Friday, 25 May 2012

Bidat e Hasna Aur Bidat e Sai'a - بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ - Online Books

بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ


عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
"میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار اور بندوبست کروں گا اور ضرور بالضرور تم میں سے کچھ لوگ دکھانے کے لیے ظاہر کیے جائيں گے- پھر ضرور انہیں مجھ سے دور کھینچ لیا جائے گا- میں کہوں گا، میرے پروردگار! میرے ساتھی ہیں- کہا جائے گا، بےشک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد نئے کام ایجاد کرلیے تھے (یعنی دین میں بدعات کو رواج دیا تھا)۔
تخریج: بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6576)۔

انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
حوض پر میرے ساتھیوں (مسلمانوں) میں سے کچھ لوگ صرف میرے پاس پانی پینے کے لیے آئيں گے حتی کہ جب میں انہیں پہچان لوں گا تو مجھہ سے دور کھینچ لیے جائيں گے- میں کہوں گا، میرے ساتھی (مسلمان )ہیں- اللہ فرمائے گا آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (وفات کے) بعد دین میں نئے کام ایجاد کرلیے تھے۔
تخریج: بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6582)۔

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
بے شک میں حوض پر تمہارے لیے انتظار و استقبال کا سامان تیار کروں گا- جو میرے پاس سے گزرے
گا پانی پیے گا اور جو پانی پی لے گا پھر کبھی پیاسا نہیں ہوگا- ضرور بضرور میرے پاس کچھ قومیں (مسلمانوں کی) آئيں گی میں انہیں جانتا ہوں گا (کہ وہ مسلمان ہونگے) وہ مجھے پہنچان لیں گی (کہ میں ان کا رسول ہوں) پھر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ حائل کردی جائے گا- (یعنی حوض کوثر سے دور کردیے جائيں گے)۔
ابو حازم رضی اللہ عنہ نے کہا پس نعمان بن ابی عیاش نے مجھ سے سماع کیا تو کہنے لگا کیا اسی طرح تونے سہل بن سعد سے سنا تھا؟ میں نے کہا، ہاں- کہا، میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ پر شہادت دیتا ہوں- یقینا میں نے اس سے سنا اور اس میں مزید یوں کہتے تھے، پس میں کہوں گا بےشک یہ مجھہ سے ہیں (میرے امتی ہیں)- کہا جائے گا، بے شک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (وفات کے بعد)دین میں نئے کام ایجاد کرلیے؟ پس میں (رسول اللہ) کہوں گا، شدید بغض اور دوری ہو، دوری ہو، اس کے لیے جس نے میرے بعد (میرے دین کو) بدل ڈالا۔
تخریج:۔ بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6583)، (6584)۔

فوائد: ان اوپر بیان کی گئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی لوگ (جو لوگ دین میں ثواب کی خاطر نئے کام ایجاد کریں) حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے- بدعت ایسا قبیح گناہ لے کہ اس سے توبہ بھی انتہائی مشکل ہے کیونکہ انسان اسے برا سمجھ کر نہیں بلکہ نیک اورباعث اجر و ثواب سمجھ کر بجا لاتا ہے- نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
{من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد}
" جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تھا تو وہ مردود ہے-"۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور-)۔

ایک اور روایت میں ہے کہ:۔
{ عن عائشۃ رضی اللہ عنہھا قالت :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد}۔
" عائشہ رضی اللہ عنہھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماری مہر نہیں تو وہ رد کیا ہوا ہے-" (یعنی وہ کام جو ہم نے نہیں کیا)۔
(صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب نقص الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور)۔

جامع ترمذی میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
{من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لا ترضی اللہ ورسولہ کان علیہ مثل آثام من عمل بھا لا ینقص ذلک من اوزارالناس شیئا}
" جس نے کوئی گمراہی کی بدعت ایجاد کی، جو اللہ اور اس کے رسول کو راضی نہیں کرتی، اس پر ان تمام لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنہوں نے اس بدعت پر عمل کیا لیکن اس سے لوگوں کےگناہوں سے کچھ کم نہیں ہوگا (انہیں اپنے گناہ مکمل ملیں گے لیکن اتنا گناہ بدعت ایجاد کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا)-"۔
( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع)۔

سنن نسائي کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوراں خطبہ یہ کلمات کہا کرتے تھے:۔
{وشر الامور محدثاتھا و کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار}۔
"معاملات میں سے بدترین وہ ہیں جو (دین میں) نئے ایجاد کیے گئے ہوں اور ہر نئی ایجاد کی جانے والی چيز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے"۔
(سنن نسائی، کتاب صلاۃالعیدین، باب کیف الخطبۃ)۔

ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بدعات سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے:۔
{ایاکم ومحدثات الامور}۔
" (دین میں) نئے نئے کام (یعنی بدعات) ایجاد کرنے سے بچتے رہنا-"۔
( مسند احمد:4/126، دارمی:1/57، ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب فی لزوم السنۃ:5607، ترمذی، کتاب العلم، باب فی الاخذ بالسنۃ واجتناب لبدع:2676، ابن ماجہ، مقدمہ، باب اتباع السنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین:42، مستدرک حاکم:1/96)۔

بدعتی کو پناہ دینے سے بھی منع کیا گیا ہے- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
{لعن اللہ من آوی محدثا}۔
" اللہ تعالی کی لعنت ہو ایسے شخص پر جو بدعتی کو پناہ دے-"۔
(صحیح مسلم، کتاب لاضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالی ملعن فاعلہ)۔

امام دارمی بیان کرتے ہیں کہ ھم سے حکم بن مبارک نے بیان کیا، حکم بن مبارک کہتے ھیں کہ ھم سے عمروبن یحی نے بیان کیا،عمروبن یحی کہتے ھیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا،وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے فرمایا:۔
"ھم نمازفجرسے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر بیٹھ جاتے،اورجب وہ گھر سے نکلتے توان كے ساتھ مسجد روانہ ہوتے،ایک دن کا واقعہ ہے کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کیا ابوعبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود) نکلے نہیں ؟ھم نے جواب دیا نہیں،یہ سن كر وہ بھی ساتہ بیٹھ گئے،یہاں تک ابن مسعود باہرنکلے،اورھم سب ان کی طرف کھڑے ہو گئے تو ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ان سے مخاطب ہوئے اورکہا : ائے ابوعبدالرحمن ! میں ابھی ابھی مسجد میں ایک نئی بات دیکھ آ رہا ھوں،حالانکہ جوبات میں نے دیکھی وہ الحمد للہ خیر ہی ھے،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کونسی بات ھے؟ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرزندگی رہی توآپ بھی دیکھ لیں گئے،کہا وہ یہ بات ھے کہ کچھ لوگ نمازكے انتظارميں مسجد کے اندرحلقہ بنائے بیٹھے ھیں،ان سب كے ہاتوں ميں كنكرھیں،اورہرحلقے میں ایک آدمی متعین ھے جو ان سے کہتا ہے کہ سو100 بار اللہ اکبر کہو،توسب لوگ سوباراللہ اکبرکہو،توسب لوگ سو بار اللہ اکبر کہتے ھیں،پھرکہتا ہے سو بار لاالہ الااللہ کہو توسب لوگ لاالہ الااللہ کہتے ہیں ،پھرکہتا ہے کہ سوبارسبحان اللہ کہو توسب سوبارسبحان اللہ کہتے ہیں-ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھرآپ نے ان سے کیا کہا ،ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کی رائے کے انتظارمیں میں نے ان سے کچھ نہیں کہا؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے ان سے یہ کیوں نہیں کہ دیا کہ آپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورپھراس بات کا ذمہ لےلیتے کہ ان کی کوئی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی۔
یہ کہہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف روانہ ہوئے اورھم بھی ان کے ساتھ چل پڑے،مسجد پہنچ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوکرفرمایا: تم لوگ کیا کررہے ہو! یہ کنکریاں ہیں جن پرھم تسبیح وتہلیل کررہے ہیں ،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کی بجائے تم اپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورمیں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی پھی ضائع نہیں ہوگی، تمھاری خرابی ھے اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی توتمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثیرتعداد میں موجود ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےچھوڑے ہوئے کپڑے نہیں پھٹے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے اورتم اتنی جلدی ہلاکت کا اشکارہوگئے،قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے! یا توتم ایسی شریعت پر چل رہے ہوجونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ھے -- نعوذوباللہ -- بہترھے،یا گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو-انھوں نے کہا ائے ابوعبدالرحمن ! اللہ کی قسم اس عمل سے خیر کے سوا ھماراکوئی اورمقصدنہ تھا-ابن مسعود نے فرمایا ایسے کتنے خیرکے طلبگار ھیں جوخیرتک کبھی پہنچ ہی نہیں پاتے- چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھم سے ایک حدیث بیان فرمائی کہ ایسی ايك قوم ايسى ہو گی جوقرآن پڑھے گی،مگرقرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا- اللہ کی قسم ! کیا پتہ کہ ان میں سے زیادہ ترشائد تمھیں میں ھوں۔
یہ باتیں کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے واپس چلے آئے۔
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان حلقوں کے اکثرلوگوں کو ھم نے دیکھا کہ نہروان جنگ میں وہ خوارج کے شانہ بشانہ ھم سے نیزہ زنی کررہے تھے۔
سنن دارمی ( باب کراھیۃ اخزالرای)

کوئی بدعت "حسنہ" نہیں ہوتی

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں :
١۔ بدعت حسنہ
٢۔ بدعت سیئہ
ذیل میں ہم ان کے شبہات کا ذکر کریں گے، اور ساتھ ہی ان کا علمی جائزہ لیں گے اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔

پہلا شبہ:
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا:۔
(نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ)یہ کتنی اچھی بدعت ہے! (بخاری)

ازالہ:
عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا:
٭ خود قیام رمضان سنت ہے۔آپ
ۖ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ِیْمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (بخاری)
{جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے}۔
٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں باجماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کردیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو بخاری شریف)۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی،اور وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے اس کے فرض کردیئے جانے کا اندیشہ ختم ہوگیا، تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔
٭نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ
(مسند احمدو،ترمذی)
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابو بکر صدیق کے زمانے میں اسے باجماعت کیوں نہیں اداکیا گیا؟ تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ابوبکر کی رائے کے مطابق آخر شب کا قیام اول شب میں امام کے ساتھ اکٹھا پڑھنے سے افضل تھا، لہذاآپ نے اول شب میں ایک امام کے ساتھ پڑھنے پر انھیں جمع نہیں کیا۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک تو آپ کی مدت خلافت کافی مختصر تھی، نیز مرتدین ومانعین زکوٰۃ وغیرہ کے ساتھ معرکہ آرایئوںکی بنا پر آپ کو اس کی فرصت نہ ملی کہ ان امور پر غور کرسکتے۔ عمر کے زمانے میں چونکہ سارے فتنے سرد پڑچکے تھے، اسلامی حکومت مستحکم ہوچکی تھی، اس لئے آپ نے ان امور پر توجہ دی اور سنت کے احیا ء کی فضیلت آپ کو حاصل ہوئی۔
٭اگر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کرلیں کہ قول صحابی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے :
کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة {ہر بدعت گمراہی ہے }(صحیح مسلم)
حدیث بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

دوسرا شبہ:۔
بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے دوسری دلیل کے طور پر حدیث ذیل کو پیش کرتے ہیں۔
عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ص قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ
ۖ مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَْئ وَمَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَْئ۔
(صحیح مسلم)
{جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ا جر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو}۔
اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ یہ حدیث کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَة والی حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہے۔
اس حدیث میں سَنَّ کا لفظ آیا ہے جو اخترع (ایجادکرنے) اور ابتدع (بلا مثال سابق شروع کرنے) کے ہم معنی ہے، نیز اس کے شروع کرنے کو شارع کے بجائے مکلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے، بالکل اس حدیث کی طرح جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْماً ِلاَّ کَانَ عَلَیٰ ابْنِ آدَمَ الَوَّلِ کِفْل مِّنْ دَمِہَا لَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ۔ (بخاری )
{جو نفس بھی ظلماً قتل کیا جائے گا آدم کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ(گناہ) جائے گا اس لئے کہ سب سے پہلے اسی نے قتل کا طریقہ شروع کیا}۔
اس حدیث میں بھی سَنَّ کا لفظ اخترع یعنی ایجادکرنے کے معنی میں ہے، کیونکہ قابیل نے ہی قتل کا طریقہ سب سے پہلے شروع کیا ہے، اس سے پہلے قتل کا وجود نہیں تھا۔ اگر حدیث میں یہ کہنا مقصود ہوتا کہ شریعت میں ثابت کسی سنت پر کسی نے عمل شروع کیا تو سَنَّ کے بجائے یوں کہا جاتا: مَنْ عَمِلَ بِسُنَّتِْ
ـیاـ بِسُنَّةٍ مِّنْ سُنَّتِْ ـ یاـ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِ{جس کسی نے میری سنت پر عمل کیا یا میری کسی سنت کو زندہ کیا}

ازالہ:
مذکورہ حدیث میں کسی نئے عمل کی ایجاد مراد نہیں ہے بلکہ کسی سنت ثابتہ پر عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء مراد ہے۔ اس کی وضاحت دو طرح سے ہوگی۔

١۔ حدیث کی مراد اس کے سبب سے واضح ہوگی۔
چنانچہ پوری حدیث اس طرح ہے :
' جریر بن عبد اللہ ص نے فرمایاکہ دن کے شروع حصہ میں ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک قوم آئی۔ جو ننگے بدن تھی، دھاری دار اونی چادر اوڑھے ہوئے تھی، تلواریں لٹکائے ہوئے تھی۔ ان میں سے بیشتر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے تھے۔ ان کا فقروفاقہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے، پھر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے اذان واقامت کہی،پھر آپ نے صلاۃ پڑھائی، خطبہ دیا اور ان آیات کی تلاوت فرمائی :
( یٰأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔۔۔)الآیة اور (اِتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوْا اللّٰہَ)۔
اور فرمایا : لوگ صدقہ دیں اپنے دینار سے، اپنے درہم سے، اپنے کپڑے سے، اپنے ایک صاع گیہوں اور ایک صاع کھجور سے،حتی کہ آپ نے فرمایا:۔ اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک انصاری ایک تھیلی لے کر آئے، جس سے ان کا ہاتھ تھکا جاتا تھابلکہ تھک گیا تھا، پھر لوگوں کا سلسلہ لگ گیا، یہاں تک کہ میں نے غلے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے، اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک کھل اٹھا ہے اور کندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً۔
۔۔۔۔(مسلم)
اس حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت حسنہ سے انصاری صحابی والے عمل جیسا عمل مراد ہے۔کیونکہ جب وہ تھیلی بھر کر لائے تو صدقہ کا دروازہ کھل گیا، اور لوگ یکے بعد دیگرے اپنے صدقات لانے لگے۔ مگر بہر حال اس خیر وبھلائی کے شروعات کی فضیلت انھیں ہی حاصل ہوئی۔ صحابی مذکور کا عمل کوئی نئی چیز نہیں،بلکہ شریعت سے ثابت ایک عمل تھا۔ زیادہ سے زیاہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کو متنبہ کرنے اور انھیں صدقہ پر ابھارنے میں ان کے کردار کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے، خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل ہوں یا اسے ترک کرچکے ہوں۔
٢۔ اس حدیث میں سَنَّ کے لفظ کو اختراع وایجاد کے معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔اگر شریعت کے موافق ہے تو سنت حسنہ ورنہ سنت سیئہ۔

سنت سیئہ دو چیزوں پر بولا جاتا ہے:۔
الف۔ گناہ ومعصیت کے کاموں کو شروع کرنا،جیسا کہ قابیل سے متعلق حدیث میں ہے جو پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔
ب۔ دین میں کسی بدعت کو شروع کرنا۔

اگر بالفرض مذکورہ حدیث سے شریعت کے اندر بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا جائے تو یہ حدیث ان احادیث سے متعارض ہوگی جس میں بدعت کی عمومی مذمت کی گئی ہے، اور یہ قاعدہ معلوم ہے کہ جب عموم اور تخصیص کے دلائل باہم متعارض ہوتے ہیں تو تخصیص ناقابل قبول ہوتی ہے۔ (الموافقات
٢

تیسرا شبہ :
بدعت حسنہ کی دلیل کے طور پر یہ روایت بھی ذکر کی جاتی ہے:۔
عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ ص أَنَّ النَّبَِّ
ۖ قَالَ لَہُ ِعْلَمْ۔ قَالَ مَا أَعْلَمُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : ِنَّہُ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِّنْ سُنَّتِْ قَدْ أُمِیْتَتْ بَعْدِْ کَانَ لَہُ مِنَ الَجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْئاً وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لاَ یَرْضَاہَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلَ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَ یَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَیْئاً۔ (ترمذی)۔
{بلال بن حارث صسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جان لو۔ انھوں نے کہا : کیا جان لوں اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعدمردہ کی جاچکی تھی، تو اس کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی طرح کی کمی ہو۔ اور جس نے کوئی بدعت ضلالت ایجاد کی جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں، تو اس کو اس پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو}۔

اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ہر بدعت کی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف اسی بدعت کی مذمت کی گئی ہے جواللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہو اور بدعت ضلالت ہو۔

ازالہ:
مذکورہ حدیث سے استدلال اسلیئے درست نہیں کیونکہ وہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جو متروک ومجروح ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔

چوتھا شبہ :
عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں : مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن (مسند احمد
٣)
{جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے}۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ اچھا سمجھنے کی نسبت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، دلیل کی طرف نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ بدعت اچھی اور بری دونوں طرح ہوسکتی ہے۔

ازالہ:
مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس شبہ کے ازالہ کی خاطر پوری حدیث مکمل سیاق کے ساتھ پہلے یہاں ذکر کردیں۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ: ِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَادِفَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ
ۖ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ وَابْتَعَثَہُ بِرِسَالِتِہِ ثُمَّ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَاِد بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ۖ فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہِ یُقَاتِلُوْنَ عَلَیٰ دِیْنِہِ فَمَا رَأَیٰ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن وَّمَا رَأَوْہُ سَیْئاً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَِّئ(مسند احمد)۔
{عبد اللہ بن مسعودص فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔چنانچہ آپ کو اپنے لئے منتخب کرلیا اور آپ کو اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو آپ کے صحابہ کے دلوں کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔ چنانچہ انھیں اپنے نبی کا وزیر بنایا،جو اللہ کے دین کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ لہذا جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اور جسے مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔

یہ حدیث کئی اسباب کی بنا پربدعت حسنہ کے لئے دلیل نہیں بن سکتی:۔
١۔ یہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ لہذا اسے مرفوع کے مقابلے میں پیش کرنا درست نہیں ہے۔ یعنی یہ صحابی کا قول ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ٹکرانا درست نہیں ہے۔
٢۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ حجت ہے تو اس سے مراد اجماع صحابہ ہوگا۔
٣۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس سے مراد غیر صحابہ ہیں، تو عالم وجاہل تمام مسلمان اس سے مراد نہیں ہوں گے، بلکہ اہل اجماع مقصود ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کے عالم وجاہل تمام مسلمان مراد ہیں تو اس سے دو باطل چیزیں لازم آئیں گی:۔
اول: یہ درج ذیل حدیث سے متناقض ہوگا۔
سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِْ عَلَیٰ ثَلاَثٍ وَّ سَبْعِیْنَ فِرْقَةً کُلُّہُمْ فِْ النَّارِ ِلاَّ وَاحِدَة۔ (ابوداود
ـ،مسند احمد ،حاکم)۔
{اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے}۔
تناقض کی صورت یہ ہے کہ سابقہ حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی چیز کواچھا سمجھے تو وہ اچھی چیز ہے۔ یعنی اس کی بات اور اس کا خیال غلط نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر تہتر فرقوں میں تقسیم اور ایک کے سوا سب کے جہنمی ہونے کا کیا مطلب ہوگا!!

دوم : اس کا تقاضہ یہ ہوگا کہ کوئی عمل کسی کے نزدیک حسن ہو اور کسی کے نزدیک قبیح، حالانکہ یہ باطل ہے۔ اور اگر عبد اللہ بن مسعود کی حدیث سے یہ مراد لی جائے کہ جسے عام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے،تو گویا دین میں بدعت ایجاد کرنے کے لئے چور دروازہ کھول دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بدعت حسنہ کے وجود یا جواز پر استدلال کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔

پانچواں شبہ :
سلف صالحین نے کچھ ایسے اعمال انجام دیئے ہیں جن سے متعلق خاص اور صریح نص وارد نہیں ہے۔ جیسے جمع قرآن اور تصنیف علوم وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بدعت حسنہ کا وجود ہے۔

ازالہ :
معلوم ہونا چاہئے کہ وہ چیز بدعت نہیں ہے جس کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہونے کے بارے میں شرعی دلیل موجود ہو۔

جہاں تک جمع قرآن کا معاملہ ہے تو اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا، مگر آپ نے قرآن مجید کے لکھنے کا حکم دیا، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لاَتَکْتُبُوْا عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ (صحیح مسلم )۔
{میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو، جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو اسے مٹا دے}۔

البتہ جہاں تک ایک مصحف میں دو دفتیوں کے درمیان قرآن مجیدکے جمع کرنے کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایسا اس لئے نہیں کیاکیونکہ کچھ آیات یا کچھ سورتوں کے نازل ہونے یا کچھ آیتوں کے منسوخ ہونے کا احتمال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ احتمال ختم ہوگیا۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ مبارک عمل انجام دیا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیا اور تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہوگیا۔

جہاں تک احادیث نبویہ کی تدوین اور علوم شرعیہ کی تصنیف کا سوال ہے تو یہ تبلیغ شریعت کے ضمن میں داخل ہے اور اس کے دلائل واضح اور معلوم ہیں۔

بہر حال سلف کے وہ اعمال جن سے بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا گیا ہے، یا تو وہ سنت کے وسیع مفہوم میں شامل اور داخل ہیں، یا تو کسی شرعی کام کی انجام دہی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں لہذا بدعت نہیں ہیں۔ یہاں پریہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف لفظی ہے، ورنہ تمام معتبر اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بدعات مذمومہ ضلالت ہیں جن کا خلاصہ بیان ہوچکا ہے۔

No comments:

Post a Comment