کرلیتا ‘‘۔{ سنن ابو داود ، النسائی }
ایک دوسرے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجود تھے کہ پراگندہ بالوں والے ایک صاحب داخل ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنے بالوں کو درست کرلو ، چنانچہ وہ صاحب گئے اور اپنے بالوں کو درست کرلیا پھر جب واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا یہ اس سے اچھا نہیں ہے کہ ایک شخص اپنے بالوں کو پراگندہ کرکے اور بکھیر کرکے اس طرح آتا ہے گویا کہ وہ شیطان ہے ‘‘ { موطا امام مالک } ۔
[۲] کنگھی اور تیل وغیرہ کا استعمال کیا جائے : کیونکہ تیل سے جہاں بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں وہیں کنگھی سے بالوں کی پراگندگی دور او ر اس میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے ، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ک ہ’’ اگر بال رکھو تو اس کا اہتمام بھی رکھو ‘‘۔ {سنن ابو داود ، مصنف عبد الرزاق } یعنی اس کے سنوارنے ، تیل لگانے اور اس میں کنگھی وغیرہ کا دھیان رکھو ۔
[۳] خضاب کا حکم دیا : مگر کالے رنگ سے پرہیز کی تاکید کی ، کیونکہ عموما ًسفید بال لوگوں کو ناپسند اور خوبصورتی و جمال کے خلاف تصور کیاجاتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ یہود ونصاری اپنے بالوں کو نہیں رنگتے {خضاب نہیں لگاتے } لہذا تم ان کی مخالفت کرو ‘‘ [ اور خضاب لگاؤ] { صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔
فتح مکہ کے موقعہ پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے بوڑھے باپ حضرت قُحافہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال تغامہ [ ستلی ] کی طرح بالکل سفید ہیں ، یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس سفیدی کو کسی اور رنگ سے بدل دو البتہ کالے رنگ سے بچو ‘‘{ صحیح مسلم ، سنن ابو داود } ۔
[۴] بال کی کاٹ چھانٹ کا بھی اہتمام کرے : ا س لئے کہ اگر سر کے بالوں کو اگر ان کی اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو عورتوں اور بعض دیگر قوموں کی مُشابہت کے ساتھ ساتھ مرد کے کام کی نوعیت کے پیش نظر الجھن کا سبب بھی بن سکتا ہے ، اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنے بالوں کو کاٹتے تھے اور صحابہ کو اس کا حکم دیتے تھے ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کان کے نیچے تک ہوا کرتے تھے ۔ { مسلم ، ابو داود }
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ خریم بن فاتک بڑے اچھے آدمی ہیں کاش کہ ان کے سر کے بال بہت بڑے نہ ہوتے ‘‘ ۔ {ابو داود ، احمد } حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جب آپ تعزیت کے لئے گئے تو دیکھا کہ ان کے بچوں کے بال بہت بڑے ہیں آپ نے حجام کو بلا کر ان کے بالوں کو کٹوا دیا ۔ { سنن ابو داود ، سنن النسائی } ۔
لیکن ضروری ہے کہ یہ کانٹ چھانٹ اور اختیار جمال شریعت کے حدود میں ہو ، اس میں نہ تو غیر قوم کی مُشابہت پائی جائے ، نہ ہی بالوں کی خراش و تراش فاسق و فاجر لوگوں کی تقلید میں ہو ، اس لئے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ بعض انسانی مزاج جس چیز کو خوبصورتی تصّور کرتا ہے وہ حقیقت میں بھی خوبصورت ہو کیونکہ ایک چیز ایک ماحول میں خوبصورت اور دوسرے ماحول میں بدصورت تصور کی جاتی ہے ، ایک چیز کچھ لوگوں کے نزدیک شرافت کی علامت ہوتی ہے جب کہ وہی چیز بعض دوسرے علاقے میں رذالت سمجھی جاتی ہے ۔ بلکہ اس سے بھی تعجب اس بات پر ہے کہ ایک وضع کسی شخص کے نزدیک کچھ دنوں تک خوبصورتی کی علامت ہوتی ہے پھر کچھ ہی دنوں کے بعد وہ اسی وضع سے نفرت کرنے لگتا اور اسے جمال و خوبصورتی کے خلاف سمجھتا ہے ، لہذا ضروری ہے کہ بالوں کی کاٹ و چھانٹ بھی شرعی حدود کے اندر ہو ، چنانچہ ایسا نہ ہو کہ بال کی تراش و خراش ایسی ہو کہ سر کے بعض حصے کو بالکل باریک کردیا جائے اور بعض حصے کے بال بڑے بڑے ہوں جسے زیرِ بحث حدیث میں قَزَع سے تعبیر کیا گیا ہے ، ایسا بھی نہ ہوکہ انسانی سر جو بہترین ساخت پر بنایا گیا ہے بالوں کو کاٹ چھانٹ کر اس کی شکل گدھے، کتے یا گھوڑے کے سر جیسی بنادی جائے جیسا کہ آج کل فیشن کے نام پر کیا جارہا ہے ۔
فوائد :
۱- اسلام جس طرح باطنی اصلاح کا اہتمام کرتا ہے اسی طرح ظاہری خوبصورتی پر بھی توجہ دیتا ہے ۔
۲- اسلام انسانی زندگی کے ہر شعبے اخلاق و آداب ، معاملات و عبادت اور عقائد میں انسان ایک حد کا پابند بناتا ہے ۔
۳- مرد کے لئے سر کے بالوں کا کاٹنا ، چھیلنا ، چھوٹے بال ، بڑے بال ہر ایک کی اجازت ہے بشرطیکہ اولاً وہ شرعی حدود میں ہو، ثانیاً اس میں غیر قوموں ، اور حیوانوں کی مشابہت نہ پائی جائے ۔
۴- مسلمان عورت کے لئے اپنے بالوں کا چھیلانا منع ہے ۔
** خلاصہء درسِ حدیث نمبر 176 ، بتاریخ :03/04/ شعبان 1432 ھ، م 05/04 ،جولائی 2011م
فضیلۃ الشیخ/ ابوکلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
الغاط، سعودی عرب
فضیلۃ الشیخ/ ابوکلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
الغاط، سعودی عرب
No comments:
Post a Comment