Monday, 28 May 2012

Quran Majeed 18 Lines (Taj Company Ltd.) - Beautiful Quran For Haafiz

Quran Majeed 18 Lines (Taj Company Ltd.)
Beautiful Quran For Haafiz

Size: 140 MB

Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"  

Original Source (Zaka HAssan Naqeebi)

Sunan Al-Tirmidhi - Arabic Only - Arabic Hadith Books

Sunan Al-Tirmidhi - Arabic Only
بيانات الكتاب ..
العنوان  سنن الترمذي (مع أحكام الألباني) (ت مشهور)
المؤلف  الإمام الترمذي
نبذه عن الكتاب
يُعد الكتاب كتابُ فقهٍ وحديث، ولم يقصره على الصحيح، بل فيه الصحيح وغيره، واشترط على نفسه أن لا يُخَرِّج حديثًا، إلا وقد عمل به فقيه، أو احتج به محتج.
والكتاب على أربعة أقسام القسم الأول ذكر فيه من الأحاديث الصحيح والمقطوع به، وهو ما وافق فيه البخاري ومسلماً.
القسم الثاني جاءت الأحاديث على شرط الثلاثة دونهما،
وقسم آخر للضدية، أبان عن علته ولم يغفله،
وقسم رابع، أبان هو عنه، وطريقته أن يترجم الباب الذي فيه حديث مشهور عن صحابي قد صح الطريق إليه، وأخرج من حديثه في الكتب الصحاح، فيورد في الباب ذلك الحكم من حديث صحابي آخر لم يخرجوه من حديثه، ولا يكون الطريق إليه كالطريق إلى الأول إلا أن الحكم صحيح ثم يتبعه بأن يقول: وفي الباب عن فلان، وفلان، ويعد جماعة فيهم ذلك الصحابي المشهور وأكثر، وقلما يسلك هذه الطريقة إلا في أبواب معدودة.





500 Mashhur Zaeef Ahadees - Urdu Books

500 Mashhur Zaeef Ahadees



Pages: 145


Size: 3.8 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

400 Mashhur Zaeef Ahadees - Urdu Books

400 Mashhur Zaeef Ahadees



Pages: 131


Size: 3.2 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

300 Mashhur Zaeef Ahadees - Urdu Books

300 Mashhur Zaeef Ahadees



Pages: 114


Size: 2.7 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

200 Mashhur Zaeef Ahadees - Urdu Books

200 Mashhur Zaeef Ahadees



Pages: 99


Size: 2.3 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

100 Mashhur Zaeef Ahadees - Urdu Books

100 Mashhur Zaeef Ahadees



Pages: 96


Size: 4 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Cricket Ka Khumar Sharait ke Aayene Mein - Pamphlets

Cricket Ka Khumar Sharait ke Aayene Mein



Pages: 3


Size: 0.3 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Islam Mein Daulat Ke Masarif - Urdu Books

Islam Mein Daulat Ke Masarif



Pages: 146


Size: 2 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Islam Ka Pegham har Shia Ke Naam - Urdu Books

Islam Ka Pegham har Shia Ke Naam



Pages: 38


Size: 1.7 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Islam Dor e Jadeed Ka Mazhab - Urdu Books

Islam Dor e Jadeed Ka Mazhab



Pages: 34


Size: 0.5 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Islam Aur Mosiqi - Urdu Books

Islam Aur Mosiqi



Pages: 138


Size: 2.2 MB

DOWNLOAD
  • Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"

Friday, 25 May 2012

Bidat e Hasna Aur Bidat e Sai'a - بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ - Online Books

بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ


عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
"میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار اور بندوبست کروں گا اور ضرور بالضرور تم میں سے کچھ لوگ دکھانے کے لیے ظاہر کیے جائيں گے- پھر ضرور انہیں مجھ سے دور کھینچ لیا جائے گا- میں کہوں گا، میرے پروردگار! میرے ساتھی ہیں- کہا جائے گا، بےشک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد نئے کام ایجاد کرلیے تھے (یعنی دین میں بدعات کو رواج دیا تھا)۔
تخریج: بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6576)۔

انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
حوض پر میرے ساتھیوں (مسلمانوں) میں سے کچھ لوگ صرف میرے پاس پانی پینے کے لیے آئيں گے حتی کہ جب میں انہیں پہچان لوں گا تو مجھہ سے دور کھینچ لیے جائيں گے- میں کہوں گا، میرے ساتھی (مسلمان )ہیں- اللہ فرمائے گا آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (وفات کے) بعد دین میں نئے کام ایجاد کرلیے تھے۔
تخریج: بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6582)۔

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
بے شک میں حوض پر تمہارے لیے انتظار و استقبال کا سامان تیار کروں گا- جو میرے پاس سے گزرے
گا پانی پیے گا اور جو پانی پی لے گا پھر کبھی پیاسا نہیں ہوگا- ضرور بضرور میرے پاس کچھ قومیں (مسلمانوں کی) آئيں گی میں انہیں جانتا ہوں گا (کہ وہ مسلمان ہونگے) وہ مجھے پہنچان لیں گی (کہ میں ان کا رسول ہوں) پھر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ حائل کردی جائے گا- (یعنی حوض کوثر سے دور کردیے جائيں گے)۔
ابو حازم رضی اللہ عنہ نے کہا پس نعمان بن ابی عیاش نے مجھ سے سماع کیا تو کہنے لگا کیا اسی طرح تونے سہل بن سعد سے سنا تھا؟ میں نے کہا، ہاں- کہا، میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ پر شہادت دیتا ہوں- یقینا میں نے اس سے سنا اور اس میں مزید یوں کہتے تھے، پس میں کہوں گا بےشک یہ مجھہ سے ہیں (میرے امتی ہیں)- کہا جائے گا، بے شک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (وفات کے بعد)دین میں نئے کام ایجاد کرلیے؟ پس میں (رسول اللہ) کہوں گا، شدید بغض اور دوری ہو، دوری ہو، اس کے لیے جس نے میرے بعد (میرے دین کو) بدل ڈالا۔
تخریج:۔ بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6583)، (6584)۔

فوائد: ان اوپر بیان کی گئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی لوگ (جو لوگ دین میں ثواب کی خاطر نئے کام ایجاد کریں) حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے- بدعت ایسا قبیح گناہ لے کہ اس سے توبہ بھی انتہائی مشکل ہے کیونکہ انسان اسے برا سمجھ کر نہیں بلکہ نیک اورباعث اجر و ثواب سمجھ کر بجا لاتا ہے- نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
{من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد}
" جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تھا تو وہ مردود ہے-"۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور-)۔

ایک اور روایت میں ہے کہ:۔
{ عن عائشۃ رضی اللہ عنہھا قالت :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد}۔
" عائشہ رضی اللہ عنہھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماری مہر نہیں تو وہ رد کیا ہوا ہے-" (یعنی وہ کام جو ہم نے نہیں کیا)۔
(صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب نقص الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور)۔

جامع ترمذی میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
{من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لا ترضی اللہ ورسولہ کان علیہ مثل آثام من عمل بھا لا ینقص ذلک من اوزارالناس شیئا}
" جس نے کوئی گمراہی کی بدعت ایجاد کی، جو اللہ اور اس کے رسول کو راضی نہیں کرتی، اس پر ان تمام لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنہوں نے اس بدعت پر عمل کیا لیکن اس سے لوگوں کےگناہوں سے کچھ کم نہیں ہوگا (انہیں اپنے گناہ مکمل ملیں گے لیکن اتنا گناہ بدعت ایجاد کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا)-"۔
( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع)۔

سنن نسائي کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوراں خطبہ یہ کلمات کہا کرتے تھے:۔
{وشر الامور محدثاتھا و کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار}۔
"معاملات میں سے بدترین وہ ہیں جو (دین میں) نئے ایجاد کیے گئے ہوں اور ہر نئی ایجاد کی جانے والی چيز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے"۔
(سنن نسائی، کتاب صلاۃالعیدین، باب کیف الخطبۃ)۔

ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بدعات سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے:۔
{ایاکم ومحدثات الامور}۔
" (دین میں) نئے نئے کام (یعنی بدعات) ایجاد کرنے سے بچتے رہنا-"۔
( مسند احمد:4/126، دارمی:1/57، ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب فی لزوم السنۃ:5607، ترمذی، کتاب العلم، باب فی الاخذ بالسنۃ واجتناب لبدع:2676، ابن ماجہ، مقدمہ، باب اتباع السنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین:42، مستدرک حاکم:1/96)۔

بدعتی کو پناہ دینے سے بھی منع کیا گیا ہے- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
{لعن اللہ من آوی محدثا}۔
" اللہ تعالی کی لعنت ہو ایسے شخص پر جو بدعتی کو پناہ دے-"۔
(صحیح مسلم، کتاب لاضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالی ملعن فاعلہ)۔

امام دارمی بیان کرتے ہیں کہ ھم سے حکم بن مبارک نے بیان کیا، حکم بن مبارک کہتے ھیں کہ ھم سے عمروبن یحی نے بیان کیا،عمروبن یحی کہتے ھیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا،وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے فرمایا:۔
"ھم نمازفجرسے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر بیٹھ جاتے،اورجب وہ گھر سے نکلتے توان كے ساتھ مسجد روانہ ہوتے،ایک دن کا واقعہ ہے کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کیا ابوعبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود) نکلے نہیں ؟ھم نے جواب دیا نہیں،یہ سن كر وہ بھی ساتہ بیٹھ گئے،یہاں تک ابن مسعود باہرنکلے،اورھم سب ان کی طرف کھڑے ہو گئے تو ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ان سے مخاطب ہوئے اورکہا : ائے ابوعبدالرحمن ! میں ابھی ابھی مسجد میں ایک نئی بات دیکھ آ رہا ھوں،حالانکہ جوبات میں نے دیکھی وہ الحمد للہ خیر ہی ھے،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کونسی بات ھے؟ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرزندگی رہی توآپ بھی دیکھ لیں گئے،کہا وہ یہ بات ھے کہ کچھ لوگ نمازكے انتظارميں مسجد کے اندرحلقہ بنائے بیٹھے ھیں،ان سب كے ہاتوں ميں كنكرھیں،اورہرحلقے میں ایک آدمی متعین ھے جو ان سے کہتا ہے کہ سو100 بار اللہ اکبر کہو،توسب لوگ سوباراللہ اکبرکہو،توسب لوگ سو بار اللہ اکبر کہتے ھیں،پھرکہتا ہے سو بار لاالہ الااللہ کہو توسب لوگ لاالہ الااللہ کہتے ہیں ،پھرکہتا ہے کہ سوبارسبحان اللہ کہو توسب سوبارسبحان اللہ کہتے ہیں-ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھرآپ نے ان سے کیا کہا ،ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کی رائے کے انتظارمیں میں نے ان سے کچھ نہیں کہا؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے ان سے یہ کیوں نہیں کہ دیا کہ آپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورپھراس بات کا ذمہ لےلیتے کہ ان کی کوئی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی۔
یہ کہہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف روانہ ہوئے اورھم بھی ان کے ساتھ چل پڑے،مسجد پہنچ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوکرفرمایا: تم لوگ کیا کررہے ہو! یہ کنکریاں ہیں جن پرھم تسبیح وتہلیل کررہے ہیں ،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کی بجائے تم اپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورمیں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی پھی ضائع نہیں ہوگی، تمھاری خرابی ھے اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی توتمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثیرتعداد میں موجود ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےچھوڑے ہوئے کپڑے نہیں پھٹے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے اورتم اتنی جلدی ہلاکت کا اشکارہوگئے،قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے! یا توتم ایسی شریعت پر چل رہے ہوجونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ھے -- نعوذوباللہ -- بہترھے،یا گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو-انھوں نے کہا ائے ابوعبدالرحمن ! اللہ کی قسم اس عمل سے خیر کے سوا ھماراکوئی اورمقصدنہ تھا-ابن مسعود نے فرمایا ایسے کتنے خیرکے طلبگار ھیں جوخیرتک کبھی پہنچ ہی نہیں پاتے- چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھم سے ایک حدیث بیان فرمائی کہ ایسی ايك قوم ايسى ہو گی جوقرآن پڑھے گی،مگرقرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا- اللہ کی قسم ! کیا پتہ کہ ان میں سے زیادہ ترشائد تمھیں میں ھوں۔
یہ باتیں کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے واپس چلے آئے۔
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان حلقوں کے اکثرلوگوں کو ھم نے دیکھا کہ نہروان جنگ میں وہ خوارج کے شانہ بشانہ ھم سے نیزہ زنی کررہے تھے۔
سنن دارمی ( باب کراھیۃ اخزالرای)

کوئی بدعت "حسنہ" نہیں ہوتی

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں :
١۔ بدعت حسنہ
٢۔ بدعت سیئہ
ذیل میں ہم ان کے شبہات کا ذکر کریں گے، اور ساتھ ہی ان کا علمی جائزہ لیں گے اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔

پہلا شبہ:
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا:۔
(نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ)یہ کتنی اچھی بدعت ہے! (بخاری)

ازالہ:
عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا:
٭ خود قیام رمضان سنت ہے۔آپ
ۖ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ِیْمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (بخاری)
{جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے}۔
٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں باجماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کردیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو بخاری شریف)۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی،اور وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے اس کے فرض کردیئے جانے کا اندیشہ ختم ہوگیا، تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔
٭نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ
(مسند احمدو،ترمذی)
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابو بکر صدیق کے زمانے میں اسے باجماعت کیوں نہیں اداکیا گیا؟ تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ابوبکر کی رائے کے مطابق آخر شب کا قیام اول شب میں امام کے ساتھ اکٹھا پڑھنے سے افضل تھا، لہذاآپ نے اول شب میں ایک امام کے ساتھ پڑھنے پر انھیں جمع نہیں کیا۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک تو آپ کی مدت خلافت کافی مختصر تھی، نیز مرتدین ومانعین زکوٰۃ وغیرہ کے ساتھ معرکہ آرایئوںکی بنا پر آپ کو اس کی فرصت نہ ملی کہ ان امور پر غور کرسکتے۔ عمر کے زمانے میں چونکہ سارے فتنے سرد پڑچکے تھے، اسلامی حکومت مستحکم ہوچکی تھی، اس لئے آپ نے ان امور پر توجہ دی اور سنت کے احیا ء کی فضیلت آپ کو حاصل ہوئی۔
٭اگر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کرلیں کہ قول صحابی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے :
کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة {ہر بدعت گمراہی ہے }(صحیح مسلم)
حدیث بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

دوسرا شبہ:۔
بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے دوسری دلیل کے طور پر حدیث ذیل کو پیش کرتے ہیں۔
عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ص قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ
ۖ مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَْئ وَمَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَْئ۔
(صحیح مسلم)
{جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ا جر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو}۔
اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ یہ حدیث کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَة والی حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہے۔
اس حدیث میں سَنَّ کا لفظ آیا ہے جو اخترع (ایجادکرنے) اور ابتدع (بلا مثال سابق شروع کرنے) کے ہم معنی ہے، نیز اس کے شروع کرنے کو شارع کے بجائے مکلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے، بالکل اس حدیث کی طرح جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْماً ِلاَّ کَانَ عَلَیٰ ابْنِ آدَمَ الَوَّلِ کِفْل مِّنْ دَمِہَا لَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ۔ (بخاری )
{جو نفس بھی ظلماً قتل کیا جائے گا آدم کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ(گناہ) جائے گا اس لئے کہ سب سے پہلے اسی نے قتل کا طریقہ شروع کیا}۔
اس حدیث میں بھی سَنَّ کا لفظ اخترع یعنی ایجادکرنے کے معنی میں ہے، کیونکہ قابیل نے ہی قتل کا طریقہ سب سے پہلے شروع کیا ہے، اس سے پہلے قتل کا وجود نہیں تھا۔ اگر حدیث میں یہ کہنا مقصود ہوتا کہ شریعت میں ثابت کسی سنت پر کسی نے عمل شروع کیا تو سَنَّ کے بجائے یوں کہا جاتا: مَنْ عَمِلَ بِسُنَّتِْ
ـیاـ بِسُنَّةٍ مِّنْ سُنَّتِْ ـ یاـ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِ{جس کسی نے میری سنت پر عمل کیا یا میری کسی سنت کو زندہ کیا}

ازالہ:
مذکورہ حدیث میں کسی نئے عمل کی ایجاد مراد نہیں ہے بلکہ کسی سنت ثابتہ پر عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء مراد ہے۔ اس کی وضاحت دو طرح سے ہوگی۔

١۔ حدیث کی مراد اس کے سبب سے واضح ہوگی۔
چنانچہ پوری حدیث اس طرح ہے :
' جریر بن عبد اللہ ص نے فرمایاکہ دن کے شروع حصہ میں ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک قوم آئی۔ جو ننگے بدن تھی، دھاری دار اونی چادر اوڑھے ہوئے تھی، تلواریں لٹکائے ہوئے تھی۔ ان میں سے بیشتر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے تھے۔ ان کا فقروفاقہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے، پھر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے اذان واقامت کہی،پھر آپ نے صلاۃ پڑھائی، خطبہ دیا اور ان آیات کی تلاوت فرمائی :
( یٰأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔۔۔)الآیة اور (اِتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوْا اللّٰہَ)۔
اور فرمایا : لوگ صدقہ دیں اپنے دینار سے، اپنے درہم سے، اپنے کپڑے سے، اپنے ایک صاع گیہوں اور ایک صاع کھجور سے،حتی کہ آپ نے فرمایا:۔ اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک انصاری ایک تھیلی لے کر آئے، جس سے ان کا ہاتھ تھکا جاتا تھابلکہ تھک گیا تھا، پھر لوگوں کا سلسلہ لگ گیا، یہاں تک کہ میں نے غلے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے، اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک کھل اٹھا ہے اور کندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً۔
۔۔۔۔(مسلم)
اس حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت حسنہ سے انصاری صحابی والے عمل جیسا عمل مراد ہے۔کیونکہ جب وہ تھیلی بھر کر لائے تو صدقہ کا دروازہ کھل گیا، اور لوگ یکے بعد دیگرے اپنے صدقات لانے لگے۔ مگر بہر حال اس خیر وبھلائی کے شروعات کی فضیلت انھیں ہی حاصل ہوئی۔ صحابی مذکور کا عمل کوئی نئی چیز نہیں،بلکہ شریعت سے ثابت ایک عمل تھا۔ زیادہ سے زیاہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کو متنبہ کرنے اور انھیں صدقہ پر ابھارنے میں ان کے کردار کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے، خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل ہوں یا اسے ترک کرچکے ہوں۔
٢۔ اس حدیث میں سَنَّ کے لفظ کو اختراع وایجاد کے معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔اگر شریعت کے موافق ہے تو سنت حسنہ ورنہ سنت سیئہ۔

سنت سیئہ دو چیزوں پر بولا جاتا ہے:۔
الف۔ گناہ ومعصیت کے کاموں کو شروع کرنا،جیسا کہ قابیل سے متعلق حدیث میں ہے جو پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔
ب۔ دین میں کسی بدعت کو شروع کرنا۔

اگر بالفرض مذکورہ حدیث سے شریعت کے اندر بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا جائے تو یہ حدیث ان احادیث سے متعارض ہوگی جس میں بدعت کی عمومی مذمت کی گئی ہے، اور یہ قاعدہ معلوم ہے کہ جب عموم اور تخصیص کے دلائل باہم متعارض ہوتے ہیں تو تخصیص ناقابل قبول ہوتی ہے۔ (الموافقات
٢

تیسرا شبہ :
بدعت حسنہ کی دلیل کے طور پر یہ روایت بھی ذکر کی جاتی ہے:۔
عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ ص أَنَّ النَّبَِّ
ۖ قَالَ لَہُ ِعْلَمْ۔ قَالَ مَا أَعْلَمُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : ِنَّہُ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِّنْ سُنَّتِْ قَدْ أُمِیْتَتْ بَعْدِْ کَانَ لَہُ مِنَ الَجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْئاً وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لاَ یَرْضَاہَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلَ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَ یَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَیْئاً۔ (ترمذی)۔
{بلال بن حارث صسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جان لو۔ انھوں نے کہا : کیا جان لوں اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعدمردہ کی جاچکی تھی، تو اس کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی طرح کی کمی ہو۔ اور جس نے کوئی بدعت ضلالت ایجاد کی جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں، تو اس کو اس پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو}۔

اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ہر بدعت کی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف اسی بدعت کی مذمت کی گئی ہے جواللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہو اور بدعت ضلالت ہو۔

ازالہ:
مذکورہ حدیث سے استدلال اسلیئے درست نہیں کیونکہ وہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جو متروک ومجروح ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔

چوتھا شبہ :
عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں : مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن (مسند احمد
٣)
{جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے}۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ اچھا سمجھنے کی نسبت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، دلیل کی طرف نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ بدعت اچھی اور بری دونوں طرح ہوسکتی ہے۔

ازالہ:
مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس شبہ کے ازالہ کی خاطر پوری حدیث مکمل سیاق کے ساتھ پہلے یہاں ذکر کردیں۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ: ِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَادِفَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ
ۖ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ وَابْتَعَثَہُ بِرِسَالِتِہِ ثُمَّ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَاِد بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ۖ فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہِ یُقَاتِلُوْنَ عَلَیٰ دِیْنِہِ فَمَا رَأَیٰ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن وَّمَا رَأَوْہُ سَیْئاً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَِّئ(مسند احمد)۔
{عبد اللہ بن مسعودص فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔چنانچہ آپ کو اپنے لئے منتخب کرلیا اور آپ کو اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو آپ کے صحابہ کے دلوں کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔ چنانچہ انھیں اپنے نبی کا وزیر بنایا،جو اللہ کے دین کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ لہذا جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اور جسے مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔

یہ حدیث کئی اسباب کی بنا پربدعت حسنہ کے لئے دلیل نہیں بن سکتی:۔
١۔ یہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ لہذا اسے مرفوع کے مقابلے میں پیش کرنا درست نہیں ہے۔ یعنی یہ صحابی کا قول ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ٹکرانا درست نہیں ہے۔
٢۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ حجت ہے تو اس سے مراد اجماع صحابہ ہوگا۔
٣۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس سے مراد غیر صحابہ ہیں، تو عالم وجاہل تمام مسلمان اس سے مراد نہیں ہوں گے، بلکہ اہل اجماع مقصود ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کے عالم وجاہل تمام مسلمان مراد ہیں تو اس سے دو باطل چیزیں لازم آئیں گی:۔
اول: یہ درج ذیل حدیث سے متناقض ہوگا۔
سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِْ عَلَیٰ ثَلاَثٍ وَّ سَبْعِیْنَ فِرْقَةً کُلُّہُمْ فِْ النَّارِ ِلاَّ وَاحِدَة۔ (ابوداود
ـ،مسند احمد ،حاکم)۔
{اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے}۔
تناقض کی صورت یہ ہے کہ سابقہ حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی چیز کواچھا سمجھے تو وہ اچھی چیز ہے۔ یعنی اس کی بات اور اس کا خیال غلط نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر تہتر فرقوں میں تقسیم اور ایک کے سوا سب کے جہنمی ہونے کا کیا مطلب ہوگا!!

دوم : اس کا تقاضہ یہ ہوگا کہ کوئی عمل کسی کے نزدیک حسن ہو اور کسی کے نزدیک قبیح، حالانکہ یہ باطل ہے۔ اور اگر عبد اللہ بن مسعود کی حدیث سے یہ مراد لی جائے کہ جسے عام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے،تو گویا دین میں بدعت ایجاد کرنے کے لئے چور دروازہ کھول دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بدعت حسنہ کے وجود یا جواز پر استدلال کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔

پانچواں شبہ :
سلف صالحین نے کچھ ایسے اعمال انجام دیئے ہیں جن سے متعلق خاص اور صریح نص وارد نہیں ہے۔ جیسے جمع قرآن اور تصنیف علوم وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بدعت حسنہ کا وجود ہے۔

ازالہ :
معلوم ہونا چاہئے کہ وہ چیز بدعت نہیں ہے جس کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہونے کے بارے میں شرعی دلیل موجود ہو۔

جہاں تک جمع قرآن کا معاملہ ہے تو اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا، مگر آپ نے قرآن مجید کے لکھنے کا حکم دیا، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لاَتَکْتُبُوْا عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ (صحیح مسلم )۔
{میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو، جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو اسے مٹا دے}۔

البتہ جہاں تک ایک مصحف میں دو دفتیوں کے درمیان قرآن مجیدکے جمع کرنے کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایسا اس لئے نہیں کیاکیونکہ کچھ آیات یا کچھ سورتوں کے نازل ہونے یا کچھ آیتوں کے منسوخ ہونے کا احتمال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ احتمال ختم ہوگیا۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ مبارک عمل انجام دیا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیا اور تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہوگیا۔

جہاں تک احادیث نبویہ کی تدوین اور علوم شرعیہ کی تصنیف کا سوال ہے تو یہ تبلیغ شریعت کے ضمن میں داخل ہے اور اس کے دلائل واضح اور معلوم ہیں۔

بہر حال سلف کے وہ اعمال جن سے بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا گیا ہے، یا تو وہ سنت کے وسیع مفہوم میں شامل اور داخل ہیں، یا تو کسی شرعی کام کی انجام دہی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں لہذا بدعت نہیں ہیں۔ یہاں پریہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف لفظی ہے، ورنہ تمام معتبر اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بدعات مذمومہ ضلالت ہیں جن کا خلاصہ بیان ہوچکا ہے۔

Sharm Tum Ko magar Nahi Aati - شرم تم کو مگر نہیں آتی - Online Books

شرم تم کو مگر نہیں آتی

تقلید کسی شخص کے لئے کس قدر باعث ننگ و عارہے یہ حنفی اکابرین کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:

01۔ تقلید کیسے شخص کو لائق و زبیا ہے ،کے بارے میں امام ابوجعفر الطحاوی حنفی سے مروی ہے: ’’وھل یقلد الاعصبی اٗ وغبی‘‘ تقلید تو صرف وہی کرتا ہے جو متعصب اور بے وقوف ہوتا ہے۔(لسان المیزان 1/280)

02۔ عینی حنفی تقلید کے خوفناک نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فالمقلدذھل والمقلدجھل و آفۃ کل شی ء من التقلید‘‘ پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔(البنا یۃشرح الھدایہ،جلد 1، صفحہ 317)

03۔ زیعلی حنفی کہتے ہیں: ’’فالمقلد ذھل و المقلد جھل‘‘ پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔(نصب الرایہ ،جلد1، صفحہ 219)

04۔ ابوزید قاضی عبیداللہ الابوسی حنفی نے مقلد کی مذمت کرتے ہوئے کہا: تقلید کا ماحصل یہ ہے کہ مقلد اپنے آپ کو جانوروں چوپایوں کے ساتھ ملادیتا ہے.....اگر مقلد نے اپنے آپ کو جانور اس لئے
بنالیا ہے کہ وہ عقل وشعور سے پیدل ہے تو اس کا (دماغی) علاج کرانا چاہیے۔(تقویم الادلہ فی اصول الفقہ،صفحہ 390)

05۔ حنفی مذہب کی انتہائی معتبر کتاب الہدایہ کے حاشیے پر لکھا ہوا ہے کہ ’’اس کا احتمال کہ جاہل سے انکی مراد مقلد ہے کیونکہ انھوں نے اسے مجتہد کے مقابلے میں ذکر کیا ہے‘‘۔(ہدایہ اخیرین،صفحہ 132، حاشیہ 6، کتاب ادب القاضی)

06۔ دیوبندیوں کے ’’امام اہلسنت‘‘ سرفراز خان صفدرجہالت اور تقلید کے چولی دامن کے ساتھ کے بارے میں رقمطراز ہیں: اور تقلید جاہل ہی کیلئے ہے۔ (الکلام المفید،صفحہ 234)

07۔ بریلویوں کے نزدیک بہت اونچا مقام رکھنے والے صوفی سلطان باہومقلدوں کا حقیقی مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بلکہ اہل تقلید جاہل اور حیوان سے بھی بدتر ہیں۔(توفیق الہدایت، صفحہ 20)
مزید کہتے ہیں: اہل تقلید صاحب دنیا،اہل شکایت اور مشرک ہوتے ہیں۔(توفیق الہدایت، صفحہ 67، طبع پروگریسو بکس لاہور)

حنفی، دیوبندی وبریلوی علماء کی مقلد اور تقلید کے بارے اس صراحت اور انکشاف کے بعد کوئی بدبخت ہی ہوگا جو تقلید کا طوق اپنی گردن میں ڈال کراپنے ہی ہاتھوں خود کو ذلیل و رسواء کرے گا۔اب غیر حنفی علماء کی رائے بھی تقلید و مقلد کے بارے میں ملاحظہ فرمالیں جو کہ حسب سابق آراء کی طرح کچھ اتنی اچھی نہیں ہے۔حقیقی واقعہ بھی یہی ہے کہ تقلید اور مقلدچیز ہی ایسی ہیں کہ کسی ذی فہم اور سمجھدار شخص کی رائے کبھی بھی ان دو چیزوں کے بارے میں اچھی نہیں ہوسکتی۔

08۔ احناف تو احناف،غیر احناف کے نزدیک بھی مقلد ہونا بدبختی اور بدنصیبی کی علامت ہے حتی کہ بہت سوں کے نزدیک پہلا مقلد شیطان تھا۔ ابن الجوزی کے استاذ ابو الوفاء علی بن عقیل بن محمد بن عقیل البغدادی الحنبلی (متوفی 512 ھ) فرماتے ہیں: یہ وہ راستہ ہے جس میں لوگوں کی تعظیم (ہوتی) ہے اور دلیلوں کو ترک کردیا جاتا ہے اور یہی تقلید ہے پس اس راستے پر سب سے پہلے چلنے والا شیطان ہے۔(کتاب الفنون، جلد 3، صفحہ 604)

09۔ حافظ ذہبی نے فرمایا: ایک مذہب کی قید کو وہی اختیار کرتا ہے جو حصول علم پر قادر ہونے سے قاصر ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے زمانے کے اکثر علماء میں یا جو متعصب ہوتا ہے۔(سیراعلام النبلاء،جلد 14، صفحہ 491)
اس کلام کا منشاء یہ ہے کہ مقلد یا تو جاہل ہوتا ہے یا متعصب۔

10۔ حافظ ابن عبدالبر اندلسی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’لافرق بین مقلد و بھیمۃ‘‘مقلد اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔(جامع بیان العلم وفضلہ،جلد 2، صفحہ 228)

حنفی، دیوبندی ،بریلوی اور غیر حنفی علماء کے ان حوالہ جات کے بعد تو کوئی عامی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ تقلید کی لعنت میں مبتلا ہوکر خود کو جاہل، غبی،بے عقل،متعصب،جانور بلکہ جانور سے بھی بدتر اور ابلیس کا پیروکار وغیرہ کہلائے کجا یہ کہ کوئی اہل علم اس تقلیدی مرض میں مبتلا ہونا پسند کرے کیونکہ یہ ایک عالم کی شان کے حد درجہ خلاف ہے بلکہ وہ کام جو کسی جانور کے لائق ہے وہ کسی انسان کوکیسے زیب دے سکتا ہے؟!

تقلید کی ان تصریحات اور تشریحات کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بلاشک وشبہ تقلیدکرنا اور مقلد ہونا ایک شریف النفس آدمی کے لئے کسی گندی گالی سے کم نہیں۔یہی وجہ ہے کہ حنفی حضرات مجتہد کے لئے تقلید کو ناجائز و حرام قرار دیتے ہیں۔ غورطلب بات یہ ہے کہ اگرواقعطاً تقلید کوئی اچھی چیز ہوتی تو عامی مسلمان کے لئے جائز بلکہ واجب اور ایک مجتہد مسلمان کے لئے ناجائز و حرام کیوں ہوتی؟! بلکہ سبھی مسلمانوں کے لئے یکساں طور پریا تو جائز ہوتی یا سبھی کے لئے حرام ہوتی!!!

تقلید سے متعلق مقلدین حضرات چاہے کتنی ہی تلبیس ابلیس سے کام کیوں نہ لیں،یہ موئی تقلیدکس قدر خراب چیز ہے اس کااندازہ آپ مقلدین کے اس طرز عمل سے باآسانی کرسکتے ہیں کہ جب اس تقلید کی نسبت ان کے امام، ابوحنیفہ کی جانب کی جائے تو مقلدین ناراض ہوجاتے ہیں اور تقلید کو اپنے امام کے حق میں بے عزتی اور توہین گردانتے ہیں۔لیکن یہی جاہل اور بدبخت جو امام کے لئے تو تقلید کی نسبت کو گستاخی اور سب وشتم سے تعبیر کر رہے ہوتے ہیں یہی عاقبت نا اندیش نبی کریم کے حق میں اسے استعمال کرتے ہوئے زرا بھی نہیں شرماتے بلکہ شرم وحیا کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ملاحظہ فرمائیں:

دیوبندی امت کے حکیم مولانا اشرف علی تھانوی صاحب اس تقلید کو جو شاہ ولی اللہ حنفی کے بقول چوتھی صدی ہجری میں ایجاد ہوئی رسول اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے بے دھڑک سنت کہتے ہیں۔چناچہ رقم کرتے ہیں: یہ وہ حدیث ہے جو مقصد اوّل میں بعنوان حدیث چہارم معہ ترجمہ کے گزرچکی ہے ملاحظہ فرمالیا جاوے اس سے جس طرح تقلید کا سنت ہونا ثابت ہے۔جیسا کہ اس مقام پر اس کی تقریر کی گئی ہے۔اسی طرح تقلید شخصی بھی ثابت ہوتی ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 58)

ہم پوچھتے ہیں کہ اگر تقلید سنت ہے تو ابوحنیفہ الکوفی نے خود کو ساری زندگی اس سنت سے دور کیوں رکھا؟؟ کیا ہم سمجھیں کہ سنتوں کی مخالفت کرنا ہی ابوحنیفہ الکوفی مرجئی کا مقصد حیات تھا؟؟؟

اشرف علی تھانوی نے تو تقلید کو تقریری سنت کہا لیکن منظور احمد مینگل دیوبندی نے رہی سہی کسر نبی کریم کو مقلد بنا کر پوری کردی ۔نعوذباللہ

آل دیوبند کے مناظر اسلام،وکیل احناف حضرت مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل سپرد قلم فرماتے ہیں: صحابہ تو مقلد تھے ہی لیکن اگر اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مقلد تھے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(تحفۃ المناظر، صفحہ 111)

دیوبندی انصاف کا اندازہ کریں کہ نبی کریم کا ایک ادنی اور حقیر امتی ابوحنیفہ توان کے نزدیک مجتہد بلکہ مجتہد اعظم اورخود نبی کریم جوصرف امام نہیں بلکہ امام الانبیاء ہیں ان کے نزدیک مقلد۔ استغفراللہ ثم استغفراللہ

یہ لوگ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس کے ذریعے انہیں اپنے خود ساختہ امام کی خود ساختہ شان بڑھانے کا موقع ملے چاہےاس کی قیمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی صورت میں کیوں نہ چکانی پڑے انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔بس انکے امام کی ناک اونچی رہنی چاہیے۔تقلید کو ثابت کرنے کے لئے یہ لوگ ہوش و خرد سے اس قدر بیگانہ ہوگئے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ مقلد کا جو لفظ انہیں اپنے امام کے حق میں گالی محسوس ہوتا ہے وہی لفظ اللہ کے رسول کے لئے لائق احترام کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟

ایک مرتبہ پھر ان حوالہ جات پر سرسری نظر ڈالیں جومضمون کے آغاز میں مقلد کی مذمت اور برائی میں نقل کئے گئے ہیں۔خود احناف کے بقول تقلید انسانی نہیں بلکہ حیوانی فعل ہے اس لئے مقلد بھی انسان کم حیوان زیادہ ہے۔پھر ان گستاخ دیوبندیوں کی اس جراء ت اور بے باکی کو ملاحظہ فرمائیں کہ کس بے حیائی سے انھوں نے اس کام کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کردی جو کام ایک بے عقل،جاہل، مشرک، بے وقوف،متعصب اور جانور سے بھی بدتر شخص کے کرنے کے لائق ہے۔
کیا نبی کریم کی اس سے بڑھکر بھی توہین ممکن ہے؟! خود کو مسلمان کہنے والوں کی رسول اللہ کے حق میں یہ شدید ترین گستاخی ہے جو اس لعین فرقہ دیوبندیہ کو بدترین گستاخ فرقہ ثابت کرتی ہے۔مسلمانوں کو اس گستاخ فرقے سے بچناخود انکے اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے بہت ضروری ہے۔اللہ تمام مسلمانوں کو اس فرقے کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین

Wednesday, 23 May 2012

Muhammad s.a.w. ki Shafa'at Ke Mustahiq Kaun? - محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق کون؟ - Cd/Dvd Quality Video

 Muhammad s.a.w. ki Shafa'at Ke Mustahiq Kaun?



محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق کون؟

Shaikh Imraan Hedarabadi Hifzullah


مختصر بیان: شفاعت کے باب میں قدیم وجدید ہردورمیں لوگ مختلف آراء کے شکاررہے ہیں مگراہل سنت والجماعت کا موقف اس باب میں حق ومعتدل رہا ہے.ویڈیو مذکور میں فاضل خطیب برادرعمران حیدرآبادی -حفظہ اللہ- نے شفاعت کا معنى ومفہوم’اسکی قسمیں’اسکی شرطیں’محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحقین اورحصولِ شفاعت کے اسباب کو نہایت ہی عام فہم انداز میں کتاب وسنت کی روشنى میں پیش کیا ہے.


Sunan Al-Nasai - Arabic Only - سنن النسائي (مع أحكام الألباني) (ت مشهور) - Arabic Hadith Book

Sunan Al-Nasai - Arabic Only
بيانات الكتاب ..
العنوان  سنن النسائي (مع أحكام الألباني) (ت مشهور)
المؤلف  الإمام النسائي
نبذه عن الكتاب
ألف النسائي كتاب السنن الكبرى، وجمع فيه الصحيح، والحسن، وما يقاربه، ثم اختصره في كتاب سماه المجتبى من السنن (السنن الصغرى) ورتبه على الموضوعات، والأبواب الفقهية. قال بعض العلماء: إن درجة كتاب النسائي بعد الصحيحين؛ لأنها أقل السنن ضعيفًا. وانتقد ابن الجوزي عليها عشرة أحاديث وليس حكمه مسلمًا به، ففيها الصحيح، والضعيف، والحسن، والضعيف فيها قليل.
مكتبة المعارف للنشر والتوزيع
الرياض



Mahnama Mohaddis 1979 - 74 to 79 - January to December - Islamic Magazines

ماہنامہ محدث  لاہور


فہرست مضامین


Download - January,February
Download - March, April
Download - May,June
Download - July,August
Download - September,October
Download - November,December

Right click on Download Links and click- "Save Target  as" OR "Save Link as"     

ماہنامہ محدث کا اجمالی تعارف

مدیر اعلیٰ: حافظ عبدالرحمٰن مدنی                                          مدیر:ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
ماہنامہ محدث كى ابتدا انڈيا سے نكلنے والے ايك رسالے كى ہى ارتقائى شكل ہے -جامعہ رحمانيہ دہلى سے نكلنے والا ايك رسالہ جس كا نام محدث ہى تها اسى كو پروان چڑهاتے ہوئے تقسيم ہند كے بعد دوباره ماہنامہ محدث كے ہی  نام سے پاكستان ميں عظیم اسکالر حافظ عبدالرحمنٰ مدنی نے  اس كا اجراء كيا اور 1970سے لے كر اب تك كامرانى وكاميابى سے شائع ہو رہا ہے ­-محدث كى علمى پہچان كے حوالے سے اتنا ہى كافى ہے كہ ماہنامہ محدث ہر صاحب علم وفضل كى ضرورت بن چكا ہے كيونكہ اس كے مضامین جديد فكر کے حامل اور ملحدانہ افكار كے ليے تلوار بے نيام كى حيثيت ركهتے ہيں-
اجرائے محدث کے مقاصد

عناد اور تعصب سے بالا تر ہوكر اسلام كى ابدى تعليمات كو فروغ دينا                   دين اسلام پر غير مذاہب كے حملوں كا دفاع كرنا
قوانين ومسائل اسلاميہ كو نرم كر كے اسلامى روح كو كمزور كرنے والے عناصر كى بيخ كنى كرنا
علوم جديده سے بہره ور كر كے انسانى افكار كو ارتقا ء تك لے جانا                          اتباع كتاب وسنت كى طرف والہانہ دعوت دينا

وحدت امت كو قائم ركهتے ہوئے سلف صالحين كے متفقہ فہم كا پرچار كرنا
اور
صحابہ، تابعين، محدثین اور تمام آئمہ كرام سے محبت كے جذبات كو پروان چڑهانا اس علمى وفكرى مجلے كا شعار ہے
يقينى طور پر ماہنامہ محدث علمى، تحقیقی،معلوماتى اور انتہائى شائستہ زبان ركهنے والے مضامين كا ايك حسین امتزاج ہے